سپریم کورٹ کا چیئرمین نیب کے تعیناتیوں سے متعلق اختیار پر ازخود نوٹس
سپریم کورٹ نے چیئرمین قومی احتساب بیورو (نیب) کے تعیناتیوں کے اختیار پر ازخود نوٹس لے لیا اور اٹارنی جنرل کو بھی عدالت کی معاونت کے لیے نوٹس جاری کردیا۔
جعلی نیب افسر ضمانت کیس کی سماعت سپریم کورٹ کے جسٹس مشیر عالم اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کی تھی۔
سماعت کے تحریری حکم نامے میں عدالت نے رجسٹرار آفس کو ازخود نوٹس الگ سے سماعت کے لیے مقرر کرنے کی ہدایت کی۔
یہ بھی پڑھیں: 'ملک کو 2 حصوں میں تقسیم کردیا گیا، ہر بندہ کرسی پر بیٹھ کر اپنا ایجنڈا چلا رہا ہے'
تفصیلی حکم نامے میں عدالت نے خود کو ڈی جی نیب عرفان منگی ظاہر کرنے والے ملزم ندیم احمد کی ضمانت منظور کرلی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکم نامے میں کہا گیا کہ ندیم احمد مبینہ طور پر لاہور اور کراچی میں سرگرم گینگ کی سربراہی کر رہا تھا لیکن تحقیقات کے دوران نہ تو کوئی مواد جمع کیا گیا اور نہ ہی کسی گینگ یا شریک ملزم کا سراغ لگایا گیا۔
سپریم کورٹ نے سوال کیا ہے کہ کیا قومی احتساب بیورو (نیب) ذیلی قوانین کے تحت بیورو میں تعیناتی میں آئینی دفعات کو نظرانداز کرسکتا ہے۔
تین صفحات پر مشتمل حکم نامے میں کہا کہ 'اگلی سماعت پر نیب کے پراسیکیوٹر جنرل عدالت کو مطمئن کریں کہ کیا ذیلی قوانین کے تحت آئین کے آرٹیکل 240 اور 242 کے کے مینڈیٹ کو تقرریوں میں نظرانداز کیا جاسکتا ہے'۔
یہ ہدایت محمد ندیم کی طرف سے اسلام آباد کے آبپارہ پولیس اسٹیشن میں ٹیلی گراف ایکٹ کے تحت 19 فروری 2020 کو مقدمہ میں گرفتاری کے بعد ضمانت کے لیے دائر اپیل پر سامنے آیا تھا۔
ساتھ ہی عدالت نے کہا کہ کیس کے سلسلے میں اٹھائے گئے سوال کہ ڈائریکٹر جنرل نیب کس اختیار کے تحت کام کررہے ہیں؟ عدالت کو بتایا گیا کہ انہیں چیئرمین نیب نے قومی احتساب آرڈیننس (این اے او) 1999 کی دفعہ 28 (جی) میں دیا گیا اختیار استعمال کرتے ہوئے تعینات کیا۔
دفعہ 28 کہتی ہے کہ ’اس کے برخلاف کسی بھی چیز کے باوجود یا کوئی بھی قانون جو اس وقت نافذ ہو چیئرمین نیب کو فیڈرل پبلک سروس کمیشن سے مشورہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی‘۔
دوسری جانب آئین کے آرٹیکل 240 میں پاکستان کی سروسز کے لیے تقرری سے متعلق معاملات ہیں اور یہ کام پبلک سروسز کمیشن کے توسط سے اس طرح کی تقرریوں کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ اسی طرح آئین کے آرٹیکل 242 میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی سروسز میں تقررییاں پبلک سروس کمیشن کے ذریعے کی جائیں گی۔
مزید پڑھیں: پشاور ہائیکورٹ کو فوجی عدالتوں کے سزا یافتہ افراد کے کیسز میں حکم دینے سے روک دیا گیا
شق کے مطابق’ یہ تعیناتیاں کرنے اور تعینات کیے جانے والے اشخاص کی قابلیت سے متعلق معاملات اور ان بھرتیوں کا طریقہ کار، تعیناتیوں کی اہلیت اور بھرتی کا عمل ایسا ہونا چاہیے جیسا قواعد میں بتایا جائے‘۔
عدالت نے کہا کہ نیب آرڈیننس کی اس شق کے مطابق بادی النظر میں یہ اختیارات این اے او 1999 کے تحت استعمال کیے جاسکتے ہیں اور اس کے لیے چیئرمین نیب کو قواعد بنانے کی ضرورت ہوگی۔
تاہم عدالت کو بتایا گیا کہ آج تک اس قسم کے قواعد تشکیل نہیں دیے گئے۔
چنانچہ آئندہ سماعت پر پراسیکیوٹر جنرل کو عدالت کو مطمئن کرنا ہوگا کہ کیا ذیلی قانون سازی کے تحت تعیناتیاں کرنے کے لیے آئین کی دفعہ 242 اور 240 کو بالائے طاق رکھا جاسکتا ہے؟
یہ بھی پڑھیں: عدالتیں 50 سال قبل ایسا فیصلہ دیتیں تو مارشل لا لگتے نہ ملک ٹوٹتا، احسن اقبال
عدالت نے حکم دیا کہ اس قسم کے اختیارات کے استعمال سے متعلق از خود نوٹس تیار کرنے اور اسے سماعت کے لیے مقرر کرنے کا حکم دیتی ہے۔
مزید برآں اس نکتے کے لیے آئین اور قانون کی تشریح درکار ہے لہٰذا اٹارنی جنرل فار پاکستان کو عدالت کی معاونت کا نوٹس جاری کیا جاتا ہے۔
خیال رہے کہ 5 اگست کو ایک کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) نیب عرفان نعیم منگی کے تقرر اور اہلیت پر سوال اٹھایا تھا اور سپریم کورٹ نے نیب کے تمام ڈی جیز کے تقرر سے متعلق تفصیلات طلب کرلی تھیں۔
عدالت عظمیٰ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ ڈائریکٹر جنرل نیب راولپنڈی عرفان منگی سے پوچھا تھا کہ آپ کی تعلیم اور تنخواہ کیا ہے، جس پر انہوں نے عدالت کو جواب دیا کہ میں انجینئر ہوں اور میری تنخواہ 4 لاکھ 20 ہزار روپے ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کرپشن مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کا ذمہ دار نیب ہے، سپریم کورٹ
اس پر جسٹس عیسیٰ نے پوچھا تھا کہ کیا آپ فوجداری معاملات کا تجربہ رکھتے ہیں، جس پرعرفان منگی نے جواب دیا کہ میرا فوجداری مقدمات کا کوئی تجربہ نہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ چیئرمین نیب کس قانون کے تحت بھرتیاں کرتے ہیں؟ عرفان منگی کس کی سفارش پر نیب میں گھس آئے، چیئرمین نیب اب جج نہیں، ہم انہیں عدالت بلاسکتے ہیں۔
مزید پڑھیں: ’نیب ملک و قوم کی خدمت کے بجائے اسے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا رہا ہے‘
جسٹس عیسیٰ نے کہا تھا کہ نیب عوام کے پیسے سے چلتا ہے، سب عوام کے نوکر ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ نیب والے عوام کے ملازم ہیں، بار بار مواقع دیے گئے مگر نیب کے غیر قانونی کام جاری ہیں، نیب افسران کی نااہلی کی وجہ سے لوگ جیلوں میں سڑ رہے ہیں، لوگوں کو ڈرانے کے لیے نیب کا نام ہی کافی ہے۔
اس پر پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ ہم اپنا کام قانون کے مطابق کرتے ہیں، جس پر جسٹس عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے ہمیں نیب کے لیے قانون کی کلاسز لگانا پڑیں گی۔
اپنے ریمارکس جاری رکھتے ہوئے وہ بولے کہ نیب کے 1999 سے اب تک کوئی رولز اینڈ ریگولیشنز (قواعد و ضوابط) بنائے ہی نہیں گئے، قواعد نہ بنانے پر نیب کے اپنے خلاف ریفرنس بنتا ہے۔