پاکستان

او آئی سی، کشمیر پر اجلاس بلانے میں پس و پیش سے کام لینا بند کرے، شاہ محمود

اگر اسلامی تعاون تنظیم اجلاس طلب کرنے میں ناکام رہتی ہے تو پاکستان او آئی سی کے باہر اجلاس بلانے کے لیے تیار ہوجائے گا، وزیر خارجہ

اسلام آباد: وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بدھ کے روز غیر معمولی طور پر سخت لہجہ اختیار کرتے ہوئے سعودی عرب کی زیر قیادت اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) سے کہا ہے کہ وہ کشمیر کے بارے میں وزرائے خارجہ کی کونسل کے اجلاس کے انعقاد کے سلسلے میں پس و پیش سے کام لینا بند کرے۔

اے آر وائی نیوز پر ایک ٹاک شو میں شرکت کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ میں ایک بار پھر احترام کے ساتھ اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی کو بتا رہا ہوں کہ ہم وزرائے خارجہ کی کونسل کے اجلاس کی توقع کرتے ہیں، اگر آپ اس کو طلب نہیں کرسکتے ہیں تو پھر میں وزیراعظم عمران خان کو ان اسلامی ممالک کا اجلاس طلب کرنے پر مجبور کروں گا جو مسئلہ کشمیر پر ہمارے ساتھ کھڑے ہونے اور مظلوم کشمیریوں کی حمایت کے لیے تیار ہیں۔

مزید پڑھیں: ’کشمیری پاکستان سے نالاں اور دہلی سے پریشان ہیں‘

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اگر اسلامی تعاون تنظیم، وزرائے خارجہ کونسل کا اجلاس طلب کرنے میں ناکام رہتی ہے تو پاکستان او آئی سی کے باہر اجلاس بلانے کے لیے تیار ہوجائے گا، ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان مزید انتظار نہیں کرسکتا۔

گزشتہ اگست میں بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو ملک میں ضم کر لیا تھا جس کے بعد سے پاکستان، اقوام متحدہ کے بعد سب سے بڑی تنظیم تصور کی جانے والی 57 اسلامی ممالک پر مشتمل اسلامی تعاون تنظیم سے وزرائے خارجہ اجلاس بلانے پر زور دے رہا ہے۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے قبل ازیں ایک پریس کانفرنس میں پاکستان کے لیے سی ایف ایم کی اہمیت کی وضاحت کی تھی، تب انہوں نے کہا تھا کہ مسئلہ کشمیر پر امت مسلمہ کی طرف سے واضح پیغام بھیجنے کی ضرورت ہے۔

گزشتہ اگست کے بعد سے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر کشمیر سے متعلق رابطہ گروپ کا اجلاس ہوا ہے اور او آئی سی کے آزاد مستقل انسانی حقوق کمیشن نے بھی مقبوضہ وادی میں حقوق انسانی کی پامالی کے بارے میں بیانات دیے ہیں لیکن وزرائے خارجہ اجلاس کی جانب کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔

یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں بھارتی محاصرے کے 365 روز

وزرائے خارجہ اجلاس طلب نہ کرنے کے پیچھے ایک بڑی وجہ پاکستان کی طرف سے خصوصی طور پر کشمیر سے متعلق درخواست قبول کرنے میں سعودی عرب کی ہچکچاہٹ ہے، او آئی سی میں سعودی عرب کی حمایت انتہائی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس میں ریاض سمیت دوسرے عرب ممالک کا غلبہ ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان نے گزشتہ دسمبر میں سعودی درخواست پر کوالالمپور سمٹ چھوڑ دیا تھا اور اب پاکستانی مسلمان ریاض سے مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ اس معاملے پر قائدانہ صلاحیتیں دکھائیں۔

انہوں نے کہا کہ ہماری اپنی حساسیت ہے، آپ کو اس کا احساس کرنا ہوگا، خلیجی ممالک کو یہ سمجھنا چاہیے اور اب ہم مزید سفارتی نزاکتوں میں الججھ کر نہیں رہ سکتے۔

شاہ محمود قریشی نے واضح کیا کہ وہ جذباتی نہیں ہو رہے ہیں اور اپنے کے بیان کے مضمرات کو پوری طرح سے سمجھتے ہیں، انہوں نے کہا کہ یہ درست ہے، میں سعودی عرب کے ساتھ اچھے تعلقات کے باوجود ایک مؤقف اپنا رہا ہوں۔

مزید پڑھیں: ’اتنی بڑی قیامت گزر جانے کے بعد کوئی ملک کیسے کھڑا ہوسکتا ہے؟‘

انہوں نے کہا کہ ہم کشمیریوں کے دکھوں پر اب خاموش نہیں رہ سکتے۔

او آئی سی کے کشمیر سے متعلق غیر فعال ہونے پر اسلام آباد میں مایوسی گزشتہ کئی ماہ سے بڑھ رہی ہے اور وزیر اعظم عمران خان نے فروری میں ملائیشیا کے دورے کے موقع پر ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا۔

عمران خان نے کہا تھا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری کوئی آواز نہیں ہے اور ہماری صفوں میں تقسیم ہے، ہم کشمیر سے متعلق او آئی سی کے اجلاس میں مجموعی طور پر اکٹھے تک نہیں ہو سکتے۔

یاد رہے کہ ترکی، ملائیشیا اور ایران نے بھارت کی طرف سے کشمیر کے الحاق کو یکساں طور پر مسترد کیا تھا اور مقبوضہ وادی میں کشمیریوں پر بھارتی سیکیورٹی فورسز کے مظالم پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔