بھارت کی جابرانہ حکومتی پالیسی کی وجہ سے کشمیریوں میں نفرت بڑھی، برطانوی مؤرخ
برطانوی مورخ، سوانح نگار اور جنوبی ایشیا اور کشمیر سے متعلق متعدد کتابوں کی مصنفہ وکٹوریہ شوفیلڈ نے کہا ہے کہ بھارتی حکومت ’گزشتہ برس کے دوران کشمیریوں کے دل و دماغ جیتنے میں ناکام رہی ہے'۔
’کشمیر: خاموشی کے 365 دن‘ کے عنوان سے ویبنار کے دوران گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 5 اگست 2019 سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں جو کچھ ہو رہا تھا اس کے بارے میں بھارتی حکومت نے ’بڑے پیمانے پر غلط فہمی پر مبنی مہم‘ چلائی۔
مزید پڑھیں: '5 اگست کو نریندر مودی بہت بڑی غلطی کر بیٹھا'
واضح رہے کہ نئی دہلی نے گزشتہ سال اگست میں آرٹیکل 370 کو منسوخ کرکے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ’بھارت نے اس سے کہیں زیادہ لوگوں کو اپنے مؤقف کے مخالف کردیا‘۔
ویبنار کی میزبانی ڈان کے اسلام آباد میں ریذیڈنٹ ایڈیٹر فہد حسین نے کی۔
سویڈن کی اپسالہ یونیورسٹی میں امن اور تنازع تحقیق کی پروفیسر اشوک سوائن نے بھی ویبنار میں حصہ لیا۔
وکٹوریہ شوفیلڈ نے کہا کہ گزشتہ چند دہائیوں کے مقابلے میں حال ہی میں کشمیر کی صورتحال پر بین الاقوامی سطح پر زیادہ مظاہرے ہو رہے ہیں، مقبوضہ وادی میں ’طاقت ور کی حکمرانی‘رائج ہے اور بھارتی حکومت ’عالمی برادری اور کشمریوں کے مؤقف کو نظر انداز کرکے اپنی پالیسی پر عمل پیرا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ 'گزشتہ ایک سال کے دوران بھارتی حکومت مقامی قیادت میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش میں ناکام رہی کیونکہ جو بھی بھارتی رہنما بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے حامی کے طور پر سامنے آتا ہے وہ کشمیری آبادی میں بدنام ہوجاتا ہے‘۔
یہ بھی پڑھیں: 'پاکستان کبھی بھی کشمیریوں کو اکیلا نہیں چھوڑے گا'
انہوں نے کہا کہ ’اصل قیادت کا فقدان ہے‘۔
پروفیسر سوائن نے کہا کہ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے جموں و کشمیر کو الحاق کرنے کے لیے یہ اقدام کیوں اٹھایا؟
انہوں نے کہا کہ ’مودی کی مقبولیت مقبوضہ کشمیر میں ایک نازک، غیر مستحکم صورتحال پیدا ہونے سے حاصل ہوئی ہے‘۔
پروفیسر سوائن نے کہا کہ مذکورہ فیصلہ اچھی طرح جانتے ہوئے لیا گیا کہ اس کے نتائج کیا ہوں گے۔
انہوں نے اس اقدام کو ’مودی کی سیاست کے لیے بہت اچھا لیکن کشمیر اور بھارت کے لیے بُرا‘ قرار دیا۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں ایک خاص قسم کی عدلیہ اور سیکولر نظام موجود تھا اور اس کے ایک بڑے حصے نے اس فیصلے سے خود کو دور رکھا۔
پروفیسر نے اس خیال کا اظہار کیا کہ مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ ہورہا ہے وہ ’خوفناک‘ ہے لیکن صورتحال ’بالکل بی جے پی کے زیر کنٹرول میں‘ ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستان کشمیریوں کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رکھے گا، صدر مملکت
انہوں نے کہا کہ وادی میں امن و استحکام کی کوئی علامت نہیں ہے، بی جے پی بڑے پیمانے پر غلط معلومات پر مبنی مہم چلا رہی ہے، مودی ایک مضبوط ہندو رہنما ہونے کا تاثر دے رہے ہیں، ان کے نزدیک کشمیری پہلے مسلمان ہیں اور جب وہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے جیسے اقدامات لے سکتے ہیں تو اس سے ایک مضبوط ہندو قوم پرست رہنما کی حیثیت ظاہر ہوتی ہے۔
پروفیسر نے کہا کہ بھارت بھر میں ہندو قوم پرستی کی لہر ہے جس نے ملک میں زیادہ سیکولر قوتوں کو خاموش کردیا خاص طور پر جب کشمیر کی بات آئے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’کسی ایک بھی سیاسی رہنما نے منسوخی کی کھلے عام تنقید نہیں کی ہے، آج (بدھ) کو ایودھیا میں (بابری مسجد کی جگہ) مندر کی بنیاد رکھنے کے خلاف ایک بھی سیاسی جماعت سامنے نہیں آئی، بھارتی سیاسی جماعتیں جنہوں نے کسی نہ کسی طرح سیکولر ہونے کا دعویٰ کیا ہے، وہ نہیں جانتے ہیں کہ کس طرح ہندوتوا سے نمٹا جائے جو پورے ملک میں پھیل چکا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ہندو قوم پرست طاقتیں ملک میں اس حد تک طاقتور ہوگئی ہیں کہ سیکولر جماعتیں خاموش ہیں، کچھ قوتیں ایسی ہیں جو بی جے پی کی مخالفت کر رہی ہیں لیکن وہ اب بھی مودی کے ایجنڈے کا مقابلہ کرنے کے لیے راہیں تلاش کرنے کی جدوجہد کر رہی ہیں‘۔
مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں بھارتی محاصرے کے 365 روز
بین الاقوامی برادری کے رد عمل کے بارے میں بات کرتے ہوئے پروفیسر سوائن نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ خاص طور پر اقوام متحدہ کو تشویش لاحق ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بین الاقوامی میڈیا نے بڑے پیمانے پر لکھا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں کیا ہو رہا ہے، معلومات کا فقدان نہیں ہے لیکن اس کی رفتار ابھی تک بڑے پیمانے پر نہیں پہنچی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’بین الاقوامی قیادت میں ایک خلا موجود ہے جو کشمیر کے لیے ایک مؤقف اختیار کرے‘۔
ڈومیسائل قانون میں تبدیلیوں کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں مصنفہ وکٹوریہ شوفیلڈ نے کہا کہ اس اقدام سے کشمیر میں استحکام پیدا نہیں ہوگا بلکہ اس کے بجائے ’خاردار تاروں اور اونچے باڑ والے علاقوں کی طرف لے جائے گا جس سے عوام مزید ناخوش ہوں گے‘۔
انہوں نے کہا کہ بھارت ایک سیاسی مقصد کے لیے پوری آبادی کو تبدیل کر رہا ہے جو افسوسناک ہے۔
مسئلہ کشمیر کے ممکنہ حل کے بارے میں بات کرتے ہوئے وکٹوریہ شوفیلڈ نے کہا کہ ’عالمی برادری کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ اس بارے میں بات کرے لیکن اس سے بھارت کو تکلیف ہوتی ہے‘۔
یہ بھی پڑھیں: جموں و کشمیر کی کہانی ایک کشمیری کی زبانی
انہوں نے مزید کہا کہ انہیں ’بھارتی سول سوسائٹی سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ کشمیر سے متعلق اقدام ملک کی سیکولر اقدار سے ہم آہنگ نہیں ہے‘۔
سوائن نے بتایا کہ کشمیر میں بڑھتی ہوئی ناراضگی پائی جارہی ہے اور ’یہ ایک انتہائی دھماکا خیز صورتحال ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ مودی کی حکومت کے بعد ہی اس اقدام کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر کوئی پسپائی ہوجاتی ہے تو یہ صرف چار برس میں نئی حکومت کے بعد ہوگی، ابھی صورتحال بہت کشیدہ رہے گی‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان جو عملی اقدام اٹھا سکتا ہے ان میں ’کشمیریوں کو اخلاقی مدد فراہم کرنا‘ ہے۔
مصنفہ نے کہا کہ او آئی سی، بھارت پر دباؤ ڈالنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسلامی ممالک / او آئی سی جب مسئلہ کشمیر کی بات کرتے ہیں تو وہ عام طور پر تقسیم ہوجاتے ہیں جبکہ انہیں واقعی مسئلہ کشمیر پر اکٹھا ہونا چاہیے۔
وکٹوریہ شوفیلڈ نے مزید کہا کہ پاکستان کو مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو بین الاقوامی فورمز میں لے جانا چاہیے اور دوسرے ممالک کی حمایت کے لیے لابنگ کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ’اس تنازع کو حل کرنے کے لیے مکالمہ ایک سب سے اہم طریقہ ہے، بات چیت میں ناکامی ہی ہمیں اس صورتحال کی طرف لے گئی ہے‘۔
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ
خیال رہے کہ بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے 5 اگست کو صدارتی فرمان کے ذریعے آئین میں مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی دفعہ 370 کو منسوخ کرنے کا اعلان کردیا تھا، جس کے بعد مقبوضہ علاقہ اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی اکائی کہلائے گا جس کی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔
بھارتی آئین کی دفعہ 35 'اے' کے تحت وادی سے باہر سے تعلق رکھنے والے بھارتی نہ ہی مقبوضہ کشمیر میں زمین خرید سکتے ہیں اور نہ ہی سرکاری ملازمت حاصل کر سکتے ہیں، یہ دونوں معاملات بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا ہدف تھے۔
آئین میں مذکورہ تبدیلی سے قبل دہلی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں سیکیورٹی اہلکاروں کی نفری کو بڑھاتے ہوئے 9 لاکھ تک پہنچا دیا تھا۔
بعد ازاں مقبوضہ وادی میں کرفیو نافذ کردیا گیا تھا اور کسی بھی طرح کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کردی گئی تھی جو عید الاضحیٰ کے موقع پر بھی برقرار رہی، تاہم اس میں چند مقامات پر جزوی نرمی بھی دیکھنے میں آئی۔
مزید پڑھیں: ’مسئلہ کشمیر پر تمام آپشنز زیر غور ہیں‘
بھارتی حکومت کے اس غیر قانون اقدام کے بعد کشمیریوں کی جانب سے مسلسل احتجاج بھی کیا جارہا ہے، جبکہ بھارتی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں متعدد کشمیری شہید و زخمی ہوچکے ہیں۔
واضح رہے کہ کشمیر کی خصوصی اہمیت ختم کرنے کے بعد وادی میں ہونے والے انسانی حقوق کے استحصال پر امریکی میڈیا بھی بول پڑا اور اس نے اقوام متحدہ کے کردار پر سوالات اٹھائے تھے۔
سی این این نے اپنی رپورٹ میں سوال اٹھایا کہ ’کیا کشمیر جیسے اس اہم ترین مسئلے پر سلامتی کونسل مزید 50 سال گزرنے کے بعد اپنا کردار ادا کرے گا؟‘
22 اگست کو دنیا میں نسل کشی کی روک تھام کے لیے وقف عالمی ادارے جینوسائڈ واچ نے مقبوضہ کشمیر کے لیے انتباہ جاری کیا تھا۔
عالمی ادارے نے کشمیر میں بگڑتی ہوئی صورتحال کے تناظر میں اقوام متحدہ اور اس کے اراکین سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ بھارت کو خبردار کریں کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی نہ کرے۔
سفارتی محاذ پر پاکستان متحرک
بھارتی کی جانب سے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سفارتی سطح پر پاکستان بھی بہت زیادہ متحرک دکھائی دیتا ہے۔
اس ضمن میں نہ صرف پاکستانی وزیر خارجہ دیگر ممالک سے روابط میں ہیں بلکہ اسلام آباد کے مطالبے پر مسئلہ کشمیر پر بات چیت کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا بند کمرے میں مشاورتی اجلاس بھی منعقد ہوا۔
یاد رہے کہ 22 اگست کو امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے واضح کیا تھا کہ پاکستان، بھارت سے بات چیت کے لیے بہت کچھ کر چکا ہے اب مزید کچھ نہیں کر سکتا، بھارت سے مذاکرات کا فائدہ نہیں ہے۔
انہوں نے اپنے انٹرویو میں نئی دہلی کی موجودہ حکومت کو نازی جرمنی کی حکومت سے تشبیہ دی تھی اور کہا تھا کہ اس وقت 2 ایٹمی طاقتیں ایک دوسرے کی آنکھ میں آنکھ ڈالے ہوئے ہیں، کچھ بھی ہوسکتا ہے۔