پاکستان

پی آئی اے ملازمین کو نوکری سے رضاکارانہ بنیادوں پر علیحدگی کی پیشکش کا منصوبہ

دسمبر 2020 تک پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کے غیراہم اداروں کو مکمل طور پر الگ کردیا جائے گا۔

اسلام آباد: حکومت نے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن کے ملازمین کو رضاکارانہ بنیادوں پر نوکری سے علیحدگی کی اسکیم کی پیشکش کرتے ہوئے چین کی 6.8ارب ڈالر امداد سے بننے والے کراچی تا پشاور ریلوے ٹریک پر موثر عملدرآمد کے لیے 'مین لائن-1 اتھارٹی' کے نام سے ایک اور ادارہ قائم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

یہ سادگی اور ادارہ جاتی اصلاحات پر وزیر اعظم کے مشیر ڈاکٹر عشرت حسین کی ادارہ جاتی اصلاحات کی پالیسی کا حصہ ہے تاکہ معاشی نظم و نسق کے حامل اہم اداروں کی تنظیم نو اور انہیں مضبوط بنایا جا سکے۔

مزید پڑھیں: خصوصی پروازوں کے ٹکٹ اسکینڈل سے پی آئی اے کو لاکھوں روپے کا نقصان

وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ اور محصولات ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی سربراہی میں قومی اقتصادی کونسل (ایکنک) کی ایگزیکٹو کمیٹی ممکنہ طور پر بدھ کو ایک ہزار 733 کلومیٹر مین لائن 1 کی اپ گریڈیشن اور بہتری کی منظوری متوقع دے گی، اس منصوبے کی تکمیل کے بعد مسافر اور کارگو ٹرینوں کی رفتار بالترتیب 160 اور 140 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوجائے گی۔

وزیر اعظم نے پاکستان ریلوے کی تنظیم نو کے منصوبے کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت ریلوے ہولڈنگ کمپنی کو پاکستان الیکٹرک پاور کمپنی کی طرز پر امبریلا آرگنائزیشن کے طور پر فریٹ ٹریفک مینجمنٹ کمپنی، پیسنجر ٹریفک مینجمنٹ کمپنی اور انفراسٹرکچر مینجمنٹ کمپنی کے ساتھ ساتھ تشکیل دیا جائے گا۔

لہٰذا چینی حکام کے ساتھ مکمل ہم آہنگی کے حامل روابط کے لیے ایک مکمل طور پر علیحدہ ML-1 اتھارٹی بھی قائم کی جائے گی، تنظیم نو کی یہ مشق چار ماہ میں مکمل ہوجائے گی، پاک چین اقتصادی راہداری اتھارٹی کے قیام کے بعد چینی سرمایہ کاری سے نمٹنے کے لیے اب یہ دوسری آزاد اتھارٹی ہوگی جس کو قانونی تحفظ دینے کے لیے قومی اسمبلی میں ایک قانونی مسودہ زیربحث ہے، سی پیک اے پر آرڈیننس کی مدت چند ماہ قبل ختم ہو گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: یورپی ممالک کیلئے پی آئی اے کی پروازوں پر پابندی

دوسری جانب پاکستان ریلوے کے نئے چیف ایگزیکٹو آفیسر کے لیے سلیکشن کا عمل شروع کیا گیا ہے اور یہ دو مہینوں میں مکمل ہوجائے گا جبکہ ریلوے بورڈ کو نجی شعبے سے اراکین کو شامل کر کے دوبارہ زندہ کیا جا رہا ہے اور ریلوے ہیڈ کوارٹر میں چار ماہرین کو مینجمنٹ کی تنخواہوں پر بھرتی کر کے مضبوط بنایا جا رہا ہے۔

حکومت نے 15 مسافروں اور دو مال بردار ٹرینوں کو آؤٹ سورس کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ریلوے کی اراضی اور اسٹیشنوں کی ترقی اور انتظام کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (پی پی پی) کے منصوبے جلد ہی شروع کیے جائیں گے۔

رواں سال جون میں سینٹرل ڈیولپمنٹ ورکنگ پارٹی نے اس منصوبے کی لاگت 7.2ارب ڈالر تجویز کی تھی اور اسے باضابطہ منظوری کے لیے ایکنک کے پاس بھیج دیا تھا۔

مزید پڑھیں: وزیر ہوا بازی کی 'ناسمجھ' تقریر پی آئی اے پر پابندی کا باعث بنی، شہباز شریف

البتہ منگل کو منصوبہ بندی کمیشن نے کہا کہ منظوری کے لیے ایکنیک کو بتایا جانے والا تخمینہ 6.8 ارب ڈالر ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ طورخم کے پہلے ہدف کے بجائے پشاور تک ریلوے لائن ختم ہو گئی ہے جبکہ کراچی حیدرآباد سیکشن کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت تجارتی خطوط پر بنایا جائے گا، سیاسی تقسیم سے قطع نظر ایم ایل ون پاکستان حکومت کا اعلیٰ ترجیحی منصوبہ ہے۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے قرضوں کے استحکام کے تناظر میں حکومت پاکستان کے محدود وسائل، امریکا کی جانب سے پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کی مخالفت اور بڑے مالیاتی اثرات کے سبب یہ منصوب زیر بحث رہا، پاکستان ریلوے نے اس منصوبے کی لاگت 9.2ارب ڈالر بتائی ہے جسے منصوبہ بندی کمیشن اور وزارت مواصلات نے لاگت میں کمی کے متعدد اقدامات کے ذریعے کم کیا ہے، بدھ کو ایکنک کی جانب سے باضابطہ طور پر اس منصوبے کی منظوری کے بعد اب دونوں حکومتیں مالی انتظامات کو حتمی شکل دیں گی۔

پی آئی اے کی تنظیم نو کے منصوبے کو حتمی شکل دے دی گئی ہے جس کے تحت رواں ماہ کے اندر کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے ذریعے اسٹریٹیجک بزنس پلان کی منظوری دی جائے گی، پی آئی اے ملازمین کو رضاکارانہ طور پر نوکری سے علیحدگی کی اسکیم کی پیشکش سے قبل رواں ماہ ہیومن ریسورس ریشنلائزیشن پلان بھی منظوری کے لیے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے سامنے لایا جائے گا۔

اس کے علاوہ ، سیکرٹری خزانہ نوید کامران بلوچ کی سربراہی میں ایک کمیٹی کو پی آئی اے کی بیلنس شیٹ کی مالی تنظیم نو کو اس ماہ کے اندر حتمی شکل دینے کا اختیار سونپا گیا ہے جو سرکاری ضمانتوں اور مقامی اور بین الاقوامی قرضوں سے بھری ہوئی ہے، اس کے علاوہ دسمبر 2020 تک ایئر لائن کے غیراہم افعال کو مکمل طور پر الگ کردیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: پی آئی اے کا فلائٹ آپریشن لازمی خدمات قانون کے ماتحت کردیا گیا

وفاقی حکومت نے پہلے ہی 441 تنظیمی اداروں میں سے 324 کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، باقی میں سے 10 اداروں کو صوبوں اور متعلقہ ڈویژنوں میں منتقل کیا جارہا ہے جبکہ 9 اداروں کو ختم یا تحلیل کردیا جائے گا اور 17 کو دیگر میں ضم کردیا گیا ہے۔

مجموعی طور پر 43 اداروں کی نجکاری یا سرمایہ پاکستان میں منتقل کیا جائے گا اور کابینہ کی ایک عمل درآمد کمیٹی ہفتہ وار بنیادوں پر اس عمل کی نگرانی کر رہی ہے۔

یہ خبر 5اگست 2020 بروز بدھ ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔