نقطہ نظر

جب گائے کا رسی چھڑا لینا ہی بہت بڑی 'تفریح' ہوتا تھا

’بقر عید‘ تو پھر گرمیوں میں آگئی ہے، لیکن وہ بے فکرا بچپنہ کہاں سے لائیں کہ جب کسی گائے کا رسی چھڑا لینا ہی بہت بڑی تفریح ہوتا تھا

'بقر عید' ہم بچوں کے لیے وہ تہوار ہوتا تھا کہ جس کے لیے سارا سال دن گنے جاتے تھے اور پھر اس کے گزر جانے کے بعد کئی دنوں تک ہم جولیوں میں اس کی بازگشت رہتی، اسکولوں میں اس عید سے جُڑے قصے خوب سنے اور سنائے جاتے اور ذہنوں میں اس کی یادیں تادیر رہتیں کہ فلاں کا بکرا ایسا تھا اور گائے ایسی تھی۔

دراصل اس تہوار کا اہتمام ہی تہوار سے پہلے ایک 'تہوار' کی طرح ہوتا تھا۔ کبھی ایک ماہ اور کبھی ڈیڑھ ماہ قبل ہی ہمارے محلے میں کہیں نہ کہیں قربانی کے جانور آنے شروع ہوجاتے تھے، پھر دھیرے دھیرے ان کی تعداد میں اضافہ ہونے لگتا۔ ذوالحج کا چاند نظر آتے ہی بہت بڑی تعداد میں گائے، بیل، بکرے، بھیڑیں اور پھر اونٹ وغیرہ بھی آجاتے۔

پھر تو ہمارا فرصت کا سارا وقت ہی قربانی کے انہی جانوروں کو دیکھنے میں گزرتا۔ کیا عجیب شوق ہوتا کہ ہم سارے بچوں کی ٹولیاں جانور دیکھنے روزانہ پورے محلّے میں گھومتے اور پھر آس پاس کے مُحلّوں کا رخ کرتے۔ کہیں کوئی گائے رسی تڑا دیتی، تو گویا ایک 'میلے' کا سا سماں ہوجاتا۔

مزید پڑھیے: اس بار بقرعید یوں منائیں

سنسنی اور تحیر کی ایک نئی داستان بننے لگتی۔ بالخصوص جب گائے، بیل وغیرہ گاڑی سے اتارے جا رہے ہوتے، تو ہم سب بچوں کی یہ خواہش ہوتی کہ بس کسی طرح یہ جانور اترنے کے ساتھ ہی بھاگ جائے۔ اسی لیے ہمارے مُحلے میں ایک روایت سی بن گئی تھی کہ نئے آنے والے جانور کے گاڑی سے اترتے وقت بچوں کا ایک جمِ غفیر جمع ہوجاتا اور خوب شور مچاتا۔

بقر عید سے پہلے کے آخری دنوں میں تو بچوں کی بہت سی ٹولیاں محلے کے داخلی راستوں پر موجود ہوتیں اور جوں ہی گائے بیل لانے والی کوئی گاڑی علاقے میں وارد ہوتی، ویسے ہی یہ اس کے پیچھے ہولیتے اور سارے محلے میں ایک اُدھم مچ جاتا اور اِدھر اُدھر گلیوں کے بچوں کو بھی خبر ہوجاتی، گھروں میں موجود بچے بھی باہر نکل آتے، گویا بچوں کا یہ نئے آنے والے جانور کا ایک 'استقبال' ہوتا۔

مگر سچ تو یہ تھا کہ اس 'خیر مقدم' کو آنے والا ہر بچہ اسی 'آس' پر آتا تھا کہ شاید یہ جانور رسی چھڑا کر بھاگے اور پھر انہیں کوئی 'تماشا' دیکھنے کو ملے، اس لیے جیسے ہی بیل یا گائے گاڑی سے اتر رہی ہوتی، ویسے ہی بچوں کا شور بھی بلند سے بلند تر ہوتا جاتا۔ کبھی کچھ شرارتی بچے گائے کو بِدکانے کی خاطر اس کے پاس پٹاخے بھی پھینک دیا کرتے۔ جس سے بے چارہ جانور برہم ہو نہ ہو، پریشان ضرور ہوجاتا تھا۔

اب یہ صحیح اور غلط سمجھنے کی عمر تو ہوتی نہیں ہے ناں، اس لیے بڑے لاکھ منع کر رہے ہوں، لیکن یہ سب چلتا ہی رہتا تھا۔ پھر اس منظر سے ساری دلچسپی اس طرح ختم ہوگئی کہ جب لوگ 'سمجھ دار' ہوگئے اور انہوں نے حفظ ماتقدم کے تحت گائے کو گاڑی سے اتارنے سے پہلے اُسے ایک اور رسی لے کر گاڑی سے ہی باندھنا شروع کردیا۔

مزید پڑھیے: پھر پہلی کے چاند کو کون پوچھے گا؟

ایسے میں جانور کے بھاگنے میں بڑی رکاوٹ پیدا ہوگئی، ورنہ پہلے جب گاڑی میں سے 'یوٹرن' لے کر گائے کو اتارا جاتا تھا، تو بعض اوقات وہ اترتے ہوئے چھلانگ لگاتے کے ساتھ ایک ہی جست میں رسی چھڑا کر دور نکل جاتی اور لوگوں کی دوڑیں لگ جاتیں، بچے بڑوں کی کسی بھی پریشانی سے بے خبر اس 'تفریح' سے خوب لطف اٹھاتے۔ بعض اوقات تو لوگ اسکوٹروں پر گائے کو پکڑنے دوڑتے اور پتا چلتا کہ ڈیڑھ 2 کلو میٹر دُور سے پکڑ میں آئی ہے!

کیا عجیب دیوانگی کا وقت تھا کہ چھٹی والے دن سارا وقت مُحلے بھر میں یہی مٹر گشت رہتا کہ کس گلی میں کتنے اور کیسے گائے، بیل وغیرہ موجود ہیں۔ ہم تو باقاعدہ 'گائے شماری' کیا کرتے اور پھر ہمیں محلے کے یہ سارے بڑے جانور اتنے ذہن نشین ہوجاتے تھے کہ ہم چشم تصور سے بیٹھے بیٹھے گن لیتے تھے کہ محلے کی کُل 17، 18 گلیوں میں کس گلی کا 'اسکور' زیادہ ہے اور کس گلی کا کم۔ یہی وجہ ہے کہ ہر نئے آنے والے گائے اور بیل وغیرہ کی خبر پا کر ضرور اسے دیکھنے جاتے۔

یوں لگ بھگ ایک بار تو ہمیں یاد ہے کہ اپنے محلے کے 200 کے قریب بڑے جانور ہم نے گن لیے تھے۔ ایسے میں کہیں کوئی گائے، بیل وغیرہ لے کر جا رہا ہوتا، تو ہم فوراً ہی پہچان لیتے کہ یہ دراصل فلاں گلی کا فلاں جگہ بندھا ہوا جانور ہے۔ پھر کبھی کہیں کوئی بہت بھاری آسٹریلین گائے آجاتی، تو اس کے اردگرد ہر وقت ہی بچوں کی بھیڑ لگی رہتی۔

مزید پڑھیے: کیا آپ کی گائے برانڈڈ ہے؟

یہ وہی زمانہ ہے، جب 10، 20 ہزار میں ایک گائے باآسانی آجاتی تھی، ہمیں یاد ہے تب کراچی میں ایک ساڑھے 3 لاکھ کے بیل کا بہت شور مچا تھا اور شاید اسی برس ہمارے پڑوس کے ایک محلے میں بھی ایک لاکھ روپے کا ایک بہت لمبا سا تگڑا کالا سفید آسٹریلین بیل آیا تھا۔

ہم نے بھی جا جا کر کئی بار اسے دیکھا تھا، تب سخت گرمیوں کے دن ہوتے تھے اور اس کے قوی ہیکل جثے پر ہمہ وقت ایک گیلی چادر پڑی رہتی تھی تاکہ اس کے لیے گرمی کی شدت کو کم کیا جا سکے۔ اب تو لوگوں کو ساون کی برساتوں کے سنگ جانوروں کی مہمان نوازی کرنا پڑ رہی ہے۔

شدید گرمیوں کی بقر عید سخت ترین جاڑوں سے ہوتی ہوئی اب دوبارہ گرمیوں کے موسم میں آنے لگی ہے لیکن اب زندگی کے دیگر جھمیلوں نے اپنا قد نکال لیا ہے اس لیے ایک عرصہ ہوا کہ اس رونق سے بے پروا ہوئے۔ ’بقر عید‘ تو پھر گرمیوں میں آگئی ہے، لیکن وہ بے فکرا بچپنہ کہاں سے لائیں کہ جب کسی گائے کا رسی چھڑا لینا ہی بہت بڑی تفریح ہوتا تھا۔

رضوان طاہر مبین

بلاگر ابلاغ عامہ کے طالب علم ہیں۔ برصغیر، اردو، کراچی اور مطبوعہ ذرایع اِبلاغ دل چسپی کے خاص میدان ہیں۔ ایک روزنامے کے شعبۂ میگزین سے بطور سینئر سب ایڈیٹر وابستہ ہیں، جہاں ہفتہ وار فیچر انٹرویوز اور ’صد لفظی کتھا‘ لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔