دنیا

اللہ نے کوئی ایسی بیماری نازل نہیں کی جس کا علاج نہ ہو، خطبہ حج

مشکلات اللہ کا امتحان ہیں،اللہ اپنے بندوں کی آزمائش کرتا ہےاور جو اس میں کامیاب ہوں ان کے لیے بہترین اجر ہے، شیخ عبداللہ بن سلیمان

مکہ المکرمہ: شیخ عبداللہ بن سلیمان نے مسجد نمرہ میں خطبہ حج دیتے ہوئے کہا کہ دنیا پر مشکلات اللہ کا امتحان ہیں، اللہ کے حکم سے ہی مشکلات آتی ہیں لیکن اللہ نے کوئی ایسی بیماری نازل نہیں کی جس کا علاج نہ ہو۔

سعودی عرب میں حج کے رکن اعظم وقوف عرفہ کی ادائیگی کے لیے عازمین میدان عرفات میں موجود ہیں جہاں روح پرور خطبہ حج دیتے ہوئے شیخ عبداللہ بن سلیمان نے کہا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور وہ واحد ہے اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ وہ دن اور رات کا لانے والا ہے اور اسی نے نبی اکرم ﷺ کو بھیجا جو تم پر اہل ایمان کے لیے رؤف و رحیم ہیں۔

خطبہ حج میں انہوں نے اہل ایمان کو مخاطب کرتے ہوئے تقویٰ اور پرہیزگاری کو اختیار کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اللہ ہی زمین و آسمان کا مالک ہے، لہٰذا تقویٰ کو اختیار کرنا چاہیے کیونکہ یہ ایسی چیز ہے جس سے خیرات و برکات کا نزول ہوتا ہے۔

خطبہ حج میں انہوں نے کہا کہ جو اللہ کے لیے پرہیزگاری اختیار کرتا ہے تو اللہ اس کے لیے نجات کے راستے پیدا فرما دیتا ہے، اس کے گناہ معاف کردیتا ہے اور نیکیوں میں اضافہ فرماتا ہے، لہذٰا تقویٰ اختیار کیا جائے، اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرنی چاہیے اور صرف اسی سے مدد مانگنی چاہیے، اللہ نے ارشاد فرمایا کہ اے لوگوں اللہ کی عبادت کرو، جس نے تمہیں پیدا کیا اور فرمایا کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔

شیخ عبداللہ بن سلیمان نے خطبہ حج دیتے ہوئے نبی کریم ﷺ کی نبوت اور رسالت کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو آخری نبی بنا کر بھیجا ہے، مسلمانوں کے لیے لازمی ہیں کہ وہ نبی ﷺ کی نبوت اور رسالت پر ایمان لے کر آئیں چناچنہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آج کے دن تمہارے لیے نعمت مکمل کردی گئی ہے اور تمہارے لیے دین اسلام کو منتخب کردیا گیا ہے۔

خطبہ حج کے دوران حدیث بیان کرتے ہوئے شیخ نے کہا کہ اسلام کی بنیاد ان باتوں پر ہے کہ نماز قائم کرو، رمضان کے روزے رکھو، زکوٰۃ ادا کرو، حج کرو۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ایمان کے ارکان بیان کرتے ہوئے کہا کہ تم اللہ پر، اس کی کتابوں اور فرشتوں اور یوم آخرت پر یقین رکھوں۔

شیخ عبداللہ بن سلیمان نے اہل تقویٰ کی صفات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ان کی سب سے پہلی صفت صبر کرنا ہے وہ اس پر استقامت سے قائم رہتے ہیں۔

خطبہ حج میں شیخ عبداللہ بن سلیمان نے کہا کہ اے لوگوں غور کرو کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کے اندر اسباب پیدا کیے ہیں اور ہمیں دنیا میں بھیجنے کے بعد اپنے پاک کلام میں ارشاد فرمایا کہ اللہ بھوک، خوف، اولاد اور کاروبار کے ذریعے آزمائش کرے گا۔

شیخ عبداللہ بن سلیمان نے کہا کہ اللہ اپنے بندوں کی آزمائش کرتا ہے اور وہ جن کا امتحان لیتا ہے اور اگر وہ اس میں کامیاب ہوں تو بہترین اجر عطا فرماتا ہے اور جو اس آزمائش پر پورا اتریں اللہ کی جانب سے انہیں نوازا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مصائب کے ذریعے بندوں کو آزمایا جاتا ہے اور صبر والوں اور بے صبروں کے درمیان تمیز ہوتی ہے، اللہ نے فرمایا کہ ہم بطریق امتحان تم میں سے ہر ایک کو برائی، بھلائی میں مبتلا کرتے ہیں اور تم سب ہماری طرف لوٹائے جاؤ گے، مشکلات جتنی بڑی ہوں ہمیشہ رہنے والی نہیں اللہ کی رحمت زیادہ وسیع ہے اور ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔

مسجد نمرہ میں خطبہ حج دیتے ہوئے انہوں نے کہا ان مصائب اور مشکلات کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتیں ہیں اور قرآن میں اللہ نے ارشاد فرمایا کہ تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو گن نہیں سکتے، ان نعمتوں پرشکر ادا کرو۔

ان کا کہنا تھا کہ رب کائنات نے واضح ارشاد فرمایا کہ تم سب اللہ کی راہ میں فقیر ہو، وہی غنی ہے اور کائنات میں ایسی کوئی شے نہیں جو اللہ نہ جانتا ہو، ہر وہ بات جو تمہارے نفس اور دل میں چھپی ہوئی ہے وہ بھی اللہ جانتا ہے۔

خطبہ حج میں شیخ کا کہنا تھا کہ گویا اللہ مصائب اور مشکلات کے ذریعے آزمائش فرماتا ہے، اللہ نے اپنے کلام میں اس بارے میں واضح ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ چاہتا ہے تمہارے ساتھ آسانی کرے، تمہارے اوپر یہ جو مشکلات، مصائب ہیں ان کا آنا حقیقت میں اللہ کے قرب کا ذریعہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اقتصادی طور پر مشکلات کا سامنا ہے، خود سعودیہ نے بھی ان مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے انہیں حل کرنے کی کوشش کی، شریعت اسلامیہ نے بھی معاشی طور پر بھی اللہ اپنے بندوں کو جانچتا ہے، لہٰذا تجارت کرنے والے تاجروں کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے سے تعاون کریں تاکہ ان آیام کی شدت سے باہر نکلا جاسکے۔

خطبہ حج دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اللہ نے فرمایا اے ایمان والوں اپنے وعدوں کو پورا کرو جبکہ اللہ نے اپنے کلام میں سود اور یتیم کا مال کھانے کو حرام قرار دیا ہے، ساتھ ہی انہوں نے قرآن پاک کی ان آیات کا حوالہ دیا جس میں ایک دوسرے سے لین دین کا ذکر کیا گیا۔

حقوق العباد کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کسی کا حق نہیں مارنا چاہیے، ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے، ایک دوسرے کے ساتھ بھلائی کے کاموں میں تعاون کرنا چاہیے جبکہ اللہ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے اور اس کے بعد والدین کا احترام کیا جائے، ان سے اونچی آواز میں بات نہ کی جائے حتیٰ کے ان کے سامنے اُف تک نہ کیا جائے، ان سے نگاہیں جھکا کر بات کریں، یہ ضروری ہے کہ والدین کا احترام کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ اللہ، قرآن میں عدل و انصاف کا حکم دیتا ہے اور برائی سے بچنے کا کہتا ہے۔

خطبہ حج میں شیخ نے کہا کہ حضرت اسامہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے حج کے موقع پر فرمایا کہ تمہارا ایک دوسرے کے ساتھ ایسا تعلق ہے کہ تم بھائی ہو ، لہٰذا ایک دوسرے کے حقوق ادا کرو، ایک دوسرے کی امانت دو اور تعاون کرو۔

ان کا کہنا تھا کہ اللہ نے قرآن میں فرمایا کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو، ساتھ ہی فرمایا کہ ایمان کے ساتھ کفر کو ملاؤ نہیں، اللہ نے عدل اور احسان کرنے کا حکم دیا ہے، ساتھ ہی امانت اور حقوق ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

شیخ نے کہا کہ اللہ کا ذکر کرو اور حضور ﷺ کی اطاعت کرو اور جو تمہارے اوپر اسلامی ریاست کے حکمران ہیں جو عدل و انصاف کرتے ہیں ان کی اتباع کرو۔

انہوں نے خطبہ حج میں کہا کہ اللہ نے ارشاد فرمایا کہ اگر اہل ایمان کے دو گروہوں میں لڑائی یا اختلاف ہوجائے تو آپ اس میں ثالث بن کر اس جھگڑے کو ختم کریں کیونکہ مسلمان آپس میں بھائی ہیں اور رسول ﷺ نے حج الوداع کے موقع پر فرمایا کہ تم آپس میں بھائی ہو، مسلمان کا مسلمان پر خون حرام ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسلامی ریاست میں رہتے ہوئے یہ ذمہ داری ہے کہ جب اسے نماز کے لیے بلایا جائے تو وضو کا اہتمام کرے، اگر غسل کی ضرورت ہے تو اس کا اہتمام کرے لیکن اگر وہ مریض ہے یا سفر میں ہے تو اس میں اسے چھوٹ دی گئی ہے، اس کے علاوہ پاکیزہ چیزوں کو حلال اور ناپاک چیزوں کو حرام قرار دیا گیا ہے۔

خطبہ حج میں انہوں نے فرمایا کہ اللہ نے کوئی ایسی بیماری نازل نہیں کی جس کی دوا نازل نہ کی ہو، ہر بیماری کی دوا اور علاج اللہ نے نازل کیا ہے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم سنو کسی جگہ پر طاعون ہے تو تمہیں چاہیے کہ اس سرزمین پر داخل نہ ہو اور جو لوگ وہاں موجود ہیں وہ اس سرزمین سے باہر نہ آئیں۔

سعودی حکومت کی کاوشوں کو بیان کرتے ہوئے شیخ عبداللہ بن سلیمان نے کہا کہ مصائب کے باوجود سعودی حکومت نے حج کا اہتمام کیا اور حاجیوں کو سہولت فراہم کی اور کوشش کی کہ مسلمانوں کو اس مرض سے بچایا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ آج کا دن تمام دنوں سے بڑا دن ہے، آج میدان عرفات میں جمع ہونا برکت کی بات ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے نزیک کوئی ایسا دن نہیں جو یوم عرفہ سے زیادہ پسندیدہ ہو. میدان عرفات میں جمع ہونے والوں کی اللہ بخش و مغفرت فرما دیتا ہے.

آخر میں انہوں نے کہا کہ اے ایمان والو تم خیرات زیادہ کرو اور اللہ کی طرف رجوع کرو اور اللہ ہی سے سوال کرو اور فضل مانگو کیونکہ اللہ اپنی بارگاہ میں سوال کرنے والوں کو رد نہیں کرتا.

شیخ کا کہنا تھا کہ عالم اسلام کو چاہیے کہ اپنے ممالک کے اندر اللہ کا ذکر کرو، اس سے رجوع کرو اور ان مصائب اور مشکلات کے لیے دعا کرو اور میں بھی یہ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تمام مسائل کو دور فرما دے اور ہر مسلمان کے لیے آسانی ہو.

علاوہ ازیں انہوں نے خادم الحرمین شریفین کے لیے بھی خطبہ حج میں دعا کی۔

خیال رہے کہ ہرسال تقریباً 25 لاکھ عازمین حج کی سعادت حاصل کرتے ہیں تاہم رواں برس دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لینی والی کورونا وائرس کی وبا کے باعث بہت محدود تعداد میں سعودی عرب میں ہی مقیم مختلف ممالک کے افراد فریضہ حج ادا کر رہے ہیں۔

اگرچہ سعودی حکومت کی جانب سے رواں سال عازمین کی تعداد کے بارے میں کوئی حتمی اعداد و شمار جاری نہیں کیے گئے لیکن یہ کہا گیا تھا کہ ایک ہزار سے 10 ہزار تک عازمین حج ادا کرسکیں گے.

مناسک حج

مناسکِ حج کی ادائیگی کا سلسلہ 8 ذی الحج سے شروع ہوتا ہے جو 12 ذی الحج تک جاری رہتا ہے۔

8 ذی الحج کو عازمین مکہ مکرمہ سے منیٰ کی جانب سفر کرتے ہیں اور رات بھر عبادت کرتے ہیں۔

9 ذی الحج کو فجر کی نماز کے بعد عازمینِ حج منیٰ سے میدانِ عرفات کے لیے روانہ ہوتے ہیں، جہاں حج کا رکن اعظم وقوف عرفہ کی ادائیگی کی جاتی ہے۔

عرفات میں غروبِ آفتاب تک قیام لازمی ہے اور اس کے بعد حجاج کرام مزدلفہ کے لیے روانہ ہوتے ہیں، جہاں پر مغرب اور عشا کی نمازیں ادا کی جاتی ہیں اور رات بھر یہاں قیام لازم ہوتا ہے۔

10 ذی الحج قربانی کا دن ہوتا ہے اور عازمین ایک مرتبہ پھر مزدلفہ سے منیٰ آتے ہیں، جہاں قربانی سے قبل شیطان کو کنکریاں ماری جاتی ہیں۔

مزدلفہ سے منیٰ کا فاصلہ تقریباً 9 کلو میٹر ہے اور یہاں پر عازمین مخصوص مناسک کی ادائیگی کرتے ہیں اور اس کے بعد حجاج کرام مکہ مکرمہ جاکر ایک طوافِ زیارت کرتے ہیں اور منیٰ واپس آجاتے ہیں۔

11 اور 12 ذی الحج کو تمام مناسک سے فارغ ہونے کے بعد عازمین ایک مرتبہ پھر مکہ مکرمہ جا کر مسجد الحرم میں الوداعی طواف کرتے ہیں۔

اکاؤنٹس کے آڈٹ پر اے جی پی اور انجینئرنگ کونسل کے مابین تنازع

’اے ٹی ایم‘ کے ساتھ مشین لکھنا اضافی ہے، کیونکہ M سے مراد مشین ہی ہے

چاروں بلز ایک ساتھ منظور کروانا حکومت کی خواہش تھی، شاہد خاقان عباسی