پاکستان

ایف اے ٹی ایف سے متعلق دونوں بلز سینیٹ سے بھی منظور

سینیٹ میں پیش کرنے سے قبل قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے دونوں بلز کی باضابطہ منظوری دی۔
|

فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) سے متعلق قانون سازی کے 2 بلز قومی اسمبلی میں منظور ہونے کے بعد سینیٹ میں بھی کثرت رائے سے منظور کرلیے گئے۔

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی سربراہی میں سینیٹ کا اجلاس منعقد ہوا جس میں انسداد دہشت گردی (ترمیمی) بل 2020 اور اقوامِ متحدہ (سیکیورٹی کونسل) (ترمیمی) بل 2020 پر ووٹنگ کروائی گئی اور انہیں کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔

سیینٹ اجلاس سے قبل سینیٹر جاوید عباسی کی سربراہی میں سینیٹ کی کمیٹی برائے قانون و انصاف کا اجلاس ہوا، جس میں انسداد دہشت گردی ترمیمی بل اور اقوام متحدہ سیکیورٹی کونسل ترمیمی بل کو تفصیلی غور و خوص کرنے کے بعد منظور کیا گیا۔

ایوان میں قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے چیئرمین سینیٹر جاوید عباسی نے انسداد دہشت گردی (ترمیمی) بل 2020 جبکہ مشیر پارلیمانی امور نے بابر اعوان نے اقوام متحدہ (سیکیورٹی کونسل) (ترمیمی) بل 2020 پیش کیا۔

یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی میں شور شرابے کے دوران ایف اے ٹی ایف سے متعلق 2 بلز منظور

خیال رہے کہ گزشتہ روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن اور حکومتی اراکین کی جانب سے سخت شور شرابے کے باوجود حکومت دونوں بلز ایوانِ زیریں سے منظور کروانے میں کامیاب ہوگئی تھی۔

سینیٹ میں بل پیش کرتے ہوئے سینیٹر جاوید عباسی نے واضح کیا کہ کوئی بھی جماعت اس قانون سازی کی مخالف نہیں تھی کل پارلیمان میں صرف طریقہ کار پر بحث ہوئی تھی اور ہماری خواہش تھی کہ قانون سازی اتنی اچھی ہو کہ ملک میں اسے غلط طور پر استعمال نہیں کیا جاسکے۔

پاکستان کو اب گرے لسٹ میں رکھنے کا جواز نہیں بنتا، وزیر خارجہ

وزیر خارجہ نے کہا کہ آج ہونے والی قانون سازی کو فوری طور پر ایشیا پیسفک گروپ کو بھجوایا جائے گا اور امید ہے کہ اے جی پی اس کا جائزہ لے کر اکتوبر میں ہونے والے 'پلانری' اجلاس میں اسے پیش کرے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ اب پاکستان نے تمام مراحل طے کرلیے ہیں اس لیے کوئی جواز نہیں بنتا کہ پاکستان کو اب بھی گرے لسٹ میں رکھا جائے، انہوں نے امید ظاہر کی کہ پاکستان کو وائٹ لسٹ میں شامل کیا جائے گا جس کا سہرا پوری قوم کے سر ہوگا۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سینیٹ میں بات کرتے ہوئے کہا کہ آج سینیٹ نے ایک مرتبہ پھر ثابت کردیا ہے کہ یہ ایک پختہ ذہن اور سنجیدہ ایوان ہے اور جہاں پاکستان کا مفاد آئے گا وہاں جماعتی حدود و قیود اور ذاتی مفادات پس پشت ڈالنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔

انہوں نے ایوان میں دونوں بلز کی منظوری پر ایوان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ بھارت کافی عرصے سے پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں شامل کروانے کی کوشش کررہا ہے اور اس کا یہ مقصد ہے کہ پاکستان مالی مشکلات کا شکار رہے۔

انہوں نے کہا کہ میں آج پاکستان مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے آج بھارت کے عزائم کو خاک میں ملادیا، ہمارے باہمی اختلافات ہوسکتے ہیں لیکن پاکستان کے معاملے پر ہم ایک ہیں۔

مزید پڑھیں: نیب، ایف اے ٹی ایف قانون سازی پر بات چیت ڈیڈ لاک کا شکار

ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومتیں عارضی ہیں یہ حالات بدلتے رہتے ہیں لیکن ریاست کے مفادات بالاتر ہیں اور جس طرح سیاسی جماعتوں نے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا یہ وہ اسٹیٹمین شپ ہے جس کا مظاہرہ کیا جانا تھا اور کاش کے جے یو آئی (ف) بھی اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کرتی۔

کلبھوشن کو فرار کروانے کا کوئی ارادہ نہیں، وزیر خارجہ

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کچھ اراکین کو کلبھوشن سے متعلق آرڈیننس کے مضمرات کے حوالے سے تشویش تھی، وہ قید میں ہے اس کی سزا میں کوئی تخفیف نہیں کی گئی اور نہ ہمارا کوئی ایسا ارادہ ہے کہ وہ راتوں رات یہاں سے فرار ہوجائے۔

انہوں نے کہ کلبھوشن کو کوئی رعایت نہیں دی گئی ہم ایک ذمہ دار ملک ہیں، بھارت عالمی عدالت فیصلے میں پہلے بھی یہ معاملہ لے جاچکا تھا اور اس کی کوشش تھی کہ دوبارہ کسی طرح یہ معاملہ وہاں جاسکے جبکہ ہماری یہ کوشش تھی کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر اس طرح عملدرآمد کیا جائے کہ بھارت کو کوئی موقع نہ مل سکے۔

چنانچہ ہم نے ایک نہیں 2 مرتبہ قونصلر رسائی دی جو اعتراض وہ اٹھاتے رہے انہیں ہم بتدریج دور کرتے رہے۔

وزیر خارجہ نے کہ بھارت کی جانب سے قونصلر رسائی کے لیے پہلے حدود قیود طے کیے گئے جس میں شیشے نہ ہونے، بات چیت کی ریکارڈنگ نہ کرنے پر اتفاق کیا لیکن اس کے باوجود قونصلر نے بات نہیں کی کیوں کہ انہیں ہدایت ملی ہوئی تھی کہ کوئی بہانہ بنا کر رفو چکر ہوجائیں اور دوبارہ عالمی عدالت انصاف جانے کا موقع مل جائے۔

چنانچہ انہوں نے ایک مرتبہ پھر اعتراض کیا کہ 2 سیکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی میں ماحول میں گھٹن تھی جس پر میں نے اسی روز سیکریٹری خارجہ کو بھارتی ہائی کمیشن سے رابطہ کرنے اور یہ اعتراض دور کر کے ایک مرتبہ پھر قونصلر رسائی کی پیش کش کرنے کی ہدایت کی۔

یہ بھی پڑھیں: کلبھوشن یادیو سے متعلق آرڈیننس ایوان میں پیش، اپوزیشن کی پراسرار خاموشی

جس پر بھارت کی جانب سے اب تک جواب موصول نہیں ہوا۔

وزیر خارجہ نے کلبھوشن یادیو کے آرڈیننس میں فری اینڈ ٹرائل صرف ایک شخص سے متعلق نہیں ہے بلکہ یہ ہمیشہ کے لیے اور مستقبل میں ایسی صورتحال دوبارہ درپیش ہونے پر اس کا استعمال کیا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ کچھ افراد نے کہا کہ اس آرڈیننس کو چھپایا گیا لیکن اس میں چھپانے والی کوئی چیز ہی نہیں تھی یہ مکمل اوپن پراسس تھا اس میں کوئی ایسی چیز نہیں کہ جس سے پاکستان کو کسی مشکل کا سامنا ہو۔

محسوس ہوتا ہے کہ کلبھوشن ملک میں ہی نہیں، مشاہد اللہ خان

سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ ہمارے دور حکومت میں بھارتی جاسوس کلبھوشن کو گرفتار کیا گیا اور سزائے موت دی گئی لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کلبھوشن کے حوالے سے حکومت نے کوئی منصوبہ بنا لیا ہے جس میں وہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے کلبھوشن کو 3 مرتبہ قونصلر رسائی دی لیکن اس نے قبول کیوں نہیں کی یہ ایک انتہائی اہم معاملہ ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک وفاقی وزیر نے یہ بیان دیا کہ کلبھوشن تو جاچکا ہے، جسے ہم نے اس وقت سنجیدگی سے نہیں لیا اور حکومت کی کسی رکن نے اس سے وضاحت بھی طلب نہیں کی۔

دوسری جانب وزیراعظم یا وزیر خارجہ سمیت کسی کی بھی جانب سے ایکشن تو دور کی بات کوئی ایسا بیان سامنے نہیں آیا کہ اس نے یہ غلط کہا حالانکہ یہ ایک خطرناک معاملہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ کلبھوشن ملک میں موجود ہی نہیں ہے کیوں کہ 3 مرتبہ اسے قونصلر رسائی دی گئی اور وہ نہیں آیا اس کا مطلب وہ اپنا چہرہ نہیں دکھانا چاہتا تو پھر اس وزیر کی بات سے کیا مطلب لیا جائے جبکہ وہ خود قونصلر رسائی مانگتا تھا۔

قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا اجلاس

اس سے قبل سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے اجلاس میں رضا ربانی، فاروق نائیک، عائشہ رضا فاروق، سراج الحق، سینیٹر مصدق ملک، رحمٰن ملک، محسن عزیز، سینیٹر ہدایت اللہ سمیت کمیٹی کے دیگر اراکین نے شرکت کی۔

مزید پڑھیں: اپوزیشن نے نیب آرڈیننس میں 35 ترامیم تجویز کیں، جو ممکن نہیں، وزیر خارجہ

علاوہ ازیں اجلاس میں سیکریٹری قانون خاشیع الرحمٰن، وزارت خارجہ اور وزارت داخلہ کے حکام بھی شریک ہوئے اور بعدازاں اجلاس کے دوران وزیر قانون فروغ نسیم نے بھی شرکت کی تھی۔

اجلاس کے دوران سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ دو اہم بل ہیں جن پر بات ہونی ہے اور ہمارے پاس وقت مختصر ہے۔

اس دوران خصوصی سیکریٹری خارجہ معظم نے اقوام متحدہ سیکیورٹی بل پر کمیٹی کو بریفنگ دی، انہوں نے کہا کہ ایشیا پیسیفک اور ایف اے ٹی ایف نگرانی کر رہا ہے اور وہ سمجھ رہے ہیں کہ ڈومسیٹک قانون میں کچھ تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔

جس پر ارکان کمیٹی نے سوال کیا کہ یہ ایف اے ٹی ایف کی شرائط تھیں یا ہمارے قانون میں خامی تھی؟ اس پر وزارت خارجہ کے حکام نے کہا کہ یہ تمام ایف اے ٹی ایف کی مطلوبہ شرائط ہیں۔

اس پر کمیٹی ارکان نے ایف اے ٹی ایف کے مطالبات کی کاپی فراہم کرنے کا مطالبہ کیا اور اقوام متحدہ سیکیورٹی کونسل بل کو ترمیم کے ساتھ منظور کرلیا۔

جس کے بعد کمیٹی اجلاس میں انسداد دہشت گردی ترمیمی بل پر غور کیا گیا اور اس موقع پر مصطفی نواز کھوکھر اور رحمٰن ملک کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی۔

سینیٹر رحمٰن ملک نے کہا کہ ترامیم کا کیا فائدہ؟ ہمیں بل منظور کرنا ہے، دودھ میں مینگنی ڈالنے کا کیا فائدہ جس پر مصطفیٰ نواز کھوکر نے کہا کہ ہم سب یہاں پر بیٹھے ہوئے ہیں، ہم مینگنیاں نہیں ڈال رہے لہذا آپ سرپرستی نہ کریں۔

جس پر رحمٰن ملک نے جواب دیا کہ میں آپ کی بات نہیں اپنی بات کر رہا ہوں۔

بعدازاں سینیٹ کی کمیٹی برائے قانون و انصاف نے ترامیم کے ساتھ انسداد دہشت گردی ترمیمی بل کی بھی منظوری دے دی۔