سینیٹ: خواتین پر گھریلو تشدد کے خلاف بل، جمعے کی چھٹی کیلئے قرارداد پیش
سینیٹ میں خواتین پر گھریلو تشدد کے خلاف بل اور جمعے کو ہفتہ وار تعطیل کے لیے قرارداد جمع کرادی گئی۔
چیئرمین صادق سنجرانی کی صدارت میں سینیٹ کا اجلاس ہوا جہاں جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق نے قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ جمعے کے روز ہفتہ وار تعطیل کا اعلان کیا جائے۔
مزید پڑھیں:خواتین پر تشدد کے خاتمے کیلئے کیا کرنا ہوگا؟
سراج الحق نے کہا کہ اتوار کی چھٹی سے ہماری معیشت کیا بہتر ہوئی، اکثر مسلمان ممالک میں جمعے کو چھٹی ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اکثر جمعے کے دن خطبہ اور نماز مسجد پہنچتے پہنچتے فوت ہوجاتی ہے۔
وفاقی وزیر علی محمد خان نے اس موقع پر کہا کہ اسلام میں تو چھٹی کا کوئی تصور نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور میں معاشی نقطہ نظر کے پیش نظر اتوار کو چھٹی کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
علی محمد خان نے کہا کہ دنیا میں اکثر اتوار کو چھٹی ہوتی ہے لیکن جمعے کو چھٹی کرتے ہیں تو جمعہ، ہفتہ اور اتوار کو دینی اور معاشی سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ جمعے کی نماز پڑھ کر رزق تلاش کرنے کا کہا گیا ہے، اسلام میں کوئی پابندی کا تصور نہیں۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کا کاروبار ہفتہ، اتوار کو بند ہوتا ہے۔
سینیٹر مشاہداللہ خان کا کہنا تھا کہ جن ممالک سے ہماری معیشت منسلک ہے وہاں اتوار کو تعطیل ہوتی ہے۔
بعدازاں چئیرمین سینیٹ نے معاملہ ایڈوائزری کمیٹی کے سپرد کر دیا۔
خواتین پر گھریلو تشدد کے خلاف بل
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سینیٹر شیری رحمٰن نے ایوان بالا میں خواتین پر گھریلو تشدد کے خلاف بل پیش کیا۔
یہ بھی پڑھیں:سندھ اسمبلی میں خواتین پر تشدد سے متعلق بل منظور
شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ خواتین کو گھریلو تشدد کا شکار کیا جاتا ہے جبکہ گھریلو تشدد کے خلاف سندھ اسمبلی نے جامع قسم کا بل منظور کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گھریلو تشدد کو دنیا میں چھپی وبا سمجھا جاتا ہے، تشدد کو کوئی بھی جائز قرار نہیں دیتا اس لیے خواتین پر تشدد کو جرم قرار دیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کا اس معاملے پر واضع مؤقف ہے۔
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے بل کو متعلقہ کمیٹی کو بھیج دیا۔
یاد رہے کہ سندھ اسمبلی نے 2013 میں خواتین پر تشدد اور گھریلو تشدد سے متعلق بل کثرت رائے سے منظور کرلیا تھا۔
بل میں کہا گیا تھا کہ تشدد میں ملوث افراد کو ایک ماہ سے دوسال تک کی سزا اور ایک ہزار سے پچاس ہزار روپے تک جرمانہ ہوسکے گا۔
آئینی عدالتوں کے قیام کی پیشکش
حکومت نے آئینی عدالت کے قیام کی تجویز پر غور کرنے پر رضامندی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حتمی فیصلہ جلد بازی میں نہیں لیا جانا چاہیے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے سینیٹ کو بتایا کہ 'یہ ایک اچھی تجویز ہے لیکن اس پر عدلیہ، بار کونسلز، تھنک ٹینکس، لا ڈویژن اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ پوری طرح بات چیت کرنے کی ضرورت ہے'۔
انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ موجودہ قوانین میں ایک اہم تبدیلی ہوگی اور اس کے لیے حکومت اپوزیشن کے ایک پیج پر ہونے کی ضرورت ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ 'حکومت کے دروازے کھلے ہیں اور ہم کسی بھی قانون سازی کی تجویز پر بات کرنے کے لیے تیار ہیں'۔
وزیر نے امریکا کے حوالے سے نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ کچھ ممالک میں وفاقی آئینی عدالتیں موجود ہیں۔
اس سے قبل، مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر جاوید عباسی، جنہوں نے اس معاملے پر بات چیت کے لیے تحریک پیش کی تھی، نے کہا تھا کہ عدالت عظمیٰ پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کیونکہ وقت لینے والے آئینی مقدمات سمیت ہر قسم کے کیسز اس کو نمٹانے ہیں جس کی وجہ سے معمول کے مقدمات کی سماعت تاخیر کا شکار ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ سپریم کورٹ کی طرز پر آئینی عدالت قائم کی جائے۔
سینیٹر جاوید عباسی نے سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی سے تجاویز پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے تمام کمیٹی کا اجلاس طلب کرنے کو کہا۔
چیئرمین سینیٹ نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس معاملے پر ایوان اور حزب اختلاف کے رہنماؤں سے بات کریں گے۔
پختونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے ایم اے پی) کے عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ عدالت عظمی نے انتخابی معاملات کی بھی سماعت کی جس میں کبھی کبھی سال لگ جاتے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے مشاہد حسین سید نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ پر دباؤ ہے کیونکہ گیم کے اصول طے نہیں ہوسکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 'اس لیے ایسے فیصلے دیے گئے جو متنازع ہو گئے، انہوں نے 1975 میں نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) پر پابندی عائد کرنے، 1979 میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت دینے اور 2017 میں اقامہ کیس میں نواز شریف کی نااہلی کے فیصلے کا حوالہ دیا'۔
انہوں نے کہا کہ بھٹو کی سزا کو بہت سے لوگوں نے عدالتی قتل کے طور پر دیکھا اور اس بات کی نشاندہی کی کہ وزیر اعظم عمران خان نے خود اقامہ فیصلے کو ایک 'کمزور فیصلہ' کہا تھا۔
انہوں نے کہا کہ مئی 2006 میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے دستخط کردہ میثاق جمہوریہ میں وفاقی آئینی عدالت کا بھی ذکر تھا۔