کراچی میں ان دنوں جتنی گرمی، حبس اور ہوا میں نمی ہے شاید ہی اس سے قبل میں نے محسوس کی ہو۔
گرمی میں تھوڑی دیر چلیں تو جسم پسینے سے شرابور اور سانس پھولنے لگتا ہے، اور یہ مسئلہ صرف انسانوں کے ساتھ نہیں بلکہ ادارے بھی اس کی گرفت میں آچکے ہیں، جیسے ’کے الیکٹرک‘۔ اسی بڑھتی ہوئی گرمی کی وجہ سے اس ادارے کا سانس بھی پھول رہا ہے اور بجلی کی فراہمی کا نظام شدید تعطل کا شکار ہے۔ مجھے اندازہ ہے کہ یہ مسئلہ صرف کراچی کا نہیں بلکہ پورے ملک میں اس وقت بجلی کے مسائل جنم لے رہے ہیں۔
ہمارے دفتر کے ایک ساتھی ہیں، اس سال کے آغاز میں ان کے والد کا بائی پاس آپریشن ہوا تھا جس کے بعد وہ حیدرآباد میں اپنے آبائی گھر منتقل ہوگئے تھے۔ ہمارے دوست کا کہنا تھا کہ پہلے 8 سے 10 گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتی تھی، جو کسی طرح برداشت کرلی جاتی مگر اب تو حد ہوگئی، 4 دن ہوگئے محلے کا پی ایم ٹی خراب ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ کہنے لگے، اب اس مخدوش صورتحال کا کیا حل ہے۔
میں نے کہا کہ آپ اپنے گھر پر سولر سسٹم کیوں نہیں لگوا لیتے، اس طرح بجلی کی لوڈشیڈنگ سے بھی نجات مل جائے گی اور بل بھی کم ہوجائے گا۔ یہ کہنا تھا کہ وہ صاحب میرے پیچھے ہی پڑ گئے کہ تفصیلات بتائیں۔ تو سوچا کیوں نہ اپنے دوست کے ساتھ ساتھ پڑھنے والوں کی بھی مدد کردی جائے اور گھریلو استعمال کے سولر سسٹم کے حوالے سے معلومات انہیں بھی فراہم کردی جائیں۔
اس معلوماتی سفر میں سب سے اہم ان لوگوں کا تجربہ تھا جنہوں نے اپنے گھر پر شمسی توانائی کا سسٹم لگایا ہو۔ ہم پہنچے ریحان اللہ والا کے گھر جنہوں نے اپنے گھر کی چھت پر ایک مکمل سولر سسٹم لگایا ہوا ہے۔
ریحان اللہ والا کو شمسی توانائی کا سسٹم لگائے ہوئے چند سال ہوگئے ہیں اور وہ اپنے گھر کے اس سسٹم سے بہت مطمئن ہیں۔ کہتے ہیں کہ جب سے انہوں نے یہ سسٹم لگایا ہے، وہ دل کھول کر بجلی استعمال کرتے ہیں۔ نہ ایئر کنڈیشنر چلانے پر بجلی کے اضافی بلوں کی پریشانی نہ اضافی لائٹس بار بار بند کرنے کی ٹینشن۔
مزے کی بات یہ کہ اس بلا خوف بجلی کے استعمال کے باوجود ان کے گھر بجلی کا بل صفر آتا ہے بلکہ نیٹ میٹرنگ کے نظام کی وجہ سے ’کے الیکٹرک‘ کو انہیں پیسے دینے ہوتے ہیں۔ فی الحال ان کی فراہم کردہ اضافی بجلی پر ’کے الیکٹرک‘ انہیں کوئی ادائیگی نہیں کررہا ہے مگر وہ پُرامید ہیں کہ مستقبل میں ایسا ہونا شروع ہوجائے گا۔ واضح رہے کہ اسلام آباد میں اس نظام کے تحت اضافی بجلی سسٹم کو دینے پر صارفین کو ادائیگی کی جارہی ہے۔
ریحان اللہ والا نے زندگی کا بیشتر حصہ بیرونِ ملک گزارا ہے، ان کا کہنا ہے کہ متبادل یا گرین توانائی کے یونٹس دنیا بھر میں 3 سے 4 گنا اضافی قیمت پر خریدے جاتے ہیں تاکہ لوگ اس توانائی کا استعمال کریں مگر پاکستان میں اصل یونٹ کی قیمت سے کم ادائیگی کی جاتی ہے۔
ابھی بات چیت جاری تھی کہ سولر پینل کی صفائی کے لیے عرفان صاحب اور ان کی ٹیم پہنچ گئی۔ انہوں نے ہی یہاں یہ شمسی توانائی کا سسٹم لگایا تھا۔ ہم نے موقع کو غنیمت جانا اور معلومات جاننے کی خواہش کا اظہار کردیا۔
عرفان صاحب کا کہنا تھا کہ شمسی توانائی کا نظام متبادل توانائی میں اس وقت ایک قابلِ بھروسہ سسٹم ہے۔ پاکستان میں سورج 350 دن بھرپور چمکتا ہے۔ ان سولر پینل پر کوئی کیمیکل ری ایکشن یا مکینیکل عمل تو ہوتا نہیں کہ کوئی چیز خراب ہوگی۔