افغانستان میں ساڑھے 6 ہزار دہشت گرد اب بھی فعال ہیں، اقوامِ متحدہ
اقوامِ متحدہ نے دعویٰ کیا ہے کہ افغانستان میں پاکستانی پس منظر کے حامل 6 ہزار سے ساڑھے 6 ہزار دہشت گرد اب بھی فعال ہیں اور اپنی پناہ گاہوں کو پاکستان کے اندر اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔
سال 20-2019 میں عالمی سطح پر دہشت گردوں کی سرگرمیوں کے حوالے سے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے لیے تیار کردہ رپورٹ میڈیا کو بھی جاری کی گئی۔
رپورٹ میں کہا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) مرکزی گروپ ہے جس کی زیادہ تر توجہ پاکستان پر ہے اور اس کے اراکین دیگر دہشت گرد تنظیموں میں بھی متحرک رہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھں: افغانستان میں داعش جنوبی ایشیا کے سربراہ سمیت 3 خطرناک دہشت گرد گرفتار
رپورٹ میں کہا گیا کہ ’افغانستان میں پاکستانی غیر ملکی دہشت گردوں کی مجموعی تعداد 6 سے ساڑھے 6 ہزار ہے جس میں سے زیادہ تر کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں اور دونوں ممالک کے لیے خطرہ ہیں‘۔
رپورٹ میں کالعدم ٹی ٹی پی کو ’افغانستان میں سب سے بڑا دہشت گرد گروہ کہا گیا جس کی سربراہی عامر نور ولی کے پاس ہے، قاری امجد نائب سربراہ اور ترجمان محمد خراسانی ہیں‘۔
اقوامِ متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے ملک میں متعدد ہائی پروفائل حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے اور اسی طرح کے حملوں کے لیے جماعت الاحرار (جے یو اے) اور لشکر طیبہ کو سہولت کاری بھی فراہم کی۔
مزید پڑھیں: افغانستان: دہشت گردی کے واقعات میں 26 افراد ہلاک
رپورٹ کے مطابق کالعدم ٹی ٹی پی کے کئی سابق اراکین نے عراق میں داعش اور داعش خراسان میں شمولیت اختیار کر رکھی ہے اور ’اقوامِ متحدہ کی رکن ریاستوں کو محسوس ہوتا ہے کہ یہ گروپ اور اس کے کئی دھڑے خود کو داعش خراسان کی صف میں شامل کرلیں گے‘۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ’داعش خراسان، داعش کی قیادت کے نظریے کو نافذ کر کے ’عالمی ایجنڈا‘ اختیار کرنے کی کوشش کررہا ہے جس میں افغانستان کی سرزمین کو دنیا کے بڑے خطے میں دہشت گردی کا اثر و رسوخ پھیلانے کا اڈا سمجھا جاتا ہے‘۔
یہ خبر 26 جولائی 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔