مانا کہ لیاری میں غربت ہے لیکن یہاں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں۔ دراصل یہاں لوگ اپنے شوق کو پورا کرنے کے لیے ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار رہتے ہیں۔ بچپن کا شوق جنون میں ڈھل جاتا ہے اور جنون انہیں صلاحیتوں سے مالامال کردیتا ہے۔ محنت مزدوری کرنے والے بھی اپنے شوق کے لیے وقت نکالنا فرض سمجھتے ہیں۔
اگر ہم یہ کہیں کہ لیاری کی پہلی پہچان فٹبال کا کھیل ہے تو یہ غلط نہیں ہوگا۔ ہماری اس بات کی تصدیق لیاری کی فٹبالر مائیکاں واحد بلوچ بھی کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یوں سمجھیے کہ فٹبال تو ہمیں جنیاتی طور پر وراثت میں ملی ہے۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے ہر جانب فٹبال کا کھیل اور جنون پایا۔ یہ کھیل یہاں کی ثقافت کا ایک اہم جزو بن چکا ہے۔
لیاری کی فٹبالر مائیکاں جب پہلی بار ککری گراؤنڈ میں لڑکوں کے ساتھ کھیلتی نظر آئیں تو یہ غیر معمولی لمحہ تھا۔ یہ بات اس لیے کہی جارہی ہے کہ ماضی قریب میں فٹبال صرف مردوں کا ہی کھیل سمجھا جاتا تھا، اسی وجہ سے لیاری میں تمام تر فٹبالر مرد تھے، لیکن اب یہ بڑی انقلابی تبدیلی آرہی ہے کہ لڑکے اور لڑکیاں ایک ہی بال کو کِک مارتے ہیں۔ مائیکاں کا کہنا ہے کہ وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کھل کر کھیلتی ہیں۔ لیاری میں مائیکاں بہت سی لڑکیوں کے لیے فٹبال اسٹار ہیں۔
ان کی باتوں میں لیاری کی محبت جھلکتی ہے 'میں نہیں چاہتی کہ لیاری کی پہچان منشیات، گن کلچر سے ہو۔ چونکہ ہمارا یہ علاقہ شروع ہی سے کھیلوں کے ٹیلنٹ سے بھرپور رہا ہے لہٰذا اب ہم لیاری کو اس کی اصل پہچان واپس لوٹانا چاہتے ہیں'۔
جب ہم نے مائیکاں سے پوچھا کہ جب آپ فٹبال کٹ پہن کر کھیلنے گھر سے نکلتی ہیں تو اردگرد کے لوگوں کا ردِعمل کیسا ہوتا ہے؟
اس پر انہوں نے کہا کہ ’شروع میں تو ماحول سازگار نہیں تھا لیکن پھر بابا، امّاں اور بہنوں کی مسلسل حوصلہ افزائی کی وجہ سے ہمت پیدا ہوتی گئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ لوگوں کے رویوں میں بھی تبدیلی آرہی ہے۔
مائیکاں اب پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھنا چاہتی۔ گھر سے میدان تک جانے کے بعد اب وہ لیاری سے باہر کراچی کے دیگر علاقوں اور سندھ کے مختلف شہروں میں بھی اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ 'مجھے پرائڈ آف سندھ سمیت کئی ایوارڈ اور انعامات سے نوازا گیا۔ ہماری اکیڈمی کی خوبی ہمارے کوچ جاوید جافا ہیں۔ ہم نے ان کی نگرانی میں کئی مقابلوں میں حصہ لیا ہے۔ اس وقت ہم 45 کے قریب لڑکیاں فٹبالر ہیں، اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں دیکھا گیا۔ لڑکوں کی تعداد تو پہلے سے بھی زیادہ ہے۔ ہماری اکیڈمی میں کوئی بھی ہیرو یا زیرو نہیں بلکہ تمام لڑکیوں اور لڑکوں کو ایک ہی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ میں ابھی نیشنل چیمپئن کے طور کھیل چکی ہوں، لیکن مجھے اور بہت آگے جانا ہے'۔
میں نے جب ان سے پوچھا کہ لڑکوں کے ساتھ کھیلنے پر کسی نے اعتراض نہیں کیا؟
تو انہوں نے جواب دیا کہ 'نہیں بالکل نہیں، ہمارے والدین روشن خیال ہیں اور معاشرے میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا انہیں احساس ہے، لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ کم سے کم کھیل کے میدان میں تو صنفی تفریق نہیں ہونی چاہیے۔ ہمیں یہ ثابت کرنا ہے کہ لیاری جو مرد فٹبالر کا مسکن رہا ہے، اب وہاں لڑکیاں بھی اپنا لوہا منوائیں گی'۔
مائیکاں نے بتایا کہ جب انہوں نے لیاری سے باہر حیدرآباد میں پہلا گول کیا تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا اور وہاں سے انہیں ایک نیا جذبہ ملا۔