’آرڈیننس میں کلبھوشن یادیو کی سزا ختم نہیں کی‘
وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا ہے کہ ہم نے آرڈیننس لاکر بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی سزا ختم نہیں کی تاہمعالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) کے فیصلے کے تحت پاکستان کلبھوشن کے فیصلے پر مؤثر نظرِ ثانی اور دوبارہ غور کرنے کا پابند ہے لیکن بھارت چاہتا تھا کہ ہم اس پر عمل نہ کریں۔
قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر اسد قیصر کی سربراہی میں منعقد ہوا جس میں وضاحتی بیان دیتے ہوئے وفاقی وزیر فروغ نسیم نے کہا کہ بھارت چاہتا تھا کہ ہم عالمی عدالت انصاف کا حکم نہ مانیں تا کہ وہ اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں جا کر ہمارے خلاف ہر طرح کی قراردار پاس کروائے اور پابندیاں لگواسکے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہم یہ آرڈیننس نہیں لاتے تو بھارت، اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 94، آئی سی جے کے منشور کے آرٹیکل 60 سے فائدہ اٹھا کر سلامتی کونسل میں جاسکتا تھا، اس آرڈیننس کے نفاذ سے ہم نے بھارت سے یہ موقع چھین لیا۔
انہوں نے بتایا کہ 3 مارچ 2016 کو بھارتی خفیہ ایجنسی 'را' کا ایجنٹ کلبھوشن پکڑا گیا اور اس وقت کی حکومت نے فیصلہ کیا کہ جاسوس ہونے کی بنا پر اسے قونصلر رسائی نہ دی جائے جو اس وقت کے حساب سے درست فیصلہ تھا۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت کی اسلام آباد ہائیکورٹ سے کلبھوشن کیلئے وکیل مقرر کرنے کی استدعا
8 مئی 2017 کو بھارت نے عالمی عدالت انصاف میں کیس دائر کردیا جس میں حکم امتناع اور آخری دلائل کے بعد آئی سی جے نے فیصلہ کیا کہ اسے رہا نہ کیا جائے لیکن قونصلر رسائی دی جائے۔
انہوں نے کہا کہ عالمی عدالت انصاف نے پاکستان کو سزا پر مؤثر اور نتیجہ خیز نظر ثانی اور دوبارہ غور کا پابند کیا گیا ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ این آر او میں سزا معاف کردی جاتی ہے، مقدمات ختم کردیے جاتے ہیں لیکن کلبھوشن کے معاملے میں ایسا نہیں کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ آئی سی جے کے فیصلے کی زبان کو مدِ نظر رکھتے ہوئے آرڈیننس نافذ کیا گیا، ہمیں بحیثیت ذمہ دار ریاست آئی سی جے کے فیصلوں پر عمل کرنا ہے۔
فروغ نسیم نے کہا کہ دیگر چیزوں پر سیاست کرلیں لیکن یہ اس کے ساتھ پاکستان کے حساس سیکیورٹی معاملات منسلک ہیں اس پر سیاست نہ کریں۔
مزید پڑھیں: حکومت نے آرڈیننس کی شکل میں کلبھوشن یادیو کو این آر او دیا، بلاول بھٹو
وزیر قانون نے کہا کہ یہ اعتراض کیا گیا کہ آرڈیننس بنانے سے پہلے ہمیں بتایا کیوں نہیں لیکن آئین کی دفعہ 89 کے تحت اگر پارلیمان کے اجلاس منعقد نہیں ہورہے تو گورنر یا صدر آرڈیننس نافذ کرسکتا ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ یہ کہیں نہیں لکھا کہ آرڈیننس منظور کرنے سے قبل صدر، وزیراعظم اپوزیشن یا کسی اور اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد لینے کے پابند ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں میں بھی آرڈیننس کے نفاذ سے قبل اپوزیشن سے مشورہ نہیں کیا جاتا تھا کیوں کہ یہ شرط نہیں ہے۔
فروغ نسیم نے کہا کہ آرڈیننس آفیشل گزیٹ میں 21 مئی 2020 کو شائع ہوا اور سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق جب آفیشل گزیٹ میں کچھ شائع ہوجائے تو یہ عوام الناس کے لیے ایک نوٹس ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان نے کلبھوشن یادیو کیس میں بھارتی وکیل کے بے بنیاد الزامات مسترد کردیے
وزیر قانون نے کہا کہ آرڈیننس کو چھپ چھپا کر نہیں بنایا گیا بلکہ گزیٹ کیا گیا اور اس آرڈیننس میں کلبھوشن کی سزا ختم نہیں کی گئی اس لیے یہ این آر او نہیں ہے بلکہ یہ ثابت کرتا ہے کہ پاکستان ایک ذمہ دار ریاست ہے اور بین الاقوامی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے تمام کوششیں کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے اعتراض کیا گیا کہ اس میں دی گئی وضاحت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ این آر او ہے جبکہ اس وضاحت میں کہاں لکھا ہے کہ اس کی سزا معاف کردی گئی ہے؟ کم از کم اس میں جو لکھا ہے وہ پڑھنے کی کوشش کریں۔
انہوں نے کہا کہ میری ذمہ داری ہے حقائق بتاؤں لیکن میری گزارش ہے کہ یہ معاملہ نہایت حساس ہے اس پر سیاست نہ کی جائے اس کے اثرات ہیں۔
وزیر قانون نے کہا کہ اس معاملے کو جانے دینا چاہیے اور اسے قانون بننا چاہیے، اس آرڈیننس کے مطابق یہ اپیل نہیں ہے بلکہ آئی سی جے کی ہدایت کے عین کے مطابق یہ نظرِ ثانی اور دوبارہ غور سے متعلق ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کا کلبھوشن یادیو کو تیسری مرتبہ قونصلر رسائی دینے کا فیصلہ
فروغ نسیم نے مزید کہا کہ یہ سوال جائز ہے کہ جب آرڈیننس بنایا گیا اس میں لکھا گیا کہ کلبھوشن یا بھارتی قونصل خانے کا کوئی نمائندہ کلبھوشن کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کرسکتا ہے اور جب انہوں نے نہیں کی تھی تو حکومت کو درخواست دائر کرنے کی کیا ضرورت تھی۔
انہوں نے کہا کہ اس کا جواب یہ ہے کہ آئی سی جے اپنے فیصلے میں کہتی ہے کہ مؤثر نظرِ ثانی اور دوبارہ غور کے لیے بنایا جانے والا قانون مؤثر ہونا چاہیے اور نتیجہ خیز ہونا چاہیے یعنی پاکستان کو اس کے نتیجہ خیز ہونے کی شرط بھی پوری کرنی ہے لہٰذا اس پر بات چیت کی گئی نہ صرف اٹارنی جنرل بلکہ بین الاقوامی ماہرین سے بھی رائے لی گئی، جو منقسم تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک رائے یہ تھی کہ آرڈیننس کافی ہے لیکن دوسری رائے میں کہا گیا کہ فیصلے میں درج نتیجہ خیز ہونے کے الفاظ کی وجہ سے کوئی ایسا میکانزم تشکیل دینا پڑے گا کہ نظر ثانی کو عدالت تک پہنچایا جائے اور اس کا طریقہ درخواست دائر کرنا ہی تھا۔
مزید پڑھیں: کلبھوشن یادیو نے سزا پر نظرِ ثانی کی اپیل دائر کرنے سے انکار کردیا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل
انہوں نے کہا کہ دائر پٹیشن میں یہ نہیں کہا گیا کہ سزا معاف کی جائے یا فوجی عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے بلکہ عدالت کے سامنے یہ معاملہ رکھا گیا ہے۔
وزیر قانون نے کہا کہ ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ یہ ایک فرد سے متعلق ہے لیکن یہ کسی ایک شخص سے متعلق نہیں بلکہ مستقبل کے لیے بھی یہ قانون بنایا گیا ہے تا کہ آئندہ کبھی ایسی صورتحال درپیش ہو تو کوئی اور ملک عالمی عدالت انصاف نہ پہنچ جائے، لہٰذا کوئی ایسا شخص جسے فوجی عدالت سے سزا ملکی وہ ایک مقررہ مدت میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں نظرِ ثانی کی درخواست دے سکتا ہے۔
انہوں نے گزارش کی کہ اس معاملے سے سیکیورٹی کے بہت حساس معاملات منسلک ہیں لہٰذ اسے جانے دیا جائے، بعدازاں اسپیکر نے اجلاس پیر کے روز تک کے لیے ملتوی کردیا۔
کلبھوشن سزا پر نظر ثانی کا معاملہ
خیال رہے کہ 8 جولائی کو ایڈیشنل اٹارنی جنرل احمد عرفان نے بتایا تھا کہ پاکستان میں گرفتار اور سزا یافتہ بھارت کی خفیہ ایجنسی 'را' کے ایجنٹ کلبھوشن یادیو نے اپنی سزا کے خلاف نظرِ ثانی کی اپیل دائر کرنے سے انکار کردیا ہے اور اس کے بجائے انہوں نے اپنی زیر التوا رحم کی اپیل پر جواب کے انتظار کا فیصلہ کیا ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ حکومت پاکستان نے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر صحیح طور سے عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان نے 28 مئی کو ’انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس ریویو اینڈ ری کنسیڈریشن آرڈینسس 2020‘ نافذ کیا۔
اس آرٹیننس کے تحت 60 روز میں ایک درخواست کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ میں نظرِ ثانی اور دوبارہ غور کی اپیل دائر کی جاسکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کلبھوشن کی گرفتاری سے لے کر عالمی عدالت انصاف کے فیصلے تک کی روداد
آرڈیننس کے سیکشن 20 کے تحت کلبھوشن یادیو بذات خود، قانونی اختیار رکھنے والے نمائندے یا بھارتی ہائی کمیشن کے قونصلر اہلکار کے ذریعے نظرِ ثانی اپیل دائر کرسکتے ہیں۔
چنانچہ اس سلسلے میں 16 جولائی کو بھارتی قونصل خانے کے اہلکاروں کی بھارتی جاسوس سے ملاقات بھی کروائی یہ بھارتی عہدیداروں کی کلبھوشن کے ساتھ دوسری ملاقات تھی۔
تاہم بھارتی عہدیدار اس کی بات سنے بغیر ہی وہاں سے چلے گئے، جبکہ بھارتی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں الزام لگایا تھا کہ پاکستانی حکام نے ’بغیر کسی رکاوٹ‘ کے قونصلر رسائی کے سمجھوتے کی پاسداری نہیں کی تھی اس لیے اہلکار احتجاجاً ملاقات سے واپس چلے گئے تھے۔
بعدازاں اگلے ہی روز پاکستان نے بھارتی جاسوس کو سیکیورٹی اہلکاروں کے بغیر تیسری مرتبہ قونصلر رسائی دینے کی پیشکش کی۔
علاوہ ازیں 22 جولائی کو وفاقی حکومت نے بھارتی خفیہ ایجنسی 'را' کے جاسوس کلبھوشن یادیو کے لیے سرکاری وکیل مقرر کرنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تا کہ سزا سے متعلق عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عملدرآمد کیا جاسکے۔
درخواست میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے استدعا کی گئی کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے مطابق فوجی عدالت کے فیصلے پر نظر ثانی اور دوبارہ غور کے لیے وکیل مقرر کرے۔