اس وبا کے آغاز سے ہی سائنسدان اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ اس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 مریض کی کھانسی یا چھینک کے علاوہ بولنے یا سانس لینے سے خارج ہونے والے ننھے ذرات کے ذریعے لوگوں میں منتقل ہوتی رہی ہے۔
تاہم اب تک ایسے شواہد موجود نہیں تھے جو یہ ثابت کرتے کہ بولنے یا سانس لینے کے دوران خارج ہونے والے ذرات واقعی متعدی ہوتے ہیں۔
مگر اب ایک طبی تحقیق میں پہلی بار اس خیال کو ثابت کیا گیا ہے۔
امریکا کی نبراسکا یونیورسٹی کی تحقیق میں پہلی بار ثابت کیا گیا کہ کورونا وائرس 5 مائیکرون سے کم حجم کے ننھے ذرات لیبارٹری کے ماحول میں پھیل سکتے ہیں۔
آسان الفاظ میں کھانسی اور چھینک کی بجائے صرف بات کرنے اور سانس لینے سے بھی یہ وائرس ایک سے دوسرے فرد تک منتقل ہوسکتا ہے۔
اسی طرح تحقیق میں 2 افراد کے درمیان 2 میٹر کے فاصلے کی دوری کو بھی غیر محفوظ قرار دیا گیا کیونکہ یہ ننھے ذرات اس سے بھی زیادہ دور تک سفر کرسکتے ہیں۔
اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے مگر اس کے انکشافات ان تفصیلات سے مطابقت رکھتے ہیں جو وائرس کے حوالے سے حال ہی میں سامنے آئی ہیں۔
medrxiv.org میں شائع تحقیق ان ماہرین کی تھی جن کی جانب سے مارچ میں ثابت کیا گیا تھا کہ یہ وائرس ہسپتال میں کورونا وائرس کے مریضوں میں ہوا میں موجود ہوتا ہے۔
نبراسکا یونیورسٹی میڈیکل سینٹر کے ایسوسی ایٹ پروفیسر جوشوا سانتاپیا نے اے ایف پی کو بتایا کہ درحقیقت اس طرح کے نمونوں کو اکٹھا کرنا بہت مشکل ہے۔
اس کی جانچ پڑتال کے لیے محققین کی جانب سے موبائل فون کے حجم کی ایک ڈیوائس کو استعمال کیا گیا تاکہ دریافت کیا جاسکے کہ بات کرنے اور سانس لینے کے دوران جو ذرات خارج ہوتے ہیں، وہ کس حد تک دیگر افراد کو متاثر کرسکتے ہیں۔
اس مقصد کے لیے کورونا وائرس کے مریضوں کے 5 کمروں سے نمونے حاصل کیے گئے اور اس کے لیے جو بلندی تھی وہ 30 سینٹی میٹر تک تھی۔