یہ اجازت اس وقت دی جائے گی جب یہ ویکسین کلینیکل ٹرائل کے تیسرے مرحلے میں محفوظ سے موثر ثابت ہوگی۔
دونوں کمپنیوں کا کہنا ہے کہ وہ کسی قسم کی ریگولیٹری منظوری اکتوبر تک اس وقت حاصل کرنے کے لیے تیار ہوں گی جب جاری تحقیق کامیاب ثابت ہوئی۔
یہ کمپنیاں 2020 کے آخر تک ویکسین کے 10 کروڑ ڈوز تیار کرنے کی خواہشمند ہیں اور 2021 کے آخر تک یہ تعداد ایک ارب 30 کروڑ تک پہنچائی جائے گی۔
اس سے قبل امریکا نے برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کی جانب سے تیار کی جانے والی تجرباتی ویکسین کے 30 کروڑ ڈوز بھی مئی میں خرید لیے تھے۔
اس مقصد کے لیے امریکا کی جانب سے ویکسین کو تیار کرنے والی کمپنی آسترا زینکا کو 1.2 ارب ڈالرز دینے کا وعدہ بھی کیا تھا۔
اس موقع پر امریکی ہیلتھ سیکرٹریر ایلکس ازر کا کہنا تھا کہ آسترا زینکا کے ساتھ یہ معاہدہ آپریشن ریپ اسپیڈ کے لیے ایک اہم پیشرفت ہے، جس کا مقصد 2021 تک ایک محفوظ، موثر اور بڑے پیمانے پر دستیاب ویکسین کو یقینی بنانا ہے۔
بیان کے مطابق اس ویکسین کے اولین ڈوز امریکا کو اکتوبر کے شروع میں دستیاب ہوں گے۔
اس کے علاوہ امریکا کی جانب سے ویکسینز کی تیاری میں مصروف دیگر کمپنیوں جانسن اینڈ جانسن، موڈرینا اور فرانسیسی کمپنی سنوفی سے بھی ایسے معاہدے کیے جاچکے ہیں۔
سنوفی کے سربراہ نے مئی میں اپنے بیان سے فرانسیسی حکومت کو اس وقت مشتعل کردیا تھا جب انہوں نے کہا کہ تھا کہ امریکا میں ویکسین کے جو ڈوز تیار ہوں گے وہ پہلے امریکی مریضوں کو فراہم کیے جائیں گے کیونکہ اس ملک نے تحقیق کے لیے مالی امداد فراہم کی ہے۔
س سے قبل مارچ میں بھی ایک ویکسین کی تیاری کے حوالے سے جرمنی کے حکام نے امریکا کے خلاف سخت بیانات دیئے تھے۔
اس وقت ڈوئچے ویلے کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ جرمنی کی ایک کمپنی کیور ویک کی جانب سے کورونا وائرس کے خلاف ایک ویکسین کی تیاری پر کام ہورہا ہے۔