ان رضاکاروں کے خون کے نمونے ویکسینیشن سے کچھ دیر قبل اور اس کے 14 اور 28 دن بعد لیکر اینٹی باڈی ردعمل کو دیکھا گیا۔
محققین نے دریافت کیا کہ 95 فیصد یعنی 253 میں سے 241 ہائی ڈوز والے افراد اور 91 فیصد کم ڈوز والے گروپ میں وائرس سے لڑنے والے ٹی سیلز یا اینٹی باڈی مدافعتی ردعمل ویکسینیشن کے 28 دن بعد دیکھا گیا۔
ویکسین کے نتیجے میں وائرس ناکارہ بنانے والے اینٹی باڈی ردعمل کو ہائی ڈوز والے 59 فیصد جبکہ کم ڈوز والے 47 فیصد افراد میں دیکھا گیا جبکہ وائرس کو جکڑنے والا اینٹی باڈی ردعمل ہائی ڈوز والے 96 فیصد اور کم ڈوز والے 97 فیصد افراد میں دریافت کیا گیا۔
اس کے مقابلے میں placebo والے گروپ میں کسی قسم کے اینٹی باڈی ردعمل کو دریافت نہیں کیا گیا۔
محققین کا کہنا تھا کہ کم یا زیادہ ڈوز سے بھی لوگوں میں کورونا وائرس ناکارہ بنانے والا ردعمل پیدا ہوتا ہے جبکہ ٹی سیلز ردعمل ہائی ڈوز والے گروپ کے 90 فیصد اور کم ڈوز والے 88 فیصد افراد میں دریافت کیا گیا۔
تحقیق کے دورانیے کے دورران جو سب سے زیادہ مضر اثرات دیکھے گئے ان میں بخار، تھکاوٹ اور انجیکشن کے مقام پر تکلیف نمایاں تھے، تاہم ان کی شدت معمولی یا معتدل تھی۔
زیادہ ڈوز والے گروپ میں مضر اثرات کی شدت کم ڈوز والوں کے مقابلے نمایاں حد تک زیادہ تھی۔
ٹرائل کے نتائج طبی جریدے دی لانیسٹ میں شائع ہوئے۔
خیال رہے کہ جون میں کلینکل ٹرائلز میں اسے محفوظ اور کسی حد تک موثر ثابت ہونے پر چین کی فوج نے اپنے اہلکاروں کے لیے اس ویکسین کے استعمال کی منظوری دے دی تھی۔کین سینو کی جانب سے جاری بیان کے مطابق 25 جون کو چین کے مرکزی فوجی کمیشن نے فوج کے لیے اس ویکسین کے استعمال کی منظوری ایک سال کے لیے دی۔
کمپنی نے اپنے بیان میں کہا 'یہ ویکسین فی الحال صرف فوجی استعمال کے لیے محدود ہوگی اور لاجسٹک سپورٹ ڈپارٹمنٹ کی منظوری تک بڑے پیمانے پر اس کا استعمال نہیں کیا جائے گا'۔
تاہم کمپنی نے یہ بتانے سے گریز کیا کہ چینی فوجیوں کے لیے اس ویکسین کا استعمال لازمی ہوگا یا ان کی مرضی پر ہوگا۔
واضح رہے کہ اپریل میں چین کے طبی حکام نے امید ظاہر کی تھی کہ کووڈ 19 سے تحفظ دینے والی ویکسین ستمبر تک ایمرجنسی استعمال جبکہ عام افراد کے لیے اگلے سال کے ابتدا میں دستیاب ہوسکتی ہے۔
چین کے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن کے سربراہ گائو فو نے چائنا گلوبل ٹیلی ویژن نیٹ ورک کو بتایا تھا کہ کہ ملک میں اس وقت ویکسینز کے کلینیکل ٹرائلز دوسرے یا تیسرے مرحلے میں ہیں اور ممکنہ طور پر وہ اس وبا کی دوسری لہر کے وقت تک دستیاب ہوسکتی ہیں۔
گائو فو نے کہا 'ہم ویکسین کی تیاری کے حوالے سے صف اول میں ہیں اور امکان ہے کہ ستمبر تک ایمرجنسی استعمال کے لیے ایک ویکسین تیار ہوچکی ہوگی، یہ نئی ویکسینز لوگوں کے کچھ خصوصی گروپس جیسے طبی ورکرز کے لیے استعمال کی جاسکیں گی'۔
ان کا کہنا تھا 'ممکنہ طور پر عام افراد کے لیے ویکسین اگلے سال کی ابتدا میں دستیاب ہوگی، تاہم اس کا انحصار اس کی تیاری میں پیشرفت پر ہوگا'۔
دوسری جانب گزشتہ دنوں ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ چین ممکنہ طور پر دنیا کا پہلا ملک بن سکتا ہے جو ستمبر میں ہی کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے ویکسینز کو خطرے سے دوچار افراد کے لیے متعارف کراسکتا ہے چاہے اس دوران کلینیکل ٹرائل پر کام ہی کیوں نہ جاری ہو۔
برطانوی روزنامے ٹیلی گراف کی رپورٹ کے مطابق امریکا کے مقابلے میں کورونا وائرس کے علاج کو متعارف کرانے کے لیے چین کے طبی حکام نے ویکسینز کے حوالے سے گائیڈلائنز کا مسودہ تیار کرلیا ہے۔
کسی بھی ملک کے مقابلے میں چین میں سب سے زیادہ 5 ویکسینز انسانی آزمائش کے دوسرے مرحلے میں داخل ہوچکی ہیں۔