دنیا

کورونا وائرس کے خلاف کامیابی حاصل کرنے والی خواتین سربراہانِ مملکت

عالمی قیادت میں صرف 7 فیصد کردار ادا کرنے والی خواتین نے اپنی بھرپور قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے وبا کا مقابلہ کیا۔

دسمبر 2019 میں چین کے شہر ووہان سے پھیلنے والی عالمی وبا کورونا وائرس اس وقت دنیا کے 200 کے قریب ممالک میں پھیل چکی ہے جس نے 27 جولائی تک ایک کروڑ 62 لاکھ سے زائد افراد کو متاثر کیا ہے جبکہ یہ وبا 6 لاکھ 47 سے زائد افراد کی ہلاکت کی وجہ بھی بنی ہے۔

کورونا وائرس سے صحتیاب ہونے والے افراد کی تعداد 93 لاکھ 97 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے تاہم ماہرین کا ماننا ہے کہ محدود ٹیسٹنگ کی وجہ سے دنیا بھر میں وبا کے کیسز کی اصل تعداد کافی زیادہ ہے۔

کورونا وائرس انسان سے کس جانور، چمگادڑ یا پینگولین سے منتقل ہوا یہ ابھی تک معمہ ہے جبکہ اس کے پھیلاؤ کے وقت کے تعین سے متعلق بھی تحقیقات جاری ہیں۔

دنیا بھر کی حکمراں، جمہوری حکومتیں اور بادشاہت، سائنسدان و محققین اس وقت اس وبا سے بچاؤ کی ویکسین کی تیاری اور ممکنہ علاج ڈھونڈ نکالنے کے لیے کوشاں ہیں تاکہ انسانیت کو اس مہلک وبا سے بچایا جاسکے۔

ایک ایسے وقت میں جب پوری دنیا وبا کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے سماجی فاصلے پر مبنی نئے معاشرے کی راہ پر گامزن ہے وہیں یہ بات بھی سامنے آئی ہیں کہ عالمی قیادت میں صرف 7 فیصد کردار ادا کرنے والی خواتین سربراہانِ مملکت نے اپنی بھرپور قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے کورونا وائرس پر قابو پا کر یا اس کے پھیلاؤ کو روک کر کامیابی حاصل کی اور انہیں عالمی سطح پر سراہا جارہا ہے۔

ان خواتین کو وبا کے بعد فوری کارروائی، سائنس پر اعتماد یا مشکل فیصلوں کے باعث سراہا گیا ہے جس کے نتیجے میں وہ اپنے ممالک میں وبا کے پھیلاؤ اور اس کے اثرات کو کم کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔

کورونا وائرس کے خلاف جن ممالک کی خاتون سربراہان کا کردار قابل تعریف ہے ان میں تائیوان، نیوزی لینڈ، ناروے اور جرمنی قابل ذکر ہیں۔

ان ممالک کی سربراہان نے کورونا وائرس سے متعلق کیا حکمت عملی اپنائی اس کا ایک جائزہ کچھ یوں ہے:

کیسز اور اموات کی صورتحال


سی ڈی سی تائیوان کے مطابق 27 جولائی تک ملک میں کورونا وائرس کے کیسز کی مجموعی تعداد 458 اور ہلاکتوں کی تعداد 7 تھی۔

تائیوان میں اس روز تک کورونا وائرس کی تشخیص کے لیے80 ہزار 623 ٹیسٹس کیے جاچکے تھے جن میں سے 458 افراد میں وائرس کی تصدیق ہوئی اور ان میں سے 440 صحتیاب ہوچکے تھے۔

خیال رہے کہ تائیوان میں 16 فروری کو ایک ہی روز میں کورونا وائرس کے 2 کیسز کی تصدیق ہوئی تھی اور 20 مارچ کو کورونا وائرس سے پہلی ہلاکت رپورٹ ہوئی تھی۔

مارچ کے وسط میں تائیوان میں کورونا وائرس کے کیسز میں اضافہ دیکھنے میں آیا اور 20 مارچ کو سب سے زیادہ 27کیسز کی تصدیق ہوئی جس میں بعدازاں کمی کا رجحان دیکھا گیا لیکن 19 اپریل کو 22 کیسز کی تصدیق ہوئی تھی۔

جس کے بعد تائیوان میں یومیہ کیسز کی تعداد چند کیسز تک محدود رہی تاہم 17 جولائی کو فلپائن سے آنے والے 2 افراد میں وائرس کی تصدیق ہوئی تھی۔

تائیوان میں 9 مارچ کو کورونا وائرس کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا تھا جس کے بعد 14 اپریل کو بھی کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا تھا بعدازاں مئی سے لے کر 19 جولائی تک وقفے وقفے سے صرف 14 دن میں کیسز سامنے آئے جن کی تعداد 25 ہے۔

علاوہ ازیں تائیوان میں شرح اموات انتہائی کم ہے اور 13 مئی کے بعد تائیوان میں کورونا وائرس سے کوئی ہلاکت نہیں ہوئی۔


تائیوان کا ردعمل دنیا میں بہترین قرار


جنوری میں جونز ہاپکنز یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ چین کے ساتھ جغرافیائی طور پر قریب ہونے، تعلقات اور وہاں نقل و حمل کے باعث تائیوان، وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے کے خطرات والے ممالک میں سے ایک تھا۔

تاہم تائیوان کی خاتون صدر سائی اِنگ وین کی جانب سے کیے گئے بروقت اقدامات سے وبا کا پھیلاؤ رک گیا، یہی وجہ ہے کہ یہاں رپورٹ ہونے والے اکثر کیسز بیرون ملک سے آنے والے مسافروں میں سامنے آئے۔

مندرجہ ذیل اقدامات اور پالیسز کی بنیاد پر تائیوان کے ردعمل کو بہترین قرار دیا جارہا ہے:

وبا سے بچاؤ

تائیوان کی صدر نے وبا کے پھیلاؤ سے قبل ہی اقدامات کیے جو وائرس کے کم پھیلاؤ کا باعث بنے، جب دسمبر 2019 میں ووہان میں نوول کورونا وائرس سے متعلق رپورٹس سامنے آئیں تو تائیوان کی صدر نے چین کی جانب سے وائرس پر قابو پانے یا انسانوں کے درمیان منتقل نہ ہونے سے متعلق سرکاری اعلانات پر انحصار نہیں کیا۔

سائی اِنگ وین نے وبا سے بچاؤ کے لیے فوری طور پر ووہان سے آنے والے مسافروں کی اسکریننگ کا آغاز کیا تھا اور کووڈ-19 کی علامات ظاہر کرنے والے مسافروں کی شناخت کے بعد انہیں آئسولیٹ کیا گیا تھا۔

ماضی کا تجربہ

عالمی وبا کورونا وائرس پر قابو پانے میں تائیوان کی صدر کی کامیابی ماضی میں وبا سے ہونے والے نقصانات کے تجربے پر بھی مبنی ہے۔

2003 میں پھوٹنے والی وبا سیویر ایکیوٹ ریسپائریٹری سنڈروم (سارس) کے باعث نہ صرف ہانگ کانگ اور چین بلکہ تائیوان بھی بدترین متاثرہ علاقہ تھا، اس دوران ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد کو قرنطینہ کیا گیا تھا اور وبا کے باعث 181 ہلاکتیں ہوئی تھیں۔

تائیوان نے وبا سے ہونے والے تجربے سے سیکھا اور 2009 میں ایچ ون این ون فلو پر مؤثر رد عمل دیا، سانس کے مسائل سے وابستہ 2 بیماریوں کے پھیلاؤ سے تائیوان نے سبق سیکھا اور اسے کووڈ 19 کے خلاف تیاری اور ردعمل میں استعمال کیا۔

سارس کے دوران پیش آنے والے تجربے سے تائیوان نے بیماری کے خلاف تیز ترین ردعمل سے سیکھا اور صدر نے پرسنل پروٹیکٹو ایکوئمپنٹ (پی پی ای) جیسا کہ ماسک کی دستیابی، وائرس کے کیسز کی نشاندہی کے لیے قواعد و ضوابط اور مقامی سطح پر پھیلاؤ سے بچاؤ جیسے اقدامات کو یقینی بنایا۔

تائیوان نے سارس کی وبا کا سامنا کرنے کے بعد نیشنل ہیلتھ کمانڈ سینٹر (این ایچ سی سی) قائم کیا تھا، اس ادارے کو صحت کے عالمی بحران میں حکومت کے ردعمل میں تعاون کا ٹاسک دیا گیا تھا۔

واضح منصوبہ

سائی اِنگ وین نے واضح منصوبہ بندی کے ذریعے کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکا اور اس کے خلاف ردعمل میں شفافیت اور مضبوط ہم آہنگی پر زور دیا۔

جرنل آف امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کی رپورٹ کے مطابق تائیوان کی صدر نے این ایچ سی سی کے دفتر میں سینٹرل ایپیمڈیمک کمانڈ سینٹر ( سی ای سی سی) قائم کیا تاکہ وائرس اور اس کے اثرات سے متعلق معلومات جمع کی جائیں اور عوام کو باخبر رکھنے کے لیے اسے باقاعدہ طور پر پھیلایا جائے۔

اس کے ساتھ ہی تائیوان کی صدر نے معاشرتی سطح پر وائرس کے خلاف ردعمل کی حوصلہ افزائی کی، جس کے تحت نجی اور سرکاری شعبوں نے صحت کے بحران کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کیا۔


اقدامات


سائی اِنگ وین نے تیزی سے اور مؤثر طریقے سے وبا سے نمٹنے کے لیے اقدامات کیے، ویکسین یا مؤثر علاج نہ ہونے کی صورت میں کورونا وائرس کے مریضوں کو آئسولیٹ کیا گیا اور ٹیسٹ کٹس کی دستیابی کے بعد ہی بڑے پیمانے پر آبادی کی ٹیسٹنگ کے ساتھ ساتھ کانٹیکٹ ٹریسنگ (متاثرہ افراد سے رابطے میں آنے والوں کی شناخت) کی گئی۔

اس حوالے سے تائیوان کے ڈاکٹر اور اسٹین فورڈ میڈیسن کے ایسوسی ایٹ پروفیسر آف پیڈیاٹرکس جیسن وانگ نےبتایا کہ ' تائیوان نے عوام کی صحت کے تحفظ کے لیے کم از کم 124 ایکشن آئٹمز کی فہرست کو تیار کیا اور اس پر عملدرآمد کیا'۔

انہوں نے کہا کہ تائیوان کی پالیسیز اور اقدامات صرف سرحدی کنٹرول سے زیادہ تھے کیونکہ انہوں نے یہ جان لیا تھا کہ اتنا کافی نہیں ہے۔

جرنل آف امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کی رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس کے خلاف تائیوان کی صدر کی کامیابی کی وجہ 124 اقدامات ہیں، جن میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں:

بارڈر کنٹرول، سفری پابندیاں اور کیسز کی تشخیص

31 دسمبر 2019 کو تائیوان کی صدر کے حکم پر انتظامیہ نے ووہان سے براہ راست پروازوں سے آنے والے مسافروں میں بخار اور نمونیا کی علامات کی جانچ کا آغاز کیا گیا تھا جس کے بعد سی ڈی سی نے ووہان سے آنے والے مسافروں میں بخار یا اپر رسپائریٹری ٹریکٹ انفکیشن (سی ڈی سی) ہونے کی صورت سے متعلق آگاہ کرنے کی ہدایت جاری کی تھی۔

20 جنوری 2020 کو ووہان کے لیے لیول 2 ٹریول الرٹ جاری ہوا اس کے ساتھ ہی سینٹرل ایپیمڈیمک کمانڈ سینٹر کو فعال کیا گیا بعدازاں اگلے روز ووہان کے لیے لیول 3 ٹریول الرٹ جاری کیا گیا تھا جس کے بعد جنوری کے اواخر میں ووہان سے آنے والے 459 سیاحوں کے داخلی اجازت نامے منسوخ کردیے گئے تھے۔

جنوری کے اواخر میں تائیوان کی صدر نے ووہان کے شہریوں پر پابندی عائد کی، چین سے آنے والے مسافروں کے لیے ملک میں داخلے سے قبل خود کو صحت مند ڈیکلیئر کرنا لازمی قرار دیا، چین جانے والے ٹورز کو 31 جنوری تک معطل کیا گیا، ہوبے کے لیے لیول 3 جبکہ چین کے دیگر علاقوں کے لیے لیول 2 الرٹ بھی جاری کیا گیا تھا۔

بعدازاں سائی اِنگ وین نے ووہان اور پھر چین کے صوبہ ہوبے سے آئے سیاحتی گروپس کو تائیوان سے واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا، علاوہ ازیں این ایچ آئی اے اور این آئی اے نے مریضوں کی پچھلے 14 روز کی سفری تاریخ کو این ایچ آئی ڈیٹا بیس میں ضم کرنا شروع کیا۔

اس کے علاوہ سائی اِنگ وین کی حکومت کے جاری کردہ موبائل فونز کے ذریعے قرنطینہ کیے گئے افراد کی الیکٹرانک نگرانی کا آغاز کیا گیا اور 30 جنوری کو چین سے آنے اور جانے والے ٹورز 29 فروری تک معطل کیا گیا تھا۔

فروری کے اوائل میں صوبہ ژیجانگ کے لیے لیول 2 ٹریول الرٹ جاری کیا گیا اور پچھلے 28 روز میں مشتبہ کیسز والی کروز شپس سمیت چین، ہانگ اور مکاؤ میں گزشتہ 14 روز میں لنگر انداز ہونے والی کروز شپس پر پابندی عائد کی گئی تھی۔

بعدازاں 29 فروری تک ہانگ کانگ اور مکاؤ کے سفر، چینی شہریوں کے داخلے، تمام بین الاقوامی کروز شپس پر پابندی لگائی گئی، ڈائمنڈ پرنسس کروز شپ کے مسافروں کی کانٹیکٹ ٹریسنگ کا آغاز کیا گیا، جو 31 جنوری کو تائیوان آئے تھے۔

7 فروری کو سائی اِنگ وین نے پچھلے 14 روز میں چین، ہانگ کانگ یا مکاؤ کا سفر کرنے والے غیر ملکی شہریوں اور دیگر غیر ملکیوں کے لیے ای گیٹ کے استعمال پر پابندی کردی، علاوہ ازیں گھر میں 14 روزہ قرنطینہ کا قانون توڑنے پر جوڑے پر 3 لاکھ نیو تائیوان ڈالر (10 ہزار امریکی ڈالر) کا جرمانہ کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔

جس کے اگلے ہی روز ایک ہی دن میں سپر اسٹار ایکیوئیریس کروز شپ پر سوار 128 مسافروں کا ٹیسٹ کیا گیا تاہم سب کے نتائج منفی آئے بعدازاں تائیوان کی صدر نے 30 اپریل تک چین سے آنے اور جانے والے ٹورز، 31 مارچ تک مکاؤ یا ہانگ کانگ سے آنے اور جانے والے ٹورز پر، تائیوان سے چین جانے والی اکثر مسافر پروازوں پر 10 فروری سے 29 اپریل تک پابندی لگائی تھی (جس میں بیجنگ، شنگھائی پوڈونگ، شنگھائی ہونگ کیو، ژیامین اور چینگ ڈو ایئرپورٹس شامل نہیں تھے)

اسی ماہ دیگر ممالک کے لیے سفری انتباہ جاری کیے گئے اور تائیوان میں داخل ہونے والے شہریوں کے لیے درست ہیلتھ ڈیکلیئریشن لازمی قرار دینے کے ساتھ ساتھ خلاف ورزی کی صورت میں ڈیڑھ لاکھ نیو تائیوان ڈالر (5 ہزار امریکی ڈالر) جرمانے کا فیصلہ کیا گیا علاوہ ازیں تائیوان کی صدر نے ہوم آئسولیشن کی خلاف ورزی پر 3 لاکھ نیو تائیوان ڈالر (10 ہزار امریکی ڈالر) جرمانے اور گھر میں قرنطینہ کی خلاف ورزی پر ڈیڑھ لاکھ نیو تائیوان ڈالر (5 ہزار امریکی ڈالر) جرمانہ عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔

بحری جہاز ایم ایس ویسٹر ڈیم سے تائیوان کے باشندوں کی واپسی اور فوری قرنطینہ کرنے کا فیصلہ ہوا لیکن اس میں موجود غیر ملکی شہریوں کو تائیوان میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی تھی، سائی اِنگ وین نے ہانگ کانگ سے آنے والے 3 افراد سے جو ایک ہفتے تک قرنطینہ میں رہے بغیر غائب ہوئے تھے پر 70 ہزار نیو تائیوان ڈالر (2 ہزار 350 امریکی ڈالر) فی کس جرمانہ عائد کیا اور انہیں خصوصی آئسولیشن کوارٹرز منتقل کیا تھا۔

فروری کے وسط میں تائیوان نے 2 تائیوانی خواتین اور غیر واضح شہریت کے ایک مرد کے نام شائع کیے تھے جنہیں گھر میں قرنطینہ کی ہدایت کے بعد ڈھونڈا نہیں جا سکا تھا بعدازاں 14 روز کی غیر ملکی سفری تاریخ کے افراد اور کووڈ-19 کی مشتبہ کیسز سمیت مرض کی علامات ظاہر کرنے والے مسافروں سے رابطے میں رہنے والے افراد کا پتا لگایا گیا، 3 روز کی اینٹی بائیوٹک تھراپی کے بعد بہتری نہ آنے والے نمونیا کے کیسز، نمونیا کے کلسٹر کیسز یا نمونیا والے ہیلتھ کیئر ورکرز تک اقدامات میں توسیع کی گئی تھی اور بخار یا سانس کی بیماری کی علامات کے مسافروں کے نمونے لینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

18 فروری کو ڈائمنڈ پرنسس کروز شپ سے تائیوان آنے والے تائیوانی مسافروں کے لیے سی ای سی سی کی چارٹر پرواز کے استعمال اور قرنطینہ کا فیصلہ کیا، تمام ہسپتالوں، کلینکس اور فارمیسز کو مریضوں کی سفری تاریخ تک رسائی فراہم کی گئی جس کے اگلے ہی روز مکاؤ یا ہانگ کانگ سے جانے یا آنے والے سفر پر 30 اپریل تک پابندی عائد کی گئی۔

علاوہ ازین چین، ہانگ کانگ اور مکاؤ کی سفری تاریخ والے مسافروں کے لیے آمد کے دن سے گھر میں 14 روزہ قرنطینہ ،لیول ون اور ٹو ممالک سے آنے والے مسافروں کے لیے 14 روز سیلف ہیلتھ منیجمنٹ، جنوبی کوریا سے آنے والے غیر ملکی افراد کے لیے 25 فروری سے 14 روزہ قرنطینہ اور جنوبی کوریا سے آنے والے تائیوانی شہریوں کے لیے 26 فروری سے 14 روزہ سیلف ہیلتھ منیجمنٹ کا فیصلہ بھی کیا گیا تھا۔

وسائل مختص کرنے سے متعلق اقدامات

تائیوان کی صدر نے ماسک کی فراہمی سے متعلق اہم اقدامات کیے اور اس کی پیداوار میں بھی اضافہ کیا، 22 جنوری کو تائیوان کی صدر نے ریٹیلیرز کے لیے ماسک مختص کیے اور 50 ماسک کی قیمت 300 نیو تائیوان ڈالر (10 امریکی ڈالر) طے کی تھی، وزارت اقتصادی امور نے ماسک کی تیاری کی یومیہ پیداواری صلاحیت 13 لاکھ ماسک کی مقامی طلب سے بڑھا کر 24 لاکھ 40 ہزار ماسک کردی تھی۔

بعدازاں تائیوان کی صدر نے سی ڈی سی اور 8 مختص کردہ ہسپتالوں میں کووڈ-19 ٹیسٹنگ کا فیصلہ کیا تھا جبکہ 23 فروری تک ڈسپوزیبل ماسک کی برآمد پر پابندی عائد کردی تھی، باہر جانے والے مسافروں کے لیے صرف 250 ماسک کی اجازت دینے کی پابندی کی خلاف ورزی کی صورت میں ماسک قبضے میں لینے اور ماسک کی رقم سے 3 گنا زیادہ جرمانے عائد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

30 جنوری تک مقامی مینوفیکچررز نے یومیہ 40 لاکھ ماسک تیار کیے تھے، اسٹورز، مقامی فارمیسیز اور میڈیکل سپلائی اسٹورز پر ایک سے 3 ماسک کی خریداری کی اجازت دی گئی، ایک ماسک کی قیمت 8 نیو تائیوان ڈالر (0.27 امریکی ڈالر) مقرر کردی گئی اس کے ساتھ ہی تائیوان کے ہائی پراسیکیوٹرز آفس نے بیماری سے بچاؤ کی مصنوعات پر قیمتوں میں اضافے سے منافع روکنے کی مہم کا آغاز کیا تھا جس کے لیے ایک سے 7 سال قید اور 50 لاکھ نیو تائیوان ڈالر( ایک لاکھ 67 ہزار امریکی ڈالر) جرمانے کا اعلان کیا۔

سائی انگ وین نے 31 جنوری سے 15 فروری تک سرجیکل ماسک کی تیاری کو لازمی قرار دیا اور یومیہ تیار ہونے والے 40 لاکھ ماسک میں سے ہسپتالوں اور میڈیکل ورکرز کو 14 لاکھ ماسک الاٹ کیے گئے اور دیگر 26 لاکھ صارفین کے لیے مختص کردیے گئے تھے۔

تائیوان کی صدر نے گوداموں یا خالی فوجی کیمپوں کو قرنطینہ میں تبدیل کردیا تھا سپاہیوں کو مقامی ماسک فیکٹریز کی پروڈکشن لائنز پر متحرک کیا گیا جبکہ چونگہوا پوسٹ کے 3 ہزار ورکرز کو 6 ہزار 515 فارمیسیز اور 52 طبی مراکز کو یومیہ ماسک کی تقسیم کی ہدایت کی گئی تھی۔

علاوہ ازیں تائیوان کی ڈیجیٹل منسٹری کے انجینئرز نے فارمیسیز میں عوام کو ماسک کے اسٹاک کی آگاہی کے لیے ایپلی کیشن تیار کی تھی، کنڈرگارٹنز کو بچوں میں 5 لاکھ ماسک تقسیم کرنے لیے مفت ماسک فراہم کیے گئے تھے، ماسک اور ڈس انفیکٹنٹس فروخت کرنے والے مشین آپریٹرز کو سزا دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

بعدازاں تائیوان کی صدر نے کووڈ-19 کی یومیہ ٹیسٹنگ صلاحیت کو 1300 نمونوں تک بڑھادیا تھا، ماسک کی پیداوار 50 لاکھ یومیہ کردی گئی تھی اور دکانداروں کو فروخت کے لیے یومیہ 400 ماسکس الاٹ کیے گئے جبکہ کے-12 اسکولز کو 64 لاکھ 50 ہزار ماسکس اور اسکولز کھلنے سے قبل انہیں 25 ہزار فورہیڈ تھرمامیٹرز اور 84 ہزار لیٹرز الکحل بیسڈ سینیٹائزر فراہم کیے تھے۔

مواصلات اور سیاحت سے متعلق اقدامات

سائی اِنگ وین نے وبا سے متعلق جعلی خبریں پھیلانے پر 30 لاکھ نیو تائیوان ڈالر (ایک لاکھ امریکی ڈالر) جرمانے کا اعلان کیا تھا۔

جنوری میں کرمنل انویسٹی گیشن بیورو نے 6 مشتبہ افراد کی جانب سے ہسپتالوں یا محلوں میں مریضوں یا سرجیکل ماسک کی قیمتوں میں اضافے سے متعلق جھوٹی افواہوں کی تحقیقات کی تھیں جبکہ اگلے ماہ کرمنل انویسٹی گیشن بیورو نے مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ کی تھی جنہوں نے فیس ماسک کی پیدوار کی وجہ سے ٹوائلٹ پیپر کی قلت کی افواہ پھیلائی تھی اس کے نتیجے میں ٹوائلٹ پیپر سے متعلق افراتفری پھیل گئی تھی۔

تائیوان کی صدر نے وبا سے متاثرہ کاروبار کے لیے 60 ارب نیو تائیوان ڈالر ( 2 ارب امریکی ڈالر مختص کیے، اسکولز کی یومِ سرما کی تعطیلات میں 15 سے 25 فروری تک توسیع کی گئی اور سرکاری ملازمین کو 11 فروری سے 24 فروری کے درمیان کورونا وائرس کی وجہ سے 12 سال سے کم عمر بچوں کی دیکھ بھال کے لیے 14 روز کی بلا معاوضہ چھٹی دینے کا اعلان کیا تھا۔

علاوہ ازیں وزارت تعلیم نے جامعات اور کالجز کو جراثیم سے پاک کرنے کے لیے لائسنس یافتہ کمپنیوں کی کمیشن کے ذریعے نگرانی کی تھی اور بخار یا سانس کی بیماری کی علامات والے طلبہ کی غیر حاضری کو 'حاضری' کے ریکارڈ میں شامل نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔

بعدازاں وزارت تعلیم نے کورونا وائرس کے تصدیق شدہ کیسز پر کلاسز کی معطلی سے متعلق ہدایات جاری کیں، وزارت محنت نے کورونا وائرس سے متاثر ورکرز کو مالی معاونت فراہم کرنے اور 18 ہزار 960 نیوتائیوان ڈالر (630 امریکی ڈالر) تک کی سبسڈیز کا فیصلہ کیا تھا۔

دوسری جانب وزارت ٹرانسپورٹیشن اینڈ کمیونیکیشن نے اسکول بسز، تائیوان ہائی اسپیڈ ریل، تائیوان ریلویز، ٹور بسز اور ٹیکسیز کے لیے صفائی کے ضوابط جاری کیے تھے۔

ان اقدامات کے علاوہ 21 مارچ کو تائیوان نے دنیا کے تمام ممالک کے لیے لیول 3 ٹریول الرٹ جاری کیے تھے اور تمام ممالک کے لیے غیر ضروری سفر سے گریز کی ہدایت کی تھی۔

دوسرے ممالک کی مدد

وبا کو روکنے کے علاوہ تائیوان نے دیگر ممالک کی مدد بھی کی یکم اپریل کو ملک کی صدر نے امریکا، اٹلی، اسپین اور دیگر یورپی ممالک کو ایک کروڑ ماسک عطیہ کرنے، کیونین کی پیداوار بڑھانے اور وبا کے پھیلاؤ کا پتا لگانے کے لیے اپنی ٹیکنالوجی شیئر کرنے کا اعلان کیا تھا۔

اس مقصد کے لیے ' تائیوان مدد کرسکتا ہے' کے عنوان کی مہم کے تحت مختلف ممالک کی مدد کی گئی۔


موازنہ اور تعارف


تائیوان اور آسٹریلیا دونوں جزائر ہیں اور وبا کے ابتدائی مرکز چین کے ساتھ ان ممالک کے تجارتی اور ٹرانسپورٹ کے تعلقات ہیں، وبا کی تصدیق کے 10 ہفتے بعد 5 اپریل کو آسٹریلیا میں مصدقہ کیسز کی تعداد 5 ہزار جبکہ تائیوان میں 400 تھی۔

جونز ہاپکنز یونیورسٹی کے اعداد و شمار کے مطابق 16 مئی کو تائیوان میں کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد 440 اور اموات 7 تھیں، دوسری جانب آسٹریلیا جس کے آبادی تائیوان سے تھوڑی زیادہ یعنی تقریباً ڈھائی کروڑ ہے وہاں کیسز کی تعداد 7 ہزار تھی اور 98 افراد ہلاک ہوچکے تھے۔

27 جون کو تائیوان میں کیسز کی تعداد 455 اور ہلاکتوں کی تعداد 7 تھی جبکہ آسٹریلیا میں کیسز کی تعداد 14 ہزار 935 اور ہلاکتوں کی تعداد 161 تھی۔

تائیوان مشرقی ایشیا میں واقع ہے، چین تائیوان کو اپنے ملک کا حصہ سمجھتا ہے کیونکہ دونوں ممالک نے 1949 کی خانہ جنگی کے بعد علیحدگی اختیار کرلی تھی تاہم تائیوان اپنے آپ کو ایک علیحدہ ملک تصور کرتا ہے جس کی اپنی کرنسی، سیاسی اور عدالتی نظام ہیں، تاہم اس نے باقاعدہ طور پر اپنی آزادی کا اعلان نہیں کیا۔

چین کی جانب سے تائیوان کو اکائی ماننے کے باعث عالمی سطح پر زیادہ تر ممالک، جو کسی نہ کسی طریقے سے چین پر زیادہ انحصار کرتے ہیں، تائیوان کو بطور ملک تسلیم نہیں کرتے، اس ہی وجہ سے تائیوان، اقوام متحدہ اور اس کے کسی ذیلی ادارے کا رکن بھی نہیں ہے۔

تائیوان کی آبادی 2 کروڑ 38 لاکھ 18 ہزار 722 ہے، اس کی آبادی دنیا کی مجموعی آبادی کا 0.31 فیصد ہے اور یہاں کی اوسط عمر ساڑھے 42 سال ہے۔

معاشی لحاظ سے تائیوان ایک مستحکم ملک ہے اور یہ 2017 میں دنیا کے امیر ترین ممالک میں 22ویں نمبر پر تھا، اس کی پر کیپٹا جی ڈی پی کا تخمینہ 25 ہزار 526 امریکی ڈالرز ہے تاہم بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے 14 اپریل 2020 کے آؤٹ لک کے مطابق کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث 2020 میں تائیوان کی جی ڈی پی منفی 4 تک کم ہونے کا امکان ہے جو وبا کے عالمی معیشت کی ریکوری کے بعد 2021 میں ساڑھے 3 فیصد تک جاسکتی ہے۔

کامن ویلتھ فنڈ کے مطابق 2017 میں تائیوان کے صحت کے اخراجات جی ڈی پی کا 6.4 فیصد تھے جن میں سے نیشنل ہیلتھ انشورنس کا حصہ 53.7 فیصد تھا جو جی ڈی پی کا 3.4 فیصد تھا۔


ملک کی خاتون صدر سائی اِنگ وین


سائی اِنگ وین 2016 میں تائیوان کی تاریخ میں صدر منتخب ہونے والے پہلی خاتون تھیں جو رواں برس جنوری میں دوسری مدت کے لیے ریاست کی صدر منتخب ہوئیں۔

وہ 1956 میں تائیوان کی پنگ ٹونگ کاؤئنٹی کے فانگ شان ٹاؤن شپ میں پیدا ہوئیں، وہ تدریس کے شعبے کت ساتھ سیاست سے بھی وابستہ رہیں، وہ پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں، انہوں نے نیشنل تائیوان یونیورسٹی سے وکالت کی ڈگری حاصل کی تھی، بعدازاں کارنل یونیورسٹی اتھاکا، نیویارک سے ماسٹرز اور لندن اسکول آف اکنامک سے قانون میں ڈاکٹریٹ کیا تھا، انہوں نے تاپئی کی مختلف جامعات میں بطور استاد خدمات سرانجام دیں۔

1990 میں بطور ٹریڈ ایڈوائزر سیاست میں قدم رکھا، 2004 میں تائیوان اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں، 2006 میں نائب وزیراعظم بنیں اور 2008 میں ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی (ڈی پی پی) کی پہلی خاتون سربراہ بنیں اور 2010 میں اسی عہدے پر دوبارہ منتخب ہوئیں۔

سائی انگ وین نے 2012 میں صدارتی امیدوار کے طور پر حصہ لیا تھا تاہم انہیں ناکامی ہوئی اور 2016 میں تائیوان کی پہلی خاتون صدر بننے کا اعزاز حاصل کیا، اس کے ساتھ وہ اس عہدے پر منتخب ہونے والی دوسری شخصیت تھیں جن کا تعلق 'کومِنٹانگ' جماعت سے نہیں تھا اور وہ تائیوان کی نسلی اقلیت (ہاکا) میں سے اس عہدے تک پہنچنے والی پہلی شخصیت بھی ہیں۔

20 جون کو کوپن ہیگن ڈیموکریسی سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے سائی انگ وین نے کہا تھا کہ تائیوان نے جمہوریت کی قربانی دیے بغیر کورونا وائرس کا مقابلہ کیا اور تمام جمہوری ممالک کو اسی طرح کے نظریات پر ملک کر کام کرنا چاہیے۔

انہوں نے زور دیا تھا کہ کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں تائیوان کی جمہوریت ایک قیمتی اثاثہ ہے کیونکہ اس نے عالمی وبا کو روکنے میں ہر ایک کو حق دیا۔

کورونا وائرس جرمنی تک کیسے پہنچا؟


جرمنی میں کورونا وائرس کے پہلے کیس کی تصدیق 27 جنوری 2020 کو ہوئی تھی، جو میونخ میں 33 سالہ جرمن شہری میں سامنے آیا تھا اور یورپ میں فرانس کے بعد جرمنی اس کا شکار ہونے والا دوسرا ملک تھا۔

اس حوالے سے حکام بتاتے ہیں کہ جرمنی میں کورونا وائرس کے پہلے مصدقہ مریض کو یہ بیماری ایک چینی ساتھی سے لگی تھی جس نے کیس رپورٹ ہونے سے چند روز قبل ہی جرمنی کا دورہ کیا تھا۔

ریاست باواریا کے دفتر برائے تحفظ و خوراک کے سربراہ اینڈریاس زاف نے کہا تھا کہ شنگھائی سے تعلق رکھنے والی چینی خاتون ملازم نے باواریا میں 33 سالہ جرمن شخص کے ساتھ ایک اجلاس میں شرکت کی تھی اور 23 جون کو ان میں بیماری کی علامت ظاہر ہوئی تھیں۔

یہ جرمنی کے پہلے کیس کے ساتھ ساتھ یورپ کی سرزمین پر انسان سے انسان میں وائرس کی منتقلی کا پہلا کیس بھی تھا۔


کیسز اور اموات


اس وقت جرمنی کی آبادی 8 کروڑ 37 لاکھ 95 ہزار 303 ہے، 27 جولائی تک جرمنی میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی مجموعی تعداد 2 لاکھ 5 ہزار269 تک پہنچ گئی تھی جبکہ ہلاکتیں 9 ہزار 118 ہوگئی تھیں۔

یوں تو رواں سال جنوری کے اواخر میں جرمنی میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوگئی تھی لیکن مارچ میں وبا کا پھیلاؤ عروج پر دیکھا گیا تھا، 20 مارچ کو 7 ہزار 324 کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔

جس کے بعد اپریل میں کیسز کی تعداد میں بتدریج کمی آنا شروع ہوئی جو مئی کے وسط میں یومیہ ایک ہزار سے کم ہوگئی تھی جبکہ جولائی کے آغاز میں یومیہ 500 سے کم کیسز سامنے آئے لیکن 15 جولائی کو 763 کیسز کی تصدیق ہوئی تھی۔

جرمنی میں کورونا سے پہلی موت 2 مارچ کو رپورٹ ہوئی تھی اور اس روز 2 ہلاکتیں سامنے آئی تھی جبکہ 31 مارچ تک ہلاکتوں کی تعداد 128 ہوگئی تھی۔

اپریل میں ہلاکتوں میں اضافے کا رجحان برقرار رہا اور 16 اپریل کو سب سے زیادہ 315 ہلاکتیں رپورٹ ہوئی تھیں جن میں مئی میں کمی آنا شروع ہوئی اور 15 مئی کو 101 اموات کے بعد اب تک کسی بھی روز 100 سے زائد ہلاکتیں نہیں ہوئیں۔

جون میں ہلاکتوں میں مزید کمی آئی اور یومیہ ہلاکتیں 50 سے بھی کم ہوگئیں اس دوران 22 اور 28 جون کو 3، 3 اور 5 جولائی کو صرف 2 ہلاکتیں رپورٹ ہوئیں۔

13 جولائی کو جرمنی میں کورونا سے ایک جبکہ 14 جولائی کو ہلاکت رپورٹ نہیں ہوئی اور 15 جولائی کو 7 اموات رپورٹ ہوئیں 22 جولائی کو جرمنی میں 454 کیسز سامنے آئے اور 5 ہلاکتیں ہوئی تھیں جبکہ 26 جولائی کو 305 کیسز سامنے آئے تھے۔


پہلے مریض کی تصدیق کے بعد جرمنی نے کیا کیا؟


اگرچہ جرمنی نے اب تک مکمل طور پر کووڈ-19 کی وبا پر قابو نہیں پایا لیکن اس نے وبا کو روکنے کے 4 بنیادی طریقوں پر مبنی فریم ورک کے تحت دیگر یورپی ممالک کے مقابلے میں کافی حد تک اس کے پھیلاؤ کو روکا ضرور ہے۔

جرمنی نے بچاؤ، تشخیص، قابو پانے اور علاج کے 4 مراحل پر کامیابی سے عمل کیا ہے اور اس میں وہاں کے مقامی اور بہتر نظام صحت اور ماہرین و سائنسی اداروں نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔

وبا کا پھیلاؤ روکنے کے لیے جرمن چانسلر نے قواعد متعارف کروائے جس میں ابتدائی طور پر ٹیسٹنگ مراکز کا قیام، معمر افراد میں وبا کو روکنے کی مؤثر حکمت عملی اور ملک میں ہسپتال کی صلاحیت کا استعمال شامل ہے۔

پہلے کیس کی تصدیق کے 2 روز بعد 29 جنوری کو وزیر صحت جنیز اسفان نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ 'ہم الرٹ ہیں اور اچھے سے تیار ہیں، ہم بین الاقوامی اور یورپی سطح پر باقاعدہ رابطے میں ہیں اور ساتھ ہی جرمن وفاقی ریاستوں سے بھی رابطے میں ہیں'۔

یکم فروری کو جرمن حکومت نے واضح کیا تھا کہ تمام طبی صحت کے ادارے 24 گھنٹے کے اندر کورونا وائرس کے مشتبہ کیسز مقامی صحت حکام کو رپورٹ کریں۔

27 فروری کو انجیلا مرکل کی حکومت نے ایک انٹر-منسٹریل نیشنل کرائسز منیجمنٹ گروہ تشکیل دیا اس وقت ملک میں کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد 27 تھی۔

اس کے اگلے روز یعنی 8 فروری کو انہوں نے زیادہ خطرے والے ممالک جیسا کہ چین اور اٹلی، سے آنے والے مسافروں کے لیے ممکنہ گزشتہ سفر اور رابطے کی معلومات فراہم کرنا ضروری قرار دے دیا تھا۔

جرمنی میں طبی یا وبائی علامات ظاہر ہونے پر ٹیسٹنگ مفت ہے اور بعدازاں اس میں علامات ظاہر نہ کرنے والے مریضوں (اے سیمپٹمیٹک) ٹیسٹنگ کو بھی شامل کیا گیا۔

خیال رہے کہ جرمنی کے رابرٹ کوچ انسٹیٹیوٹ (آر کے آئی) نے قومی اور بین الاقوامی شعبہ صحت کے لیے 23 جنوری سے ہی یومیہ صورتحال کی رپورٹس کا اجرا شروع کردیا تھا لیکن ابتدائی رپورٹس کو خفیہ رکھا گیا تھا۔


وبا سے بچاؤ


جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے نیشنل پینڈیمک کے ذریعے وبا کا مقابلہ کیا اور تفصیلی ردعمل کے ذریعے گورننس، اکاؤنٹنگ یا لاگت کے تنازعات میں وقت کا زیاں کیے بغیر بروقت اس پر عمل کیا۔

فروری کے اواخر اور مارچ کے ابتدا میں لوگوں کے جمع ہونے اور سفر پر پابندیاں بڑھا دی گئی تھیں، 10 مارچ کو ایک ہزار سے زائد افراد کے اجتماع پر پابندی لگادی گئی تھی۔

مارچ کے وسط میں وفاقی ریاستوں نے اسکولز کی بندش کا آغاز کیا تھا جبکہ 18 مارچ کو غیر یورپی شہریوں کو ایک ماہ کے لیے یورپی یونین میں داخلے سے روک دیا گیا تھا۔

22 مارچ کو جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے اہم اعلان کیا تھا، جس کے تحت وفاقی ریاستوں اور قومی حکومت نے مشترکہ طور پر 'کانٹیکٹ بین' (رابطے پر پابندی) کا فیصلہ کیا، جس کے تحت 2 سے زائد افراد ایک جگہ اکٹھے نہیں ہوسکتے تھے، 5 فٹ تک کے جسمانی فاصلے اور متعدد کاروبار کی بندش پر عملدرآمد کا کہا گیا تاہم لوگوں کو گھروں سے باہر نکلنے جیسا کہ واک پر جانے کی آزادی حاصل تھی۔

جس کے بعد 10 اپریل کو جرمنی آنے والے تمام افراد کے ان کے ممالک سے بالاتر ہو کر 14 روز کا قرنطینہ لازمی قرار دیا گیا تھا۔


اقدامات اور ان کی نگرانی


جرمنی کا قومی پبلک ہیلتھ انسٹیٹیوٹ (آر کے آئی) امراض سے بچاؤ، ان پر قابو پانے اور تحقیق سے متعلق کام کرتا ہے، اس ادارے نے یومیہ نگرانی کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت، مقامی اور انٹرمیڈیٹ سرکاری صحت حکام اور طبی ماہرین کے ساتھ تعاون کیا۔

اس کے علاوہ 'آر کے آئی' نے خطرات، حکمت عملی کے دستاویزات، ردعمل کے منصوبے، یومیہ رپورٹس اور تکنیکی ہدایات جاری کیں جس سے حکومت کے ساتھ ساتھ مقامی اور انٹرمیڈیٹ پبلک صحت حکام، طبی ماہرین کو وبا کے پھیلاؤ کے دوران سخت فیصلے کرنے کے لیے مدد مل سکی۔

اس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ جرمنی کی 16 وفاقی ریاستوں اور 400 کے قریب کاؤنٹیز میں صحت کی ذمہ داری بنیادی طور پر انٹرمیڈیٹ اور لوکل پبلک ہیلتھ پر عائد ہوتی ہے جبکہ حکومتی حکام ملک، معیار اور یکساں طریقہ کار سے متعلق ان سے بات چیت کرتے ہیں۔

ان تمام اقدامات کے ثمرات ملنا شروع ہوئے اور 15 اپریل تک یومیہ کیسز کی تعداد 2 ہزار تک پہنچ گئی جو مارچ میں 6 ہزار تک تھی جس کے بعد حکومت نے سماجی فاصلے کے اقدامات میں نرمی کا فیصلہ کیا تھا۔

سماجی فاصلے کے اقدامات میں نرمی سے نئے کیسز میں اضافہ نہیں ہوا اور 22 مئی کو 460 کیسز سامنے آئے تھے۔


وبا کی تشخیص


جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل نے کورونا وائرس کی وبا کی تشخیص کو 3 حصوں میں تقسیم کیا: ٹیسٹنگ، کانٹیکٹ ٹریسنگ (متاثرہ فرد سے رابطے میں آنے والوں کی تشخیص) اور اینٹی باڈی ٹیسٹنگ، ان سب کی مختصر تفصیلات مندر ذیل ہیں:

ٹیسٹنگ

رواں سال جنوری میں جرمنی کے چیریٹی ہسپتال کے سائنسدانوں نے ٹیسٹ کا طریقہ کار تیار کیا تھا جو اب دنیا بھر میں استعمال ہورہا ہے اور عالمی ادارہ صحت نے اسے کورونا وائرس کے بنیادی تشخیصی ٹیسٹ کے طور پر منظور بھی کیا۔

28 فروری کو جرمنی کی تمام انشورنس کمپنیوں کو ٹیسٹ کی ادائیگی کا مینڈیٹ دیا تھا، 14 مئی کو اس قانون کو علامات ظاہر نہ کرنے والوں تک توسیع دے دی گئی تھی۔

11 مئی تک جرمنی نے ایک مثبت کیس میں 18.6 ٹیسٹ کیے تھے جبکہ اٹلی نے 11.9، اسپین نے 8.4، امریکا نے 7، برطانیہ نے 6.4 اور فرانس نے 6.3 ٹیسٹ کیے تھے۔

کانٹیکٹ ٹریسنگ

کیسز کی تعداد بڑھنے پر مقامی طبی اداروں اور انجیلا مرکل کی حکومت نے ہر مریض کے رابطے کا پتا لگانے کی کوشش کی بعدازاں 7 اپریل کو 'آر کے آئی' نے کورونا ڈیٹا ڈونیشن اسمارٹ واچ ایپ جاری کی جو افراد کی سرگرمی، پوسٹل کوڈ اور ممکنہ کورونا مریض کی معلومات جمع کرتی ہے، یہ ایپ رضاکارانہ طور پر استعمال کے لیے ہے۔

اس کے علاوہ 'آر کے آئی' کی جانب سے شہریوں کی نقل و حرکت کی نشاندہی کے لیے ان کے موبائل کے ڈیٹا کا تجزیہ بھی کیا گیا تھا۔

جرمنی سینٹرلائزڈ کانٹیکٹ ٹریسنگ ایپ کو تیار کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی، جس کا مقصد، مصدقہ مریض سے رابطے میں رہنے والے افراد کو خبردار کرنے میں صحت حکام کی مدد کرنا تھا تاہم پرائیویسی میں مداخلت کے خدشات کے باعث انجیلا مرکل نے ایک ڈی سینٹرلائزڈ، نامعلوم کانٹیکٹ وارننگ کا انتخاب کیا لیکن یہ بھی رضاکارانہ ایپ ہے جس کی افادیت لوگوں کے ڈاؤن لوڈ کرنے اور مثبت کیسز رپورٹ کرنے پر مبنی ہے۔

اینٹی باڈی ٹیسٹنگ

یونیورسٹی آف بون کے سائنسدانوں نے گینگلت میں وبا سے بری طرح متاثر علاقے میں دنیا کی پہلی کووڈ-19 اینٹی باڈیز تحقیق کی تھی جس سے علم ہوا تھا کہ لوگوں میں انفیکشن کی شرح 14 فیصد کے قریب ہے۔

جس کے بعد جرمنی کے سائنسی ادارے، کورونا کے خلاف طویل المدتی حکمت عملی کے تحت سیرولوجیکل اسٹڈی بھی کررہے ہیں جس کے لیے بلڈ ڈونرز کی سیرولوجیکل جانچ، جرمنی میں کووڈ 19 ہاٹ اسپاٹس کی جانچ اور ملکی آبادی کی نمائندگی کی اسکریننگ شامل ہیں۔


وبا کا پھیلاؤ روکنے کے لیے اقدامات


یکم فروری کو چین میں وبا کے مرکز ووہان سے جرمن شہریوں کی پہلی پرواز فرینک فرٹ انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچی تھی اور پرواز میں شامل تمام مسافروں کے پی سی آر ٹیسٹ کیے گئے تھے جن میں سے 2 کا ٹیسٹ مثبت آیا تھا۔

مارچ کے اواخر میں جرمن چانسلر نے سماجی فاصلے کی ہدایات جاری کی تھیں اور 2 سے زائد افراد کے جمع ہونے پر پابندی بھی لگادی تھی لیکن دیگر یورپی ممالک کے برعکس جرمنی میں کرفیو نہیں لگایا گیا۔

جرمنی میں وبا نے پہلے مسافروں، تہواروں اور دفاتر کو متاثر کیا اور زیادہ کیسز معمر افراد میں سامنے آئے تھے۔

تاہم انجیلا مرکل ہسپتالوں میں انفیکشن کی سطح کو قابو میں رکھنے میں کامیاب ہوئیں، اس حوالے سے ہدایت کے مطابق ہسپتالوں سے صحتیاب ہونے والے افراد کے لیے کورونا ٹیسٹ منفی آنا یا 14 دن کا قرنطینہ لازمی قرار دیا گیا۔

اس کے ساتھ ہی نرسنگ ہومز کو مشتبہ اور مصدقہ کیسز سے نمٹنے کے لیے قواعد اور صفائی کے اقدامات سے متعلق خصوصی ہدایات جاری کی گئی تھیں جبکہ نوجوان افراد کے مقابلے میں بڑی عمر کے افراد کے زیادہ ٹیسٹ کیے گئے تھے۔


علاج


مارچ میں جرمن انٹرڈسپلنری ایسوسی ایشن فار انٹینسو کیئر اینڈ ایمرجنسی میڈیسن اور 'آر کے آئی' نے ملک میں انتہائی نگہداشت یونٹس کا رجسٹر قائم کیا تھا اور 16 اپریل سے آئی سی یو کی صلاحیت اور وہاں زیر علاج کورونا وائرس کے مریضوں کو یومیہ رپورٹ کیا جارہا ہے۔

اس اعداد و شمار کا مقصد بیماری کی شدت اور نظام صحت پر ممکنہ اثرات سے متعلق معلومات حاصل کرنا تھا جس کے بعد یومیہ رپورٹس کی بنیاد پر آئی سی یو کی صلاحیت کو مدنظر رکھتے ہوئے انجیلا مرکل نے 14 مئی کو یورپی یونین کے دیگر ممالک کو آئی سی یو کا مفت علاج فراہم کرنے کا قانون منظور کیا تھا۔

تاہم ملک میں پرسنل پروٹیکٹو ایکوئپمنٹ (پی پی ای) کی سپلائی کا انتظام کامیاب نہیں رہا، جرمن چانسلر نے اس کی خریداری کے لیے کرائسز ٹیم تشکیل دی تھی اور 4 مارچ کو تمام پی پی ایز کی برآمد پر پابندی لگائی گئی تھی لیکن اس کے باوجود جرمنی می ایک مرتبہ استعمال ہونے والے 10 کروڑ سے زائد ماسک، 5 کروڑ فلٹر ماسک، 6 کروڑ ایپرنز اور ڈسپوزیبل گلووز کی قلت تھی، جس کے باعث طبی ورکرز نے 27 اپریل کو احتجاج کیا تھا۔

جرمنی کی 45 اتھارٹیز ان سپلائیز کی خریداری پر کام کررہی ہیں لیکن دنیا کے دیگر کئی ممالک کی طرح یہاں بھی اب تک یہ مسئلہ حل طلب ہے۔


وبا سے ہونے والے معاشی اثرات اور اقدامات


جرمنی میں 37 فیصد اموات بوڑھے، معذور افراد، بے گھر افراد کی پناہ گاہوں، پناہ گزینوں، وطن واپس آنے والوں اور قیدیوں میں ہوئیں تاہم دیگر یورپی ممالک کے مقابلے میں یہ شرح کم ہے کیونکہ فرانس میں یہ شرح 66 فیصد، اسپین میں 40 فیصد ہے۔

جرمنی میں کورونا وائرس کے باعث شرح اموات 4.6 فیصد جبکہ اٹلی میں یہ شرح 14.1 اور اسپین میں 12 فیصد سے کم ہے، اس کے ساتھ ہی جرمنی کے 19 فیصد متاثرین کی عمریں 70 سال سے زائد ہیں جبکہ اسپین میں یہ شرح 36 فیصد اور اٹلی میں 39 فیصد ہے۔

آئی ایم ایف کے مطابق کووڈ 19 کی وجہ سے جرمنی کی جی ڈی پی منفی 7 تک جانے کا امکان ہے جو 2021 تک 5.2 ہونے کی پش گوئی کی گئی ہے، علاوہ ازیں کورونا وائرس کے باوجود جرمنی میں بیروزگاری کی شرح 3.9 رہنے کا امکان ہے۔

جرمن شہر وائسباڈین میں فیڈرل انسٹیٹیوٹ فار پاپولیشن ریسرچ (بی آئی بی) کے اعداد و شمار کے مطابق اپریل 2020 میں 23 فیصد ملازمین گھر سے کام کررہے تھے۔

ان اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں ایک کروڑ 46 لاکھ خاندان ایک کروڑ 11 لاکھ کم عمر بچوں اور بالغان کے ساتھ گھروں میں مقیم ہیں۔

کورونا وائرس سے ہونے والے معاشی اثرات پر قابو پانے کے لیے جرمن چانسلر نے کے ایف ڈبلیو پروگرام 2020 کا اجرا کیا تھا جس کا مقصد کورونا کے باعث مالی مشکلات کا شکار چھوٹی، درمیانی اور بڑی انٹرپرائزز کی معاونت کرنا تھا۔

وزیر خزانہ اولف اسکولز نے کورونا بحران سے نمٹنے کے لیے 122 ارب 50 کروڑ یورو کا ضمنی بجٹ پیش کیا تھا، انجیلا مرکل کی حکومت نے بعدازاں ہنگامی امداد کا اعلان کیا تھا جس میں چھوٹے کاروبار کو سیلف امپلائیڈ، فری لانسرز، کسانوں کو بلا تاخیر ادائیگیاں کی جانی تھیں، جو 50 ارب یوروز پر مبنی تھا۔

مارچ میں قلیل المدتی ملازمت کے لیے وفاقی امپلائمنٹ ایجنسی کو ملک بھر سے 4 لاکھ 70 ہزار اشتہارات موصول ہوئے تھے، بعدازاں اپریل میں وزیر خزانہ نے کہا تھا کہ ٹیکس اور سماجی تحفظ کے طور پر ملازمین کو 1500 یورو کی خصوصی ادائیگی کی جائے گی۔

7 اپریل کو جرمنی کی چانسلر نے کے ایف ڈبلیو کوئیک لون متعارف کروایا تھا جسے لائیبلیٹی سے 100 فیصد استثنیٰ حاصل تھا۔


جرمن چانسلر انجیلا مرکل کا کردار


جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل 17 جولائی 1954 کو جرمنی کے مغربی علاقے ہیم برگ میں پیدا ہوئی اور 2005 میں جرمنی کی پہلی خاتون چانسلر منتخب ہوئیں۔

انہوں نے 22 نومبر 2005 کو 51 برس کی عمر میں چانسلر کا عہدہ سنبھالا تھا اور انہوں نے پہلی کم عمر چانسلر کا اعزاز بھی حاصل کیا تھا۔

2009 میں ان کی پارٹی انتخاب میں دوبارہ کامیاب ہوئی جس کے بعد ستمبر 2013 میں الیکشن میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ اتحادی حکومت قائم کی جس کے بعد 2017 میں ان کی جماعت کو پھر کامیابی حاصل ہوئی اور وہ چوتھی مرتبہ چانسلر بنیں۔

فروری 2020 میں انیگریٹ کرامپ نے اعلان کیا تھا کہ وہ موسم گرما میں پارٹی کی قیادت سے مستعفی ہوجائیں گی تاہم اب تک ایسا نہیں ہوا جبکہ مقامی میڈیا کے مطابق انجیلا مرکل کی مقبولیت میں 80 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

کورونا وائرس کے دوران انجیلا مرکل کا پہلا بیان 11 مارچ کو سامنے آیا تھا اور اسی روز عالمی ادارہ صحت نے کووڈ-19 کو عالمی وبا قرار دیا تھا، پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں کمی کے لیے یکجہتی پر زور دیا تھا۔

جس کے بعد جرمنی کی چانسلر نے 18 مارچ کو غیر معمولی طور پر قوم سے خطاب کیا، جسے ٹیلی ویژن پر نشر کیا گیا، اس دوران انہوں نے وبا کو جنگ عظیم دوم کے بعد جرمن معاشرے کو درپیش سب سے بڑا چیلنج قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس سے بڑا چیلنج کوئی نہیں جو ہماری مشترکہ یکجہتی پر منحصر ہو۔

واضح رہے کہ انجیلا مرکل نے 1986 میں کوانٹم کیمسٹری میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حال کی تھی اور اپنے تجربے کی بنیاد پر کورونا وائرس پر قابو پانے سے متعلق سائنسی وضاحت بھی دی تھی جسے وبا کے خلاف جرمنی کے ردعمل کی کامیابی بھی قرار دیا جارہا ہے۔

اس کے ساتھ کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے ڈاکٹر سے ملاقات کے بعد انجیلا مرکل خودساختہ آئسولیشن میں چلی گئی تھیں اور 3 مرتبہ ٹیسٹ منفی آنے کے باوجود انہوں نے گھر سے کام جاری رکھا تھا یہی نہیں بلکہ انہوں نے کورونا وائرس کے دوران ذخیرہ اندوزی نہ کرنے کی عملی مثال پیش کی تھی اور گروسری کے دوران ٹشو رول، صابن اور دیگر ضروری اشیا کی خریداری کی تھی۔

کورونا وائرس کے کیسز اور اموات


نیوزی لینڈ کی آبادی 48 لاکھ 24 ہزار سے زائد افراد پر مشتمل ہے جن میں سے 27 جولائی تک ایک ہزار 206 وبا کا شکار ہوئے جبکہ ہلاکتوں کی تعداد 22 ہے۔

جزیرہ نما ملک میں پہلے کیس کی تصدیق 28 فروری کو ہوئی تھی بعدازاں مارچ میں وبا کے پھیلاؤ میں اضافہ دیکھا گیا تھا اور 28 مارچ کو سب سے زیادہ 78 کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔

بعدازاں نیوزی لینڈ میں ملک گیر لاک ڈاؤن کے نتیجے میں وبا کے پھیلاؤ میں بتدریج کمی آئی اور 14 اپریل سے اس رپورٹ کی تحریر تک یومیہ 8 سے زائد کیسز رپورٹ نہیں ہوئے جبکہ بعد ازاں یہ تعداد یومیہ 3 تک بھی محدود ہوئی۔

نیوزی لینڈ میں کورونا وائرس سے پہلی ہلاکت 29 مئی کو ہوئی تھی اور 14 اپریل کو ایک روز میں سب سے زیادہ 4 ہلاکتیں ہوئی تھیں تاہم 31 مئی کے بعد سے نیوزی لینڈ میں کوئی ہلاکت رپورٹ نہیں ہوئی۔

علاوہ ازیں نیوزی لینڈ کی وزارت صحت کی ویب سائٹ کے مطابق نیوزی لینڈ میں 22 جنوری 2020 سے 26 جولائی 2020 تک کورونا وائرس کے 4 لاکھ 56 ہزار227 ٹیسٹ کیے گئے، علاوہ ازیں وہاں گزشتہ روز 550 ٹیسٹ کیے گئے لیکن کوئی مثبت کیس سامنے نہیں آیا۔

وزارت صحت کے مطابق ملک میں بیرون ملک سے آئے کیسز کی شرح 40 فیصد، بیرون ملک سے متعلقہ کیسز کی شرح 29 فیصد، مقامی سطح کے اور وبا سے جڑے کیسز 25 فیصد اور نامعلوم ذرائع سے مقامی سطح پر منتقلی کے کیسز کی شرح 6 فیصد ہے۔


نیوزی لینڈ میں کورونا وائرس کا پہلا کیس


نیوزی لینڈ میں کورونا وائرس کے پہلے کیس کی تصدیق رواں سال 28 فروری کو ایران سے آک لینڈ آنے والے شہری میں ہوئی تھی لیکن اس وقت کہا گیا تھا کہ وبا کے پھیلاؤ کے امکانات کم ہیں۔

اس حوالے سے وزارت صحت نے کہا تھا کہ 60 برس سے زائد عمر کے شخص میں کووڈ-19 کی تصدیق ہوئی ہے جو آک لینڈ سٹی ہسپتال میں زیر علاج ہیں اور ان کی حالت میں بہتری آرہی ہے۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ صحت حکام نے مریض کی کانٹیکٹ ہسٹری کی ٹریسنگ شروع کردی ہے اور مریض کے اہلخانہ کے بھی ٹیسٹ کیے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ مریض نے تہران سے آنے والے امارات ایئرلائن کی پرواز میں سفر کیا جو انڈونیشیا کے شہر بالی میں رکی اور بعد ازاں یہ پرواز آک لینڈ پہنچی۔


کورونا وائرس سے نمٹنے کی حکمت عملی


جنوری کے اواخر میں نیوزی لینڈ کی وزارت صحت نے کورونا وائرس کی صورتحال کی نگرانی کے لیے ایک ٹیم تشکیل دی تھی لیکن وائرس کا خطرہ کم قرار دیا تھا بعدازاں27 جنوری سے سرکاری صحت کے عملے نے چین سے آنے والی پروازوں کے مسافروں میں وائرس کی علامات کی جانچ کا آغاز کیا۔

بعدازاں وزیراعظم جسینڈا آرڈرن کی حکومت نے ووہان میں پھنسے کیوی شہریوں کی باحفاظت وطن واپسی کے لیے ایئرنیوزی لینڈ کی پرواز کی خدمات حاصل کیں۔

3 فروری کو نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے چین یا اس کے راستے سے آنے والے غیرملکی شہریوں کے داخلے پر پابندی عائد کی اور ملک میں داخلے کے 14 روزہ خودساختہ آئسولیشن کو لازمی قرار دیا تھا۔


کیس کی تصدیق کے بعد نیوزی لینڈ نے کیا کیا؟


کورونا وائرس کے پہلے کیس کی تصدیق سے ایک ماہ قبل ہی نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے صورتحال کی نگرانی کا آغاز کردیا تھا، بعدازاں اس حوالے سے انہوں نے اقدامات بھی کیے تھے جن میں زیادہ سے زیادہ ٹیسٹنگ، سفری پابندیاں اور سرحدوں کی بندش، مرحلہ وار 7 ہفتوں کا لاک ڈاؤن قابل ذکر ہیں اور یہی کورونا وائرس کے خلاف جسینڈا آرڈرن کی کامیابی کی وجہ بھی ہیں۔

29 فروری کو طبی عملے نے نیوزی لینڈ کے ایئرپورٹس پر ہانگ کانگ، جاپان، جنوبی کوریا، سنگاپور اور تھائی لینڈ سے آنے والی براہ راست پروازوں کا معائنہ شروع کیا۔

یکم مارچ کو نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے شمالی اٹلی اور جنوبی کوریا سے آنے والے افراد کے لیے 14 روزہ خودساختہ آئسولیشن کی شرط عائد کردی۔

13 مارچ کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے باعث آک لینڈ میں پیسیکا فیسٹیول منسوخ کردیا گیا تھا جس کے اگلے روز نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے بحرالکاہل سے آنے والے افراد کے علاوہ تمام مسافروں کے ملک میں داخلے کے لیے 14 روز کی خودساختہ آئسولیشن لازمی قرار دی تھی اور بحرالکاہل کے ممالک جانے والے افراد کے لیے سخت سرحدی اقدامات کیے گئے۔

بعدازاں 15 مارچ کو 2019 کے سانحہ کرائسٹ چرچ سے متعلق یادگاری تقریب کو وبا کے باعث منسوخ کردیا گیا تھا جس کے اگلے روز جسینڈا آرڈرن نے اعلان کیا تھا کہ نیوزی لینڈ میں داخلے ہونے والے وہ سیاح جو خود ساختہ قرنطینہ نہیں کرتے انہیں ملک بدر کردیا جائے گا۔

19 مارچ کو ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ ڈاکٹر آشلے بلوم فیلڈ نے کہا تھا کہ اب تک رپورٹ ہونے والے تمام 28 کیسز کا تعلق بیرون ملک سفر سے ہے اور مقامی سطح پر وائرس منتقل نہیں ہوا، اسی روز نیوزی لینڈ نے 100 سے زائد افراد پر مشتمل انڈور تقریبات کی منسوخی کا اعلان کیا تھا۔

20 مارچ کو آک لینڈ کونسل نے 14 روز کے لیے پولز، لائبریریاں، گیلریز اور دیگر کمیونٹی مراکز بند کرنے کا اعلان کیا تھا، 21 مارچ کو وزارت صحت نے کہا کہ مقامی سطح پر منتقلی کے خطرے کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔

اس کے ساتھ ہی نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے 70 برس یا اس سے زائد عمر کے افراد کو جس حد تک ممکن ہو گھر رہنے کی ہدایت کی تھی، انہوں نے لوگوں کو گھر سے کام کرنے اور ملک میں سفر محدود کرنے کی بھی ہدایت کی۔


نیوزی لینڈ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سرحدوں کی بندش


19 مارچ کو نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ کیوی شہریوں اور مستقل رہائشیوں کے علاوہ تمام افراد کے لیے سرحدیں بند کرنے کا اعلان کیا تھا اور اس کا اطلاق 20 مارچ سے ہوا تھا۔

اس حوالے سے اعلان کرتے ہوئے جسینڈا آرڈرن نے کہا تھا کہ نیوزی لینڈ کے شہریوں کو کووڈ-19 سے محفوظ رکھنا ہماری اولین ترجیح ہے، انہوں نے کہا تھا کہ بگڑتی ہوئی صحت کی عالمی صورتحال کا مطلب ہے کہ نیوزی لینڈ کے شہریوں کی صحت کو درپیش خطرات میں اضافہ ہورہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں تسلیم کرتی ہوں کہ یہ غیر معمولی ہے لیکن میں خطرہ مول لینے کو تیار نہیں ہوں۔


نیوزی لینڈ میں 4مراحل پر مشتمل الرٹ سسٹم متعارف


21 مارچ کو نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے 4 مراحل پر مشتمل الرٹ سسٹم متعارف کروایا تھا، اس حوالے سے جسینڈا آرڈرن نے کہا تھا کہ اس وقت ملک میں الرٹ لیول 2 ہے جس کا مطلب ہے کہ مقامی سطح پر وائرس کی منتقلی کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔

بعدازاں 23 مارچ کو نیوزی لینڈ میں کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد 102 ہوگئی تھی جن میں سے 2 کیسز کو مقامی سطح پر منتقلی کے کیسز قرار دیا جارہا تھا، اسی روز وزیراعظم جسینڈا آرڈرن نے فوری طور پر ملک بھر الرٹ لیول تھری کی جانب جانے کا اعلان کیا۔

جس کا مطلب یہ تھا کہ اس بات کا زیادہ خطرہ موجود ہے کہ بیماری پر قابو نہیں پایا گیا اور مقامی سطح پر کیسز کی منتقلی کا عمل جاری ہے، الرٹ لیول تھری کے تحت 24 مارچ سے لوگوں کو گھروں میں رہنے، اسکولز اور دیگر تعلیمی مراکز بند کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔

اس کے ساتھ ہی تمام غیر ضروری کاروبار بند کرنے کا حکم جاری کیا گیا (ان میں ضروری کاروبار، جیسا کہ سپرمارکیٹس، فارمیسیز اور میڈیکل کلینکس شامل نہیں تھیں) جبکہ سفر کو انتہائی محدود کرنے اور طبی خدمات کو ترجیح دینے کا بھی فیصلہ کیا گیا تھا۔

علاوہ ازیں الرٹ لیول تھری کے اعلان کے کچھ گھنٹے بعد الرٹ لیول 4 کی طرف جانے کا بھی اعلان کیا گیا تھا دوسری جانب نیوزی لینڈ کی وزارت صحت نے کلینکل تصدیق شدہ کیسز کے ساتھ ساتھ لیبارٹریز میں کورونا وائرس کے تصدیق شدہ کیسز کی گنتی کا عمل شروع کیا۔

25 مار چ سے نیوزی لینڈ میں ملک گیر ایمرجنسی کا اعلان کیا گیا اور رات 11 بج کر 59 منٹ پر کم از کم 4 ہفتوں کا لاک ڈاؤن نافذ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

بعدازاں 26 مارچ سے 27 اپریل تک کیسز میں بتدریج کمی کے بعد 28 اپریل کو نیوزی لینڈ میں کم از کم 2 ہفتے کے لیے دوبارہ الرٹ لیول تھری جاری کیا گیا جس کے بعد 4 مئی کو 16 مارچ کے بعد سے نیوزی لینڈ میں کورونا وائرس کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا تھا جس کے بعد 5 مئی کو بھی کوئی کیس سامنے نہیں آیا تھا۔

14 مئی کو نیوزی لینڈ الرٹ لیول ٹو میں واپس داخل ہوگیا تھا اور مسلسل 3 روز تک کوئی کیس سامنے نہیں آیا تھا اور اس کے بعد 18 مئی کو کوئی کیس سامنے نہیں آیا تھا۔


اقدامات پر سختی سے عمل کی مثال


نیوزی لینڈ میں سماجی فاصلے کے قوانین پر سختی سے عملدر آمد کیا گیا اور یہاں تک کہ وزیر اعظم جسینڈا آرڈرن کو بھی قوانین پر عمل کرتے ہوئے ایک کیفے میں داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا۔

16 مئی کو جسینڈا آرڈرن، اپنے ساتھی کلارک گیفورڈ ویلنگٹن کے ساتھ ایک کیفے گئیں لیکن انہیں اس لیے واپس بھیج دیا گیا کہ سماجی فاصلے کے قوانین کے مطابق اس وقت کیفے میں مزید مہمانوں کی گنجائش نہیں تھی۔

چنانچہ جسینڈا اور ان کے ساتھی کلارک گیفورڈ کھانا کھائے بغیر واپس جانے پر مجبور ہوئیں تاہم کیفے میں موجود دیگر افراد جلدی چلے گئے جس کی وجہ سے میز خالی ہوگئی تھی اور اس کے بعد عملے کا ایک رکن ان کے پیچھے دوڑتا ہوا گیا اور انہیں بتایا تھا کہ ایک میز خالی ہوچکی ہے جس کے بعد وہ کیفے میں واپس آئے تھے۔


کورونا سے پاک نیوزی لینڈ


رواں سال مئی کے اواخر سے ہی جسینڈا آرڈرن کی جانب سے کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے سے متعلق ملک گیر لاک ڈاؤن کے نتائج سامنے آنا شروع ہوئے اور 2 جون تک نیوزی لینڈ میں گزشتہ 11 روز سے کورونا وائرس کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا تھا۔

نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے نیوز کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ ملک آئندہ ہفتے الرٹ لیول ون کی طرف جاسکتا ہے، یعنی سماجی فاصلے سے متعلق تمام اقدامات اور عوامی اجتماعات پر عائد پابندیاں ختم ہوجائیں گی تاہم ان کا کہنا تھا کہ ملک کی سرحدوں کی بندش قائم رہے گی۔

بعدازاں 8 جون کو جسینڈا آرڈرن نے کورونا وائرس کا کامیابی سے مقابلہ کرتے ہوئے کوئی فعال کیس موجود نہ ہونے پر مقامی سطح پر کووڈ 19 کے سلسلے میں عائد تمام تر پابندیاں ہٹانے کا اعلان کیا تھا۔

نیوزی لینڈ میں کورونا وائرس کے آخری مریض کو بھی ہسپتال سے ڈسچارج کردیا گیا تھا اور جسینڈا آرڈرن کے مطابق جب انہیں اس سنگ میل کا علم ہوا تو وہ خوشی سے اپنے کمرے میں رقص کرنے لگی تھیں۔

وائرس سے نمٹنے کے بعد نیوزی لینڈ الرٹ لیول ون پر واپس آگیا تھا جس کے تحت سرحد پر سختی اور بندشیں برقرار رکھنے کا اعلان کیا گیا تھا لیکن سماجی فاصلے اور عوامی اجتماعات پر عائد پابندیاں ہٹالی گئی تھی۔

وبا کے خلاف جنگ میں مکمل فتح کے اعلان کے روز تک نیوزی لینڈ میں ایک ہزار 154 افراد میں وائرس کی تصدیق ہوئی تھی اور 22 افراد ہلاک ہو ئے تھے۔


معاشی اثرات اور اقدامات


نیوزی لینڈ کی معیشت، زراعت اور خدمات جیسا کہ سیاحت، ریٹیل اور ہول سیل ٹریڈ پر انحصار کرتی ہے جو کورونا وائرس کے باعث بہت زیادہ متاثر ہوئی اور بیروزگاری کی شرح میں اضافہ بھی ہوا، 16 مارچ کو ایئر نیوزی لینڈ نے شیئر ٹریڈنگ روک دی اور خدمات میں کمی کردی تھی جبکہ ریزرو بینک نے ایمرجنسی سرکاری نقد ریٹ میں کمی کا اعلان کردیا تھا ۔

17 مارچ کو عالمی سطح پر معاشی خسارہ دیکھا گیا تھا جس نے نیوزی لینڈ کی معیشت کو بھی متاثر کیا تھا جس کے بعد 20 مارچ کو وبا سے ہونے والے معاشی اثرات دور کرنے کے لیے وزیراعظم جسینڈا آرڈرن نے ملکی شرح نمو کے 4 فیصد کے برابر 12 ارب 10 کروڑ ارب کے پیکیج کا اعلان کیا جس میں صحت کے لیے 50 کروڑ ڈالر، کاروبار اور ملازمت میں تعاون کے لیے 8 ارب 70 کروڑ ڈالر اور آمدن میں تعاون کے لیے 2 ارب 80 کروڑ ڈالر مختص کیے گئے۔

بعدازاں 15 اپریل کو کورونا وائرس کے باعث معیشت پر پڑنے والے اثرات کے باعث نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے اپنی، حکومت کے وزرا اور عوامی اداروں کے سربراہان کی تنخواہوں میں آئندہ 6 ماہ تک کے لیے 20 فیصد کٹوتی کردی تھی۔

15 مئی کو جسینڈا آرڈرن نے مالی سال 2020 کے بجٹ کے حصے کے تحت معیشت کی بحالی کے لیے 50 ارب ڈالر کے ریکوری پیکیج کا اعلان کیا تھا جس میں سیاحت کے لیے 40 کروڑ ڈالر، ماحولیات سے متعلق نوکریوں کے پیکیج کے لیے ایک ارب 10کروڑ ڈالر، ہاؤسنگ کے لیے 5 کروڑ 60 لاکھ ڈالر، 50 فیصد نقصان کا سامنا کرنے والے کاروبار کے لیے 3 ارب 20 کروڑ ڈالر مختص کیے گئے تھے۔


کیا اس کامیابی کو برقرار رکھا جاسکتا ہے؟


تاہم جسینڈا آرڈرن کے ملک سے وائرس کے خاتمے کے اعلان کے ایک ہفتے بعد برطانیہ سے نیوزی لینڈ واپس آنے والی خواتین میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی تھی، وبا کا شکار ہونے والی دونوں خواتین کو ہمدردی کی بنیاد پر جلد قرنطینہ چھوڑنے کی اجازت دی گئی تھی لیکن ان کا ٹیسٹ نہیں کیا گیا تھا اور وہ بیماری کی تصدیق سے پہلے ہی ملک میں سفر بھی کرچکی تھیں۔

بعدازاں یہ بات سامنے آئی تھی کہ درجنوں افراد نے باقاعدہ ٹیسٹنگ کے بغیر جلد قرنطینہ ختم کیا تھا جس کے باعث کیسز میں زیادہ اضافہ تو نہیں ہوا لیکن اس سے بڑے پیمانے پر عوام کی جانب سے غم و غصے کے بعد وزیر صحت ڈیوڈ کلارک نے 2 جولائی کو استعفیٰ دے دیا تھا۔

خیال رہے کہ ڈیوڈ کلارک لاک ڈاؤن کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اہلخانہ کو ساحل سمندر پر لے گئے تھے جس کے باعث استعفے سے قبل ہی ان کے عہدے میں تنزلی کردی گئی تھی


نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جسینڈا آرڈرن


نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جسینڈا کیٹ لوریل آرڈرن 26 جولائی 1980 کو ہیملٹن میں پیدا ہوئیں، انہوں نے 2001 میں کمیونیکیشن اسٹڈیز میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی لیکن اس سے قبل 1999 میں وہ لیبر پارٹی سے وابستہ ہوگئی تھیں۔

انہوں نے ڈھائی برس تک برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی کابینہ کے دفتر میں بیٹر ریگولیشن ایگزیکٹو کے لیے ایسوسی ایٹ کے طور پر خدمات بھی سرانجام دیں، وہ 2007 میں انٹرنیشنل یونین فار سوشلسٹ یوتھ کی صدر منتخب ہوئیں۔

جسینڈا آرڈرن نے 2008 میں وائکاٹو کی نشست سے الیکشن میں حصہ لیا لیکن 13 ہزار ووٹس سے شکست ہوئی، بعدازاں 28 برس کی عمر میں وہ ایوان نمائندگان کی سب سے کم عمر رکن بنیں، 2011 اور 2014 میں وہ آک لینڈ کی نشست پر شکست سے دو چار ہوئیں بعدازاں 2017 میں آک لینڈ میں ماؤنٹ البرٹ کی خالی نشست پر ضمنی انتخاب میں انہیں کامیاب ملی۔

جس کے بعد وہ یکم اگست 2017 کو نیوی لینڈ کی لیبر پارٹی کی صدر اور اکتوبر 2017 میں 37 برس کی عمر میں نیوزی لینڈ کی 150 سالہ تاریخ میں تیسری خاتون وزیر اعظم منتخب ہوئیں اور انہیں ملکی تاریخ میں سب سے کم عمر وزیراعظم ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

علاوہ ازیں وہ 21 جون 2018 کو وزارت عظمیٰ کے عہدے پر براجمان رہتے ہوئے بچے کو جنم دینے والی دنیا کی دوسری اور نیوزی لینڈ کی پہلی خاتون بھی بنیں۔

ان کی بیٹی کی پیدائش سے 28 برس پہلے 1990 میں پاکستان کی سابق اور پہلی خاتون وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے عہدے پر براجمان رہتے ہوئے بڑی بیٹی بختاور بھٹو کو جنم دیا تھا۔

بعدازاں مارچ 2019 میں کرائسٹ چرچ کی 2 مساجد پر دہشت گردی کے حملے کو انہوں نے نیوزی لینڈ کی تاریخ کا مشکل ترین وقت قرار دیا تھا جس میں 50 افراد جاں بحق ہوگئے تھے، اس سانحے کے بعد انہوں نے ہتھیاروں سے متعلق قانون میں سختی بھی کی تھی اور واقعے کے مجرم کو رواں برس اگست میں سزا سنائے جانے کا امکان ہے۔

کورونا وائرس کے کیسز اور اموات


ناروے کی آبادی 54 لاکھ 23 ہزار 620 افراد پر مشتمل ہے، وہاں 24 جولائی 2020 تک کورونا وائرس کے 4 لاکھ 20 ہزار 528 ٹیسٹ کیے گئے تھے۔

علاوہ ازیں ناروے میں 9 ہزار 85 افراد میں وائرس کی تصدیق ہوئی جبکہ 255 ہلاک ہوئے۔

علاوہ ازیں ہسپتال میں داخل مریضوں کی تعداد 973 ہے جن میں سے 226 انتہائی نگہداشت یونٹ میں داخل ہیں۔

ناروے میں کورونا وائرس کا پہلا کیس 27 فروری کو سامنے آیا تھا جس کے بعد مارچ کے مہینے میں وبا کے پھیلاؤ میں تیزی دیکھی گئی تھی اور 24 مارچ کو ریکارڈ 313 کیسز کی تصدیق ہوئی تھی۔

جس کے بعد لاک ڈاؤن کے اقدامات کے باعث وبا کے پھیلاؤ میں کمی دیکھنے میں آئی اور 28 اپریل کے بعد سے کیسز کی تعداد 50 سے بھی کم ہوگئی اور 19 جولائی کو کورونا وائرس کے 19 کیسز کی تصدیق ہوئی تھی۔

ناروے میں اب تک کورونا وائرس سے 255 ہلاکتیں ہوچکی ہیں اور اس ضمن میں پہلی موت 13 مارچ کو ہوئی تھی جس کے بعد اپریل میں شرح اموات میں اضافہ دیکھا گیا اور 16 اپریل کو ایک دن میں سب سے زیادہ 13 ہلاکتیں ہوئی تھی۔

بعدازاں مئی میں اموات کی تعداد میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی اور 15 مئی سے 18 جولائی کے درمیان 25 ہلاکتیں ہوئی اور اس کے بعد سے اب تک کوئی ہلاکت رپورٹ نہیں ہوئی۔


کورونا وائرس کا پہلا کیس


ناروے میں رواں سال 26 فروری کو کورونا وائرس کے پہلے کیس کی تصدیق ہوئی تھی، اس حوالے سے ناروے کی پبلک ہیلتھ ایجنسی (ایف ایچ آئی) نے بتایا تھا کہ ایک شخص میں کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے جسے گھر میں آئسولیٹ کردیا گیا ہے۔

ہیلتھ ایجنسی نے کہا تھا کہ متاثرہ شخص چند روز قبل چین سے آیا تھا لیکن بیمار نہیں لگ رہا تھا اور اس کی جانب سے کسی دوسرے فرد کو متاثر کرنے کا امکان نہیں تھا۔

ایف ایچ آئی ڈائریکٹر لائن وولڈ نے کہا تھا کہ متاثرہ شخص میں کورونا وائرس کی علامات ظاہر نہیں ہوئیں لیکن وبا کے مرکز چین سے آنے کے بعد اس کا ٹیسٹ کیا گیا تھا۔


وبا سے بچاؤ


پہلا کیس سامنے آنے تک ناروے میں صحت حکام نے میونسپلٹیز کو چین سے آنے والے مریضوں کے ٹیسٹس کرنے سے متعلق خبردار کیا تھا۔

7 جنوری 2020 کو عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کووڈ-19 کے ممکنہ خدشے سے متعلق پہلا پیغام موصول ہونے کے بعد ناروے کے ڈائریکٹوریٹ آف ہیلتھ نے 22 جنوری تک ملک کے بھر کے تمام ہسپتالوں، میونسپلٹیز کے ساتھ ساتھ عوام کو ممکنہ عالمی وبا کے خدشے سے آگاہ کردیا تھا۔

جس کے بعد 31 جنوری کو وزارت صحت کی جانب سے ڈائریکٹوریٹ کو تمام نارویجین ہیلتھ سروسز کے لیے کورونا وائرس سے متعلق ردعمل مربوط کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ ایک اہم جزو ٹیسٹنگ میں، ملک کی 21 مائیکرو بائیولوجیکل لیبارٹریز کا شامل ہونا اور ساتھ ہی جنوری سے ان لیبارٹریز نے وائرس سے متعلق پیشرفت پر بارہا آگاہ کیا جس کے بعد فروری میں کووڈ-19 آر ٹی-پی سی آر ٹیسٹ شروع کیا گیا تھا۔

6 مارچ 2020 تک ناروے میں انفیکشن کی شرح دنیا میں ساتویں نمبر پر تھیں تاہم اس وقت تک کوئی ہلاکت نہیں ہوئی تھی۔


سخت حکمت عملی اور اقدامات


ناروے کی وزیراعظم نے کورونا وائرس کے پہلے کیس کے بعد ملک کے نامور طبی عہدیدار پر مشتمل ایک ہنگامی یونٹ تشکیل دیا تھا اور ایک واضح حکمت عملی مرتب کی تھی تاکہ متاثرہ افراد کو بہترین طبی خدمات فراہم کی جائیں اور شرح اموات میں کمی لائی جائے۔

نارویجین انسٹیٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ کی رپورٹس کی بنیاد پر ایرنا سولبرگ نے ابتدائی اور بہت زیادہ ٹیسٹنگ کا اہم اقدام اٹھایا تھا جس میں تمام مصدقہ مریضوں کے رابطے میں موجود افراد کی ٹیسنگ، وبا سے متاثرہ علاقوں جیسا کہ چین ،اٹلی سے آنے والے مسافروں کی ٹیسٹنگ اور انفیکشن سے متاثرہ افراد کی اسکریننگ شامل تھی۔

ناروے کی وزیراعظم نے کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے مختلف اقدامات متعارف کروائے تھے جن میں 26 مارچ تک ڈے کیئر سینٹرز، اسکولز اور یونیورسٹیز، بڑے اور چھوٹے کاروبار، ریسٹورنٹس، فٹنس سینٹرز اور کنسرٹ وینیوز کی بندش شامل تھی۔

ان اقدامات میں ایک دوسرے سے ایک میٹر تک کا سماجی فاصلہ، اِن ڈورز میں 2 میٹر کا فاصلہ برقرار رکھنے، بیرون ملک سے واپسی کی صورت میں 14 دن کا قرنطینہ، ٹیکسیز اور ڈرئیوانگ لائسنسز کے دفاتر کی بندش شامل تھی جبکہ وزیراعظم نے عوامی مقامات پر جمع ہونے والے افراد کی تعداد 5 اور انڈور جمع ہونے کی تعداد 6 تک محدود کردی تھی۔

اس کے ساتھ ہی ثقافتی تہواروں، انِ ڈور اور آؤٹ ڈور اسپورٹس، جمز اور پارکس کو بھی بند کردیا گیا تھا۔

بعدازاں 13 مارچ کو ناروے کی وزارت برائے امور خارجہ نے امریکا اور فرانس جانے والی غیرضروری پروازیں بند کرنے کا اعلان کیا تھا، علاوہ ازیں کورونا وائرس کے باعث اٹلی، ایران، چین، اسپین، سوئٹزرلینڈ، جنوبی کوریا، جرمنی اور آسٹریا کے لیے بھی سفری ہدایات پہلے ہی جاری کی جاچکی تھیں۔

جس کے بعد 14 مارچ کو وزارت امور خارجہ نے آئندہ ایک ماہ تک وہ تمام بین الاقوامی سفر محدود کرنے کی ہدایت کی تھی جو زیادہ اہمیت کے حامل نہیں تھے، اس حوالے سے ناروے کی وزیراعظم ایرنا سولبرگ نے کہا تھا کہ ہم ایک سنگین اور تیزی سے غیر متوقع ہوتی صورتحال میں ہیں، ہماری اولین ترجیح زندگی اور صحت کا تحفظ ہے جس کے لیے غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے۔

15 مارچ کو ناروے کی وزیراعظم نے رہائشی اجازت نامے کے حامل غیر ملکی شہریوں کے لیے سرحد بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور کہا تھا کہ اندرونی سرحد پر عارضی داخلی اور خارجی کنٹرولز بھی متعارف کروائے جائیں گے تاہم ملک کے تمام ایئرپورٹس کو کھلا رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا کہ تمام نارویجین شہریوں اور ملک میں کام کرنے والے افراد کو داخلے کی اجازت دی گئی تھی، اس کے ساتھ ہی یورپین اکنامک ایریا (ای ای اے) کے شہریوں اور ناروے میں مقیم اہلخانہ کو اس پابندی سے استثنیٰ حاصل تھا۔

17 مارچ کو ایرنا سولبرگ کی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ وہ غیرملکی شہری، جو ناروے سے آئے ہیں، انہیں قرنطینہ کیا گیا ہے لیکن ان میں کورونا وائرس کی علامات ظاہر نہیں ہوئیں تو وہ ملک سے جاسکتے ہیں اور اگر وہ یہاں رہنے کا انتخاب کرتے ہیں تو انہیں مکمل عرصے کے لیے قرنطینہ کرنا ہوگا۔

اسی روز ناروے کی وزیراعظم نے مختلف ممالک کی جانب سے سرحدی اور فضائی حدود کی بندشوں کے بعد نارویجین شہریوں کو وطن واپسی میں درپیش مشکلات کے باعث ایس اے ایس، نارویجین اور ویدیروئے ایئرلائنز کے ساتھ تعاون کا اعلان کیا تھا تاکہ بیرون ملک پھنسے شہریوں کو واپس لانے میں مدد کی جاسکے۔

24 مارچ کو ایرنا سولبرگ نے 12 مارچ کو متعارف کروائے گئے اقدامات میں 13 اپریل تک توسیع کا فیصلہ کیا تھا، اس میں دیگر سرحدی پابندیوں میں توسیع بھی شامل تھی، اس حوالے سے انہوں نے کہا تھا کہ ہم نے جو اقدامات اٹھائے اس سے وائرس کی منتقلی میں کمی ہوتی دکھائی دے رہی ہے لیکن ہمیں اسے مزید وقت دینے کی ضرورت ہے۔

بعدازاں 31 مارچ کو ناروے کی وزیراعظم نے کہا تھا کہ پہلی مرتبہ ہسپتالوں میں کورونا وائرس کے یومیہ مریضوں میں کمی دیکھنے میں آئی، یہ ایک مثبت رجحان ہے جو اگر برقرار رہا تو پابندیوں میں نرمی کی جائے گی۔


وبا پر کنٹرول اور لاک ڈاؤن میں نرمی


7 اپریل کو ناروے کی وزیراعظم نے اعلان کیا تھا کہ کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے عائد پابندیوں میں آہستہ آہستہ نرمی کی جائے گی، انہوں نے کہا تھا کہ ایک ساتھ مل کر ہم نے وبا پر قابو پالیا ہے لہذا ہم اب بتدریج نرمی لاسکتے ہیں۔

انہوں نے 20 اپریل سے کنڈرگارٹنز کھولنے، 27 اپریل سے پہلی سے چوتھی جماعت تک کے اسکولز کھولنے کی اجازت دی تھی جبکہ گھر سے کام کو برقرار رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ شہریوں کو ایک طویل عرصے کے لیے ان اقدامات کا عادی ہوجانا چاہیے۔

اس کے ساتھ ہی ایرنا سولبرگ نے 15 جون تک کھیلوں اور ثقافتی تقریبات پر پابندی برقرار رکھی اور شہریوں کو کسی ضروری وجہ کے بغیر بیرون ملک سفر نہ کرنے کی ہدایت کی تھی۔

بعدازاں 7 مئی کو ناروے کی وزیراعظم نے وائرس کے پھیلاؤ میں مزید کمی کے باعث لاک ڈاؤن میں مزید نرمی کا اعلان کیا تھا، جس کے تحت 11 مئی سے تمام اسکولز کھولنے کی اجازت دی گئی تھی اور میونسپلیٹیز کو ضرورت پڑنے پر اس میں تاخیر کا اختیار دیا گیا تھا جبکہ دیگر تعلیمی ادارے کھولنے اور پناہ گزینوں سے متعلق پروگرامز کی بحالی کا اعلان بھی کیا تھا۔

17 مئی کو ناروے کے قومی دن کی تقریبات سے متعلق قوانین کی تصدیق کی گئی تھی اور سماجی فاصلے کے ساتھ نجی تقریبات کو 20 افراد جبکہ عوامی تقریبات کو 50 افراد تک محدود کیا گیا تھا بعدازاں یکم جون سے تفریحی پارکس اور کلبز کھول دیے گئے تھے تاہم ایک میٹر کے سماجی فاصلے کی شرط برقرار تھی۔

15 جون سے ناروے کی وزیراعظم نے مزید نرمی کا فیصلہ کیا تھا جس میں چھوٹے پیمانے پر 50 سے 200 افراد پر مشتمل تقریبات کی اجازت دینے اور شائقین کے بغیر نارویجین فٹ بال سیزن کا آغاز شامل تھا جبکہ واٹر پارکس اور سوئمنگ پولز کو بھی کھول دیا گیا تھا، انہوں نے کہا تھا کہ ہم اب وبا پر قابو پانے کے مرحلے میں ہیں۔


بچوں سے خطاب


16 مارچ کو ناروے کی وزیراعظم نے ایک غیر معمولی اقدام اٹھاتے ہوئے ملک میں بچوں کے ہمراہ پریس کانفرنس کا انعقاد کیا تھا، اس دوران صحافیوں کے داخلے پر پابندی تھی اور پریس کانفرنس کو ملک گیر سطح پر نشر کیا گیا تھا، انہوں نے اپنے دیگر 2 وزرا کے ہمراہ اسکول کے بچوں کے درجنوں سوالات کے جوابات دیے جو وبا کے باعث خوفزدہ تھے۔

ایرنا سولبرگ نے کہا تھا کہ کئی بچے سوچتے ہیں کہ یہ خوفزدہ ہے، خوفزدہ ہونا ٹھیک ہے جب کئی چیزیں ایک وقت میں ہورہی ہوں، اگر آپ کا اسکول متاثر ہوتا ہے تو ہر کوئی متاثر ہوسکتا ہے۔

پریس کانفرنس کے دوران بچوں نے وزیراعظم سے مختلف سوالات کیے تھے جیسا کہ کیا میری برتھ ڈے پارٹی ہوسکتی ہے؟ کیا شاپنگ سینٹر جانے کے بعد دادا، دادی کے پاس جاسکتے ہیں؟ ویکسین کی تیاری میں کتنا وقت لگتا ہے؟ مدد کے لیے کیا کرسکتے ہیں؟

ناروے کی وزیراعظم نے بچوں کو جواب دیا تھا کہ گھر رہ کر آپ دوسروں کی مدد کررہے ہیں، یہ ان لوگوں کے لیے بہت اہم ہے جو پہلے سے بیمار ہیں یا بزرگ ہیں۔

بعدازاں 15 اپریل کو ایرنا سولبرگ نے دوبارہ ملک کے بچوں سے خطاب کیا تھا جو ملکی سطح پر براہ راست نشر کیا گیا تھا، اس دوران بچوں کے علاوہ کسی کو سوال پوچھنے کی اجازت نہیں تھی تاہم سماجی فاصلے کو مدنظر رکھتے ہوئے بچے موجود نہیں تھے۔

ناروے کی وزیراعظم نے کہا تھا کہ زندگی معمول پر آنے میں وقت لگے گا، کتنا وقت لگے گا ہم نہیں جانتے، انہوں نے بتایا کہ میں سب سے زیادہ اپنے دوستوں سے گلے ملنا یاد کرتی ہوں۔

انہوں نے کہا تھا کہ سماجی فاصلہ برقرار رکھتے ہوئے ابھی یہ ممکن نہیں لیکن جلد دیگر چیزیں ممکن ہوں گی۔


کورونا سے متعلق معاشی اقدامات


ناروے ایک امیر ملک ہے جس کا جی ڈی پی پر کیپٹا دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور یہ اقوام متحدہ کے انسانی ترقیاتی پروگرام انڈیکس کی درجہ بندی میں پہلے نمبر ہے۔

آئی ایم ایف کے مطابق 2020 میں شرح نمو میں منفی 6.3 فیصد تک کمی کا امکان ہے جس کے باعث ایرنا سولبرگ نے کورونا وائرس سے ہونے والے معاشی اثرات میں کمی کے لیے مختلف اسکیمز اور پیکیجز متعارف کروائے۔

اس حوالے سے انہوں 13 مارچ کو معاشی تعاون کے 3 مراحل متعارف کروائے تھے جس کے تحت پہلے مرحلے میں آمدن میں کمی کے باعث کمپنیوں کو دیوالیہ ہونے اور لوگوں کو غیر ضروری طور پر ملازمت سے نکالنے سے روکنا شامل تھا اور ٹیکسز میں بھی کمی کی گئی تھی، جس کے بعد دوسرے مرحلے میں کورونا وائرس سے متاثرہ کاروبار کے لیے اسکیمز لانے اور تیسرے مرحلے کے لیے یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ اگر معاشی اثرات سے زیادہ نقصان پہنچتا ہے تو حکومت معیشت کی بحالی کےلیے سرحدی اقدامات پر غور کرے گی۔

20 مارچ کو متعارف کرائے گئے اقدامات میں ایوی ایشن چارجز اور دیگر ٹیکسز کو عارضی طور پر معطل کیا گیا تھا، خسارے کا سامنا کرنے والے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کے لیے بینک سے قرضہ لینے کی اسٹیٹ گارنٹی اسکیم متعارف کروائی گئی تھی جس کے لیے 50 ارب نارویجین کرونر مختص کیے گئے تھے۔

ناروے کی وزیراعظم نے گورنمنٹ بانڈ فنڈ کو دوبارہ بحال کیا تھا اور اس کے لیے 50 ارب نارویجین کرونر مختص کیے گئے اور 6 ارب کی ایوی ایشن گارنٹی اسکیم بھی متعارف کروائی تھی۔ بعدازاں عارضی طور پر ملازمت سے نکالنے کے لیے ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کے دنوں کو 15 سے کم کرکے 2 روز تک محدود کردیا گیا تھا، دیکھ بھال سے متعلق چھٹیاں کم کرکے 10 سے 3 دن اور کورونا وائرس سے متعلق سک لیوز کم کرکے 16 سے 3 کردی گئیں۔

ناروے قرض اسکیم کو ایک ارب 60 کروڑ تک بڑھادیا گیا اور کاروبار سے متعلق تحقیق و ترقی کو 25 کروڑ تک بڑھایا گیا تھا جبکہ عارضی طور پر ملازمت سے نکالے گئے افراد کو 100 فیصد معاوضے کی ضمانت دی گئی تھی۔

جس کے بعد اپریل میں مزید معاشی اقدامات میں توسیع دی گئی اور آمدن سے محروم ہونے والے طلبہ کی مدد کے لیے ایک ارب نارویجین کرونر کے پیکیج کا اعلان کیا گیا، اپرینٹیسز (apprentices) کے لیے عارضی طور پر 25 کروڑ نارویجین کرونر اور ہنرمندی سے متعلق اقدامات کے لیے 19 کروڑ کی اسکیمز متعارف کروائی گئیں، اس کے ساتھ ہی ٹیکس چھوٹ میں اضافہ کیا گیا۔

بعدازاں مئی میں مزید معاشی اقدامات کی تجویز دی گئی تھی اور جون میں کاروبار سے متعلق قرض اور ضمانتی اسکیمز، انفرا اسٹرکچر کے شعبے کے لیے اسکیمز، خسارے کے باعث معاوضے سے متعلق 13 ارب نارویجین کرونر کی اسکیمز متعارف کروائی گئیں۔


وزیراعظم ایرنا سولبرگ


ناروے، براعظم یورپ کے شمال میں واقع ایک نورڈک ملک ہے جو اسکینڈینیوین پینیسولا کے مغربی اور شمال حصے پر مشتمل ہے۔

خیال رہے کہ نارویجینز دنیا کے صحت مند ترین افراد میں سے ہیں اور وہ اپنی جی ڈی پی کا 10 فیصد حصہ صحت پر خرچ کرتے ہیں جبکہ عوام کی صحت پر 85 فیصد سرکاری ذرائع خرچ کیے جاتے ہیں۔

ایرنا سولبرگ ناروے کی موجودہ وزیراعظم ہیں، وہ 2013 میں اس عہدے پر منتخب ہوئی تھیں اور 2017 میں دوبارہ وزیراعظم بننے والے دوسری خاتون تھیں۔

وہ بیرجین میں پیدا ہوئی تھیں اور یونیورسٹی آف بیرجین سے عمرانیات، سیاسیات، معیشت اور شماریات میں ماسٹرز کے مساوی ڈگری حاصل کی تھی۔

وہ 1979 سے 1983 تک برجین سٹی کونسل کی ڈپٹی رکن اور 1987 سے 1989 تک ایگزیکٹو کمیٹی کی رکن رہیں بعد ازاں ہورڈالینڈ سے 1989 میں پہلی مرتبہ منتخب ہوئیں اور پھر 5 مرتبہ منتخب ہوئیں، وہ 1994 سے 1998 تک نینشنل کنزرویٹو ویمن ایسوسی ایشن کی لیڈر بھی رہیں۔

ایرنا سولبرگ 2001 سے 2005 تک بلدیاتی حکومت کی وزیر بھی رہیں اور 2016 سے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ایڈووکیسی گروپ برائے پائیدار ترقی کے مقاصد کی مشترکہ سربراہی بھی کی ہے، جس میں وہ سب کے لیے خصوصاً تنازع کا شکار علاقوں میں لڑکیوں اور بچوں کو معیاری تعلیم کی رسائی میں دلچسپی لیتی ہیں۔

انہوں نے صنفی مساوات کی مثال قائم کرتے ہوئے اپنی کابینہ میں 50 فیصد خواتین کو شامل کیا ہے، وہ بلدیاتی وزیر کے عہدے کے دوران سیاسی پناہ اور علاقائی ترقی سے متعلق سخت مؤقف کے باعث 'آئرن ایرنا' کے نام سے بھی جانی جاتی ہیں۔

یہاں یہ بات مدنظر رہے کورونا وائرس کا کامیابی سے مقابلہ کرنے کے لیے جن ممالک نے فیصلہ کن اقدامات کیے ان کی قیادت میں خواتین شامل تھیں اور یکم جنوری 2020 تک دنیا کے 152 منتخب سربراہانِ مملکت میں سے صرف 10 خواتین تھیں۔

عالمی قیادت میں خواتین کی کم نمائندگی کے حوالے سے یو این ویمن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر فومزائل ملامبو نے کہا تھا کہ ہم نے ایک ایسی دنیا بنائی ہے جہاں خواتین، فیصلے کرنے میں اور زندگیوں سے متعلق اقدمات کرنے میں صرف 25 فیصد حصے کی حامل ہیں جبکہ یہ ایک چوتھائی حصہ ناکافی ہے۔

عالمی وبا کے خلاف یہ خواتین سربراہان کیسے کامیاب ہوئیں انڈیانا میں اینڈرسن یونیورسٹی میں نیشنل سیکیورٹی اینڈ پولیٹیکل سائنس کی اسسٹنٹ پروفیسر ایبیگیل پوسٹ نے کہا کہ خواتین رہنما کی جانب سے ماہرین کی رائے لینے اور بحران کے دوران ہمدردی کے ساتھ کام کرنے کا امکان زیادہ ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ قیادت کی ایک بہت منفرد چیز ہے کہ ہم ایک مرد کے بجائے خاتون رہنما کی جانب سے زیادہ اقدام دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ آپ کو حیران کرسکتا ہے کہ خواتین قیادت ممالک میں وبا کے کیسز اور ہلاکتوں کی شرح کیا ہے۔

خواتین سربراہانِ مملکت کے اقدامات مؤثر ہونے میں عوام کا رویہ بھی شامل ہے، انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کے ردعمل سے نمٹنے والی خواتین کے اقدامات میں عوام نے تعاون بھی کیا ہے۔

تاہم اس حوالے سے تحقیق میں مؤثر قیادت میں صنفی تفریق سامنے نہیں آئی لیکن یہ عندیہ ضرور ملتا ہے کہ اکثر اوقات مردوں اور خواتین کی قیادت کا انداز مختلف ہوتا ہے اور موجودہ بحران نے انداز کے اس فرق کو مزید نمایاں کردیا ہے۔

نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی میں سائیکولوجی کی پروفیسر ایلس ایگلی نے قیادت کے انداز میں جنسی اختلافات پر تحقیق کی اور اس حوالے سے ایک تجزیہ بھی پیش کیا۔

ان کے مطابق قیادت کے انداز میں سب سے بڑا جنسی فرق یہ پایا گیا کہ خواتین کا رجحان زیادہ تر بڑھ چڑھ کر حصہ لینے اور ریلیشنل لیڈر شپ کی جانب ہوتا ہے جبکہ مردوں کا رجحان خود مختار قیادت کی طرف ہوتا ہے۔

ایلس ایگلی نے کہا کہ وہ رہنما جو زیادہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں وہ باہمی تعاون سے زیادہ مل کر کام کرتے ہیں اور فیصلہ سازی میں اپنے ماتحت افراد اور باہر کے افراد کو شامل کرتے ہیں، ان کا ماننا ہے موجودہ بحران میں یہ انداز زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہوگا۔

دوسری جانب نیویارک یونیورسٹی میں عمرانیات کی پروفیسر کیتھلین گیرسن نے کہا کہ خواتین رہنما زیادہ تر ان سیاسی کلچرز میں منتخب ہوتی ہیں جہاں حکومت پر اعتماد ہوتا ہے اور وہاں مرد اور عورت کے درمیان زیادہ تفریق نہیں پائی جاتی، جس سے خواتین کو ایک موقع ملتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مردوں سے بطور لیڈر ایک مخصوص رویہ رکھنے کی توقع کی جاتی ہے جبکہ بہترین رہنما مضبوط اور فیصلہ کن، احساسات کو ظاہر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لہذا خواتین شاید یہ ظاہر کرکے آگے بڑھ سکتی ہیں کہ مضبوط اور فیصلہ کن ہونا، مسابقتی یا تضاد پر مبنی صفات نہیں بلکہ اچھی قیادت کے لیے ضروری ہیں۔