سپریم کورٹ: فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ 196 مجرمان کی رہائی کا حکم معطل
سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے 196 مجرمان کی رہائی کے پشاور ہائیکورٹ کے حکم کو معطل کردیا۔
عدالت عظمیٰ میں جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے 196 مجرمان کی رہائی کے فیصلے کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔
دوران سماعت بینچ کے رکن جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ فوجی عدالتوں سے ٹرائل کے بعد مجرمان کو سزا ہوئی تو ہر کیس کے اپنے شواہد اور حقائق ہوں گے۔
ساتھ ہی انہوں نے سوال کیا کہ کیا مجرمان رہائی کے فیصلے کے بعد جیلوں میں ہیں، جس پر عدالت میں موجود ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مجرمان جیلوں میں ہیں۔
مزید پڑھیں: پشاور ہائیکورٹ کو فوجی عدالتوں کے سزا یافتہ افراد کے کیسز میں حکم دینے سے روک دیا گیا
انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ ان مجرمان کی رہائی کے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو معطل کیا جائے، جس پر عدالت نے مجرمان کی رہائی کا حکم معطل کرتے ہوئے تمام فریقین کو نوٹس جاری کردیا۔
مزید یہ کہ عدالت عظمیٰ نے وفاقی حکومت سے مجرمان کے مقدمات کی تفصیلات بھی طلب کرلیں، اب اس کیس کی سماعت جمعہ کو ہوگی۔
خیال رہے کہ 16 جون کو پشاور ہائی کورٹ نے فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ 196 مجرمان کی سزائیں کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ وقار احمد سیٹھ اور جسٹس نعیم انور کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف 300 سے زائد درخواستوں پر سماعت کی تھی، جس کے بعد عدالت نے ان سزاؤں کو کالعدم قرار دے دیا تھا جن سے متعلق ریکارڈز عدالت میں پیش کیے گئے تھے۔
بعد ازاں مختصر فیصلے میں عدالتی بینچ نے 196 مجرمان کی رہائی کا حکم دیا تھا اور وفاقی حکومت کو جواب جمع کرانے اور دیگر 104 مجرمان کے ریکارڈز پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔
عدالتی فیصلے کے بعد وکلا نے ڈان نیوز کو بتایا تھا کہ عدالت نے فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ قیدیوں کے 300 سے زائد کیسز کی سماعت کی جس میں سزائے موت، عمر قید اور 10 برس قید کی سزائیں شامل تھیں۔
انہوں نے بتایا تھا کہ عدالت نے 200 کے قریب اپیلوں کو منظور کیا اور سزاؤں کو معطل کرتے ہوئے انہیں فوری طور پر جیل سے رہا کرنے کا حکم دیا۔
واضح رہے کہ عدالت نے قیدیوں کی غیرقانونی گرفتاری، 5 سے 10 سال کی طویل غیرقانونی حراست کے بعد اعترافی بیانات کی ریکارڈنگ، اعتراف جرم کے بعد گرفتاری، فوجی عدالتوں کے دائرہ اختیار کی عدم موجودگی، غیرمنصفانہ ٹرائل، قانون کی بدنامی، شواہد کی عدم موجودگی، آئینی اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اور آئین کے آرٹیکلز 4، 8، 10، 10 اے، 12، 13 اور 25 کی خلاف ورزی کی بنیاد پر رہائی کا فیصلہ کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: پشاور ہائیکورٹ کا فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ 196 مجرمان کو رہا کرنے کا حکم
عدالتی بینچ نے کہا تھا کہ اس سے قبل فوجی عدالتوں کے مقدمات میں پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کلبھوشن یادیو کیس میں عالمی عدالت انصاف کی جانب سے تسلیم کیا گیا تھا جسے وہاں پیش کیا گیا تھا اور ریاست پاکستان نے اس فیصلے پر انحصار بھی کیا تھا۔
واضح رہے کہ 21 ویں آئینی ترمیم کے تحت قائم ہونے والی فوجی عدالتوں سے اب تک دہشت گردی میں ملوث کئی مجرموں کو سزائے موت سنائی جاچکی ہے، جن میں سے کئی افراد کو آرمی چیف کی جانب سے دی گئی توثیق کے بعد تختہ دار پر لٹکایا بھی جاچکا ہے۔
جنوری 2015 میں پارلیمنٹ نے 21 ویں آئینی ترمیم منظور کرکے فوجی عدالتوں کے دائرہ اختیار میں توسیع کرتے ہوئے دہشت گردوں کی فوجی عدالتوں میں سماعت کی منظوری دی تھی جبکہ پہلے فوجی عدالتوں کو صرف فوجی اہلکاروں کے جرائم کی پاکستان آرمی ایکٹ (پی اے اے) 1952 کے تحت سماعت کا اختیار تھا۔