عالمی اور ملکی شوبز میں اقربا پروری: ایک طائرانہ جائزہ
ان دنوں سوشل میڈیا پر ایک انگریزی اصطلاح ’نیپوٹزم‘ نے ہنگامہ برپا کر رکھا ہے۔ اردو زبان میں اس سے مراد 'اقربا پروری' ہے۔ گزشتہ دنوں ایک جواں سال بھارتی اداکار سشانت سنگھ راجپوت کی موت کے بعد ردِعمل کے طور پر یہ اصطلاح سوشل میڈیا پر بہت برتی گئی اور مباحث کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔
اکثریت کا خیال ہے کہ اس اداکار نے خودکشی نہیں کی بلکہ اسے مارا گیا ہے کیونکہ وہ بولی وڈ میں اقربا پروری کی قوتوں کے خلاف متحرک تھا۔
یہ اصطلاح 'نیپوٹزم' یا 'اقربا پروری' کیا ہے؟ آئیے اس کے پس منظر اور استعمال کو تاریخی حوالوں سے عالمی اور ملکی شوبز کی صنعت کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ بھی دیکھتے ہیں کہ پاکستانی شوبز میں اس اصطلاح کے اثرات کتنے گہرے ہیں؟
انگریزی زبان میں 'نیپوٹزم' کی تشریح کیمرج یونیورسٹی کی لغت کے مطابق کچھ یوں ہے کہ 'کوئی ایسی حرکت یا سرگرمی، جس میں اپنی طاقت کا ناجائز استعمال یا خاندانی اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے کوئی فائدہ حاصل کیا جائے'۔ اردو زبان میں اقربا پروری سے مراد ’اپنوں کو نوازنا ہے‘ یا ’ایسے افراد کو فائدہ پہنچانا جن سے آپ کا کسی بھی طرح سے کوئی تعلق ہو‘۔
فائدہ پہنچانا کوئی منفی سرگرمی نہیں لیکن ہاں ایسے فرد کو فائدہ پہنچانا جو اس فائدے یا کام کا اہل نہ ہو، یہ ضرور منفی عمل ہوگا یا پھر حق دار کو وہ حق دینے کے بجائے کسی کو نواز دیا جائے۔ اقربا پروری کا یہ رجحان پوری دنیا میں ہر شعبے میں اپنی اپنی مقامی شکل میں قائم ہے اور ظاہر ہوتا رہتا ہے۔
انسانی تاریخ میں جب علم و دانش کا سفر شروع ہوا تو اقربا پروری کے رجحانات نے بھی ساتھ ساتھ پرورش پائی۔ زمانہ قدیم سے موجودہ دور تک سب علما نے اس سرگرمی پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا، وہ چاہے ارسطو اور افلاطون تھے یا پھر آج کے حقیقی دانشور، سب اپنے اپنے حصے کی آواز بلند کرتے ہیں۔
نیپوٹزم کی اصطلاح اطالوی زبان سے مستعار لی گئی۔ نیپوز سے مراد نواسہ ہے یا وہ رشتہ جس سے خون کا تعلق ہے۔ 17ویں صدی کے یورپ میں کچھ عیسائی علما نے مذہبی تناظر میں عزیز و اقارب کو نوازا تو یہاں سے یہ اصطلاح متعارف ہوئی۔
اس کے بعد ایک ایک کرکے اقربا پروری کا رجحان دیگر شعبہ ہائے زندگی میں بھی پنپ گیا، اور اب ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی بھی اس سے مبرا نہیں ہے۔ اکثریت اس رجحان کے فروغ میں مبتلا ہے، بالخصوص جہاں بھی جاگیردارانہ سوچ اور محدود فکر کا وجود ہوگا وہاں اقربا پروری بھی ہوگی، اب وہ کوئی بھی زندگی کا شعبہ ہو، ہم یہاں مثال کے طور پر شوبز کے تناظر میں اس اصطلاح کے پھیلاؤ کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔
ہولی وڈ میں انفرادی طور پر ہی نہیں بلکہ اجتماعی حیثیت میں بھی ہمیں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں جن سے اقربا پروری کو سمجھا جا سکتا ہے۔ امریکی فلمی صنعت میں کئی خاندان ایسے ہیں جن کی اپنی مخصوص شناخت ہے اور وہ دہائیوں سے شوبز کے کام سے وابستہ ہیں اور اپنا اثر و رسوخ بھی استعمال کرتے ہیں، انہی میں سے ہی ایک 'کوپولا خاندان' ہے۔
اس خاندان سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر افراد کا آبائی تعلق اٹلی سے ہے جو کئی دہائیوں سے اب امریکا میں ہجرت کرکے آباد ہوگئے ہیں۔ ان میں سے اکثریت شوبز انڈسٹری سے تعلق رکھتی ہے، جن میں چند ایک جنہیں بہت شہرت ملی، ان میں صوفیہ کوپولا، نیکلس کیج، جیسن شیوارتزمن، فرانسز فورڈ کوپولا شامل ہیں۔ انہوں نے ہولی وڈ میں اداکاری اور فلم سازی میں نام کمایا ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ ان میں نیکلس کیج جیسا شاندار اداکار بھی شامل ہے مگر ابتدا میں سب کو کام خاندانی اثر و رسوخ کی بنیاد پر ملتا ہے اور پھر جس نے اپنے ہنر کو ثابت کردیا وہ آگے بڑھ گیا۔ بولی وڈ میں کپور خاندان اس کی ایک کھلی اور واضح مثال ہے۔
اسی طرح ہولی وڈ میں چند ایک اور بڑے نام جنہوں آگے جاکر ضرور اپنے فن کا لوہا منوایا مگر ابتدا اسی اثر و رسوخ کی بنیاد پر کی، ان میں کرسٹین اسٹیورٹ، ڈینیل ریڈ کلف، کائرہ نائٹلی اور دیگر شامل ہیں۔
کرسٹین اسٹیورٹ کے والد فلم ساز تھے، آج ڈینیل ریڈ کلف ایک مشہور فلمی ستارہ ہے لیکن جب انہوں نے اپنے کام کا آغاز کیا تو ان کی والدہ بی بی سی کی پروڈکشن ٹیم کا حصہ تھیں، جہاں سے ان کو آگے آنے کا موقع ملا۔ کائرہ نائٹلی ایک شاندار اداکارہ ہیں، مگر ان کی والدہ اسکرین پلے رائٹر نہ ہوتیں اور والد برطانوی اداکار نہ ہوتے تو ان کو اپنا کیریئر شروع کرنے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔ اسی طرح مائیکل جیکسن کے بہن بھائی ہوں یا 'اسمتھ خاندان' اور 'کم کرداشین' کا گھرانہ، سب کے پیچھے ایک ہی کہانی ہے۔
بولی وڈ میں کپور خاندان کے علاوہ انفرادی حیثیت میں کچھ ایسے بڑے بڑے نام بھی ہیں جنہوں نے اقربا پروری کو عملی طور پر منظم کیا۔ ان میں معروف ہدایت کار کرن جوہر، سنجے لیلا بھنسالی اور اداکار سلمان خان سمیت دیگر شامل ہیں۔
نوجوان بھارتی اداکار سشانت سنگھ کی موت کے بعد اقربا پروری کی زوردار بحث نے جنم لیا ہے جو تاحال جاری ہے۔
کپور خاندان کی نمایاں شخصیت اور معروف اداکارہ کرینہ کپور کے مطابق 'اگر اقربا پروری میں دم ہوتا تو پھر تمام فلمی ستاروں کی اولادیں مشہور فلمی ستارے بن جایا کرتیں، لیکن ایسا نہیں ہے'۔ لیکن دوسری طرف معروف اداکارہ کنگنا رناوٹ نے کھل کر ایسے لوگوں کے نام لیے ہیں، جنہوں نے بولی وڈ میں اقربا پروری کی۔
منوج باجپائی جیسے باصلاحیت بھارتی اداکار کے خیال میں وہ خود بھی کئی مرتبہ ناکام ہوئے اور خودکشی کا بھی سوچا لیکن خوش قسمتی سے اپنی کوشش جاری رکھی اور پھر کامیاب اداکار بن کر ہی دم لیا۔
عرفان خان اور نوازالدین صدیقی کی مثالیں بھی آپ کے سامنے ہیں جنہوں نے صرف اور صرف اپنی اداکاری سے خود کو منوایا۔ نصیرالدین شاہ اور اوم پوری کو بھی ہم فراموش نہیں کرسکتے کہ جنہوں نے خالص طور پر اپنے فن کے ذریعے بولی وڈ میں معتبر مقام حاصل کیا۔
بہرحال بولی وڈ میں اس رجحان کو قطعی طور پر ختم نہیں کیا جاسکتا البتہ ایک حد تک اس پر قابو پانے کی ضرورت ہے جس پر شاید اب کچھ عمل درآمد ہوجائے کیونکہ فلم بینوں میں اس پہلو سے کافی شعور بیدار ہوا ہے، وہ شاید اس طرح کے رجحانات پر اب نظر رکھیں گے۔
پاکستانی فلمی صنعت میں اقربا پروری کچھ زیادہ پنپ نہیں سکی، مثال کے طور پر 2 مقبول ترین اداکار سلطان راہی اور وحید مراد کے بیٹوں کو پاکستانی فلمی صنعت میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ انہی کے مقابلے میں شان شاہد جیسا اداکار، جس کا پس منظر بھی فلمی تھا کیونکہ وہ بھی ایک اداکارہ اور فلم ساز کے بیٹے تھے مگر انہوں نے اپنی جگہ بنانے کے لیے کام کیا اور محنت سے اپنے ہنر کا لوہا منوایا۔
کچھ دنوں پہلے پاکستانی اداکارہ عفت عمر نے بیان دیا کہ پاکستانی فنکار بولی وڈ کی اقربا پروری پر بات کر رہے ہیں تو کیا پاکستانی شوبز میں اقربا پروری نہیں؟ اس سوال کے جواب میں جانے سے پہلے اگر ہم غور سے دیکھیں تو عفت عمر خود شوبز کی ایک ایسی لابی کا حصہ ہیں جس میں شامل ہوئے بغیر ماڈلنگ، اداکاری، موسیقی اور دیگر شعبوں میں کام مل ہی نہیں سکتا، اس لابی کے تانے بانے لاہور کی ایک معروف حویلی سے جا ملتے ہیں۔
پاکستانی فلمی صنعت میں اب بھی ایسے کئی فلم ساز ہیں جو اپنے پسندیدہ اور منظورِ نظر فنکاروں کو لے کر ہی فلمیں بناتے ہیں، حتیٰ کہ ایک معروف فلم ساز نے تو اس بات کا اعتراف بھی کرلیا کہ وہ اپنی پسندیدہ فنکارہ کے لیے ویڈیوز بنائیں گے اور فلمیں بھی۔ یہ ہماری فلمی صنعت میں اقربا پروری کی بدترین مثال ہے۔ پاکستان میں شوبز کے ایوارڈ بھی اس رجحان کی ایک کریہہ شکل ہیں۔
اسی طرح ایک نجی چینل جو اپنے ڈراموں کے لیے بہت مشہور ہے اس کے اداکاروں کے ساتھ کیے گئے معاہدوں میں یہ شق شامل ہے کہ اگر کوئی اداکار ان کے چینل کے ساتھ کام کر رہا ہے تو پھر کسی اور کے ساتھ کام نہیں کرے گا۔ یہ اجتماعی سطح پر اقربا پروری کی بھیانک شکل ہے۔
گزشتہ دنوں جب پاکستان کے معروف اور سینئر اداکار فردوس جمال نے اسی نجی چینل کی ایک اداکارہ کے خلاف کچھ کہا تو اس چینل نے ان کا بائیکاٹ کردیا۔ اسی طرح مختلف سینئر اداکاروں کے بچے بطور اداکار ڈراموں اور فلموں میں کام کررہے ہیں، اکثریت کو تو اداکاری کی الف بے بھی نہیں آتی مگر ان کو کام ملتا رہتا ہے۔ ڈرامے کی صنعت میں اقربا پروری قدم جمانے میں کامیاب رہی ہے۔
پاکستانی فلموں میں تو اقربا پروری نہیں چل پائی مگر پاکستانی ڈراموں کے ساتھ ساتھ موسیقی کے شعبے میں اس رجحان کو کھل کر نمو پانے کا موقع ملا۔
ایک مشروب ساز کمپنی کے موسیقی اسٹوڈیو کے نام پر کھلے عام اقربا پروری کے مظاہرے پاکستانی شوبز کی ڈھکی چھپی منافقت کے چہرے سے پردہ ہٹاتے ہیں لیکن پاکستانی شاید ابھی اپنے ہاں کی اقربا پروری میں دلچسپی نہیں لینا چاہتے، اور ابھی سب کی توجہ پڑوسیوں کی اقربا پروری پر ہے۔ مگر پاکستانی شوبز اس رجحان کے ہاتھوں اپنی قدریں کھو رہا ہے جس پر غور کرنے اور کھل کر بولنے کی ضرورت ہے لیکن یہاں اس ثقافتی منافقت پر سے ابھی پردہ اٹھنے میں کافی وقت ہے۔
بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
ان سے ان کے ای میل ایڈریس khurram.sohail99@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔