دنیا

ٹک ٹاک نے چینی حکومت کے زیر اثر ہونے کے الزامات مسترد کردیے

یورپ، مشرق وسطی اور افریقہ کے لیے ٹِک ٹاک کے عوامی پالیسی کے سربراہ نے دعویٰ کیا کہ ڈیٹا کیلئے چین کی تمام درخواست مسترد کریں گے۔

ویڈیو شیئرنگ ایپلی کیشن ٹک ٹاک نے چینی حکومت کے زیر اثر ہونے کے الزامات مسترد کردیے۔

یورپ، مشرق وسطی اور افریقہ کے لیے ٹِک ٹاک کے عوامی پالیسی کے سربراہ تھیو برٹرام کا کہنا ہے کہ وہ چین کی جانب سے ڈیٹا کے حوالے سے کسی بھی درخواست کو مسترد کردیں گے۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے بتایا کہ 'یہ خیال کہ ہم کسی بھی طرح سے چینی حکومت کے زیر اثر ہیں، سراسر غلط ہے'۔

واضح رہے کہ امریکا میں اپنے مستقبل کے بارے میں ٹِک ٹاک واشنگٹن کے دباؤ میں ہے۔

مزید پڑھیں: امریکا: ٹک ٹاک میں بچوں کی رازداری کی خلاف ورزی کے الزامات کی تحقیقات

اس ایپلی کیشن بنانے والی کمپنی بائٹ ڈانس کے مالک جو ویسے تو کیمین جزائر سے تعلق رکھتے ہیں تاہم بیجنگ میں مقیم ہیں، انہوں نے برطانیہ کی حکومت سے لندن میں ہیڈ کوارٹر قائم کرنے کے بارے میں بات چیت کی ہے۔

تاہم امریکا ٹک ٹاک پر پابندی عائد کرنے پر غور کر رہا ہے اور اس نے فیصلہ کیا ہے کہ کمپنی چین سے الگ ہوجاتی ہے اور امریکی کمپنی بن جاتی ہے تب ہی اسے چلانے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔

برطانیہ میں ترقی کے لیے 'پرعزم'

ادھر امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو، جو رواں ہفتے برطانیہ کا دورہ کررہے ہیں، انہوں نے الزام لگایا ہے کہ امریکا میں ٹِک ٹاک کے صارفین کو 'چینی کمیونسٹ پارٹی کے ہاتھوں' ان کا ڈیٹا ملنے کا خطرہ ہے۔

تھیو برٹرام نے بی بی سی کے پروگرام میں بتایا کہ ٹِک ٹاک نے اپنے بین الاقوامی ہیڈ کوارٹر کو کہاں رکھنا ہے اس کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا، تاہم انہوں نے کہا کہ 'ہم برطانیہ میں مزید ترقی کے لیے پرعزم ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ اگر چینی حکومت کی طرف سے ٹِک ٹاک کے حوالے سے رجوع کیا گیا تو 'ہم ڈیٹا کے لیے کسی بھی درخواست کا یقینی طور پر انکار کریں گے'۔

محکمہ برائے بین الاقوامی تجارت کے ترجمان نے کہا کہ 'بائٹ ڈانس کا ان کے عالمی ہیڈ کوارٹر کے بارے میں فیصلہ کمپنی کے لیے ایک تجارتی فیصلہ ہے'۔

علاوہ ازیں تھیو برٹرام نے ان الزامات کی بھی تردید کی کہ ٹک ٹاک ایپ بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کے لیے نرم مزاج ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ٹک ٹاک پر پابندی کیلئے عدالت میں درخواست دائر

واضح رہے کہ ڈیلی ٹیلی گراف اخبار نے بتایا تھا کہ اس نے دستاویزات کو دیکھا ہے جس کے مطابق مستقل پابندی عائد کرنے سے قبل بچوں کو جنسی پیغام رسانی کرنے والے صارفین کو تین مرتبہ جرم کا مرتکب ہونا پڑتا ہے۔

تھیو برٹرام نے کہا کہ ٹِک ٹاک نے ایک سال سے زیادہ پہلے ہی اپنی پالیسی میں تبدیلی کی تھی اور اس طرح کے اقدام کو ناقابل برداشت قرار دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس قسم کی کسی بھی پوسٹ کو ختم کر دیا جائے گا اور ملزم کو اطلاع دی جائے گی۔

تاہم تازہ ترین پیشرفت اس وقت سامنے آئی جب حکومت کی جانب سے 2027 تک برطانیہ کے موبائل نیٹ ورکس سے ہواوے کے 5 جی سامان کو ہٹانے کے حالیہ فیصلے پر برطانیہ اور چین کے مابین کشیدگی بڑھ رہی ہے۔

خدشات ہیں کہ اس سے دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی جنگ شروع ہوسکتی ہے۔

برطانیہ میں چینی سفیر لیو ژاؤمنگ نے اینڈریو مار شو کو بتایا کہ 'ہم اب بھی اس کے نتائج کا جائزہ لے رہے ہیں، یہ بہت برا فیصلہ ہے'۔

خیال رہے کہ ٹِک ٹاک کے یورپ میں تقریباً ایک ہزار ملازم ہیں، جن میں اکثریت برطانیہ اور آئرلینڈ میں مقیم ہے۔

سنڈے ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں ٹک ٹاک کے ہیڈ کوارٹر بنانے کے فیصلے سے ملک میں 3 ہزار ملازمتیں پیدا ہونے کا امکان ہے۔

خیال رہے کہ چینی ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم دنیا بھر میں بہت مقبول ہے اور اس ایپ کو دو ارب سے زائد بار ڈاؤن لوڈ کیا جاچکا ہے۔

بھارت نے پہلے ہی ٹک ٹاک سمیت دیگر چینی ایپلی کیشنز پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔

آسٹریلیا، جس نے پہلے ہی ہواوے اور ٹیلی کام اشیا بنانے والی کمپنی زیڈ ٹی ای پر پابندی عائد کر رکھی ہے، وہ بھی ٹک ٹاک پر پابندی عائد کرنے پر غور کررہا ہے۔

آیا صوفیہ کے مسجد بننے کے بعد ترک صدر کا پہلا دورہ

بھارت: 3 بنگلہ دیشیوں کا قتل، نیپالی باشندے کا سر مونڈ دیا گیا

جونی ڈیپ نے قتل و دوسروں سے ’ریپ‘ کروانے کی دھمکیاں دیں، امبر ہرڈ