ہمارے بچپن میں بس ایک ہی ٹی وی چینل ہوا کرتا تھا یعنی پی ٹی وی، جس پر سگریٹ کے اشتہارات کی بھرمار ہوا کرتی تھی۔ اس کے علاوہ اخبارات اور جرائد میں بھی سگریٹ کمپنیوں کے درمیان خوب مقابلہ رہتا تھا اور صفحات اشتہارات سے بھرے ہوتے تھے۔
حیرت کی بات یہ بھی تھی کہ جس سگریٹ کے استعمال سے صحت خراب ہوتی ہے، کھلاڑی کا اسٹیمنا ختم ہوجاتا ہے اور سانس پھولنے کا معاملہ درپیش ہوجاتا ہے، وہی سگریٹ بنانے والی کمپنیاں ملک میں کھیلوں کی بڑی سرگرمیوں کو اسپانسر بھی کیا کرتی تھیں۔ پھر معاملہ صرف بین الاقوامی کرکٹ تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ کثیرالملکی کھیلوں سے لے کر گلی محلے کی سطح کے ایونٹس بھی اسپانسر کیے جاتے تھے۔ یہ اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب ایک فٹبال ٹورنامنٹ کھیلنے گئے تو ہر طرف سگریٹ کے مخصوص برانڈ کے بینرز لگے پائے۔
سگریٹ کے اشتہار بھی عجیب ہوتے تھے۔ کہیں دیکھایا جاتا کہ سگریٹ پینے والے نوجوانوں کو خواتین پسند کرتی ہیں اور جو نوجوان سگریٹ نہیں پیتے وہ پُرکشش نہیں ہوتے تو کہیں دیکھایا جاتا ہے کہ سگریٹ پی کر مشکل سے مشکل کام کو آسانی سے کیا جاسکتا ہے۔
ایک اشتہار نے تو حد ہی کردی کیونکہ اس میں دیکھا گیا کہ سگریٹ پینے والا فرد شیر کا شکار کرلیتا ہے۔ اس پر ایک لطیفہ بھی مشہور ہوگیا کہ اس اشتہار کو دیکھ ایک من چلا سگریٹ پی کر شیر کے شکار کو گیا مگر شیر نے الٹی اس کی درگت بنادی اور اس نے مشکل سے درخت پر چڑھ کر جان بچائی۔ جب گاؤں والوں نے اس من چلے کو درخت سے اتار کر دیکھا تو اس کے جسم پر شیر کے پنجے اور دانتوں کے گہرے زخم تھے۔ حیرانی میں سب نے اس نوجوان سے پوچھا کہ کیا ہوا؟ تو اس نے جواب دیا کہ میں تو ایک سگریٹ پی کر گیا تھا مگر لگتا ہے شیر نے سگریٹ کی پوری ڈبی پی ہوئی تھی۔
جیسا کہ میں نے بتایا کہ بعض لوگ تمباکو نوشی کو شان تصور کرتے ہیں حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے اور یہ صرف پیسہ، وقت اور صحت کو ضائع کرنے کے مترادف ہے۔
تمباکو نوشی کے عادی ایک دوست نے مجھ سے پوچھا کہ آپ سگریٹ کیوں نہیں پیتے؟ تو میں نے جواب دیا کہ میں دہری بچت کرتا ہوں۔ ایک تو سگریٹ پر خرچ ہونے والی رقم بچاتا ہوں اور دوسرا اس کے ذریعے ہونے والی بیماریوں سے خود کو محفوظ رکھ کر ہسپتال اور ادویات کا خرچہ بچاتا ہوں۔
تمباکو نوشی کے مضر اثرات
پاکستان میں سگریٹ کا استعمال معیشت اور صحت کے شعبے پر بوجھ بڑھانے کا سبب بنتا ہے۔
ماہرینِ طب کا دعویٰ ہے کہ تمباکو نوشی سے صحت کے نظام پر اضافی بوجھ پڑنے کے علاوہ نوجوانی کی اموات میں اضافہ ہورہا ہے۔ ان کے مطابق تمباکو نوشی سے سالانہ ایک لاکھ افراد موت کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ اموات پھیپھڑوں کے کینسر، اسٹروک، دل کی شریانوں کے تنگ ہونے، اور مختلف امراضِ قلب کی وجہ بننے کے ساتھ ساتھ سانس کی بیماریوں کی وجہ بھی بنتی ہے۔
ایک سروے کے مطابق پاکستان کی 22 کروڑ کی آبادی میں سے 19 فیصد لوگ ایسے ہیں جو 18سال کی عمر میں ہی تمباکو کا استعمال شروع کردیتے ہیں۔ مردوں میں سگریٹ نوشی 32 فیصد اور خواتین میں 5.7 فیصد تمباکو استعمال کرتی ہیں۔ مگر نوجوانی سے قبل ہی اکثر بچے تمباکو استعمال کرنے لگتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں 4 کروڑ 40 لاکھ ایسے بچے ہیں جو 13 سے 15سال کی عمر میں ہونے کے باوجود تمباکو نوشی کرتے ہیں جبکہ بچوں کی ایک بڑی تعداد الیکٹرانک سگریٹ کا استعمال بھی کررہی ہے۔ پاکستان دنیا کے ان 15ممالک میں شامل ہے جہاں تمباکو نوشی سے ہونے والی بیماریوں کی شرح بہت زیادہ ہے۔
تمباکو نوشی کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے 90ء کی دہائی میں قانون سازی کا عمل شروع کیا گیا۔ جس میں ذرائع ابلاغ میں سگریٹ کے اشتہارات پر پابندی عائد کی جانے لگی۔
اس حوالے سے عالمی ادارہ صحت نے سگریٹ کی فروخت اور تمباکو نوشی کو کم کرنے کے لیے اشتہارات پر مکمل اور جامع پابندی کے لیے رہنما اصول جاری کردیے ہیں۔ پھر جب اس عمل سے بھی سگریٹ کے استعمال میں کمی نہیں ہوئی تو سگریٹ کی فروخت پر ٹیکسوں میں اضافے کا عمل شروع کیا گیا۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی سگریٹ کے اشتہارات پر پابندی کے علاوہ ٹیکسوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔
مردان برانڈ سگریٹ
ویسے تو ملک میں بہت سے برانڈز کے سگریٹ دستیاب ہیں اور یہ تمام سگریٹ 2 بڑی کمپنیوں کے بنائے ہوئے ہیں مگر ملک کے دیہی علاقوں میں ان دونوں کمپنیوں کے علاوہ دیگر برانڈز کے سگریٹ ہر جگہ دستیاب ہیں۔
اسٹوری کی کوریج کے لیے ایک بار جب کراچی سے باہر جانے کا اتفاق ہوا تو واپسی پر حیدرآباد میں ڈرائیور نے ایک مارکیٹ میں گاڑی روک لی۔ یہ دیکھ کر انتہائی حیرت ہوئی کہ اس مارکیٹ میں بڑے پیمانے پر مختلف برانڈز کے سگریٹ اور بیڑی کی فروخت کا سلسلہ چل رہا تھا۔ ڈرائیور صاحب چند منٹ بعد وارد ہوئے تو ان کے ہاتھ میں سگریٹ کا اچھا خاصہ اسٹاک موجود تھا۔
ان سے کہا کہ یہ تو کراچی سے بھی خریدے جاسکتے تھے تو انکشاف ہوا کہ کراچی میں یہ سگریٹ نہیں ملتے ہیں۔ کراچی میں اگر کسی سگریٹ کا پیکٹ 100روپے کا ہے تو وہی 20 سگریٹ کا پیکٹ یہاں 30 روپے میں مل جاتا ہے۔ یہ بغیر برانڈ کے سگریٹ حرفِ عام میں مردان برانڈ کہلاتے ہیں جنہیں چھوٹی چھوٹی غیر رجسٹر فیکٹریوں میں خیبرپختونخوا کے شہر مردان میں تیار کیا جاتا تھا۔ مگر اب یہ فیکٹریاں آزاد کشمیر اور ملک کے دیگر حصوں تک پھیل گئی ہیں۔