والدین کا 'معیاری وقت'بچوں کی بہتر تربیت و نشوونما کی ضمانت
'آخر والدین کیا کریں؟ ہم تو تھک جاتے ہیں بچوں کا خیال رکھ رکھ کر،' ایک یونیورسٹی کی خاتون پروفیسر نے جذباتی تبصرہ کرتے ہوئے کہا، خاتون نے یہ جملہ اس وقت کہا جب ان کے سامنے کہا گیا کہ بچوں کو ٹھیک کرنے کے لیے ضروری ہے کہ والدین خود کو ٹھیک کر لیں۔
اس کا بات کا انہوں نے کافی برا منایا جیسے کہہ رہی ہوں ' اس کا مطلب یہ ہے کہ والدین یعنی ہم خراب ہیں!؟'
مسئلہ خراب یا ٹھیک ہونے کا نہیں بلکہ بچوں کی اہم ضروریات کو جاننے، انہیں پورا کرنے اور خود کو ایک قابل تقلید نمونہ (Role Model) بنانے کا ہے۔
جیسے بڑوں کو اپنی زندگی میں صرف کھانا پینا، کپڑے یا ٹی وی، موبائل وغیرہ نہیں چاہیے ہوتے ہیں بلکہ جذباتی، ذہنی اور روحانی تسکین کی ضرورت بھی ہوتی ہے، ویسے ہی بچوں کو بھی صرف آپ سے کپڑے، کھانے پینے کی اشیا یا ٹی وی، کارٹون وغیرہ نہیں چاہیے بلکہ انہیں آپ کے جذباتی، ذہنی اور روحانی سہارے کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔
اور بچوں کو درکار سہاروں کو جاننے اور پورا کرنے کے لیے سب سے اہم شرط 'والدین کا معیاری وقت' ہے۔
معیاری وقت سے کیا مراد ہے؟
اکثر والدین شکایت کرتے ہیں کہ وہ بچوں کے ساتھ کافی وقت گزارتے ہیں لیکن بچے ہیں کہ کبھی خوش ہی نہیں ہوتے، اصل میں ہمارے ذہن میں 'معیاری وقت ' کا تصور محض مزیدار طریقے سے گزارے گئے لمحات ہی ہیں، اس کے برعکس برطانوی میڈیکل جرنل اور ٹورنٹو یونیورسٹی کی الگ الگ تحقیقات بتاتی ہیں کہ 'مزیدار لمحات' والدین اور بچوں کے تعلق میں کچھ خاص بہتری نہیں لاتے ۔
یہ بھی پڑھیں: خود اعتمادی کیا ہے اور یہ بچوں میں کیسے پیدا کی جائے؟
ضروری ہے کہ والدین 'معیاری وقت' کے تصور کو ٹھیک طریقے سے سمجھیں، تو پھر سوال اٹھتا ہے کہ اس ٹھیک طریقے کے معیاری وقت سے کیا مراد ہے؟