نقطہ نظر

چاہ بہار ریلوے منصوبے سے بھارت کا انخلا: پاکستان کے لیے امکانات اور خدشات!

چین کو سی پیک اور گوادر بندرگاہ سے جو فوائد مل سکتے تھے ایران کی اسٹریٹجک لوکیشن اسے تمام تر فوائد مہیا کرتی ہے۔

’چین نے بھارت کو چاہ بہار زاہدان ریل منصوبے سے نکال باہر کیا ہے‘۔

چین بھارت سرحدی تصادم کے بعد تہران بیجنگ اسٹریٹجک معاہدے کی روشنی میں اس خبر کو نمایاں اہمیت ملی ہے۔ اس خبر سے فوری طور پر ایک تاثر لیا گیا کہ بھارت چاہ بہار بندرگاہ منصوبے سے باہر ہوگیا ہے۔

اب تک کی صورتحال میں یہ تاثر درست نہیں کیونکہ دی ہندو میں ریل منصوبے سے باہر کیے جانے کی خبر شائع ہونے کے دوسرے دن ایران کی خبر ایجنسی مہر نے خبر دی کہ ایران کے راستے افغانستان کی تیسری ٹرانزٹ کنسائنمنٹ چاہ بہار بندرگاہ سے بھارت کی مندرہ اور جواہر لال نہرو پورٹس کے لیے روانہ کردی گئی ہے۔

مہر نیوز ایجنسی کی خبر سے یہ واضح ہوگیا کہ اب تک چاہ بہار بندرگاہ سے بھارت مکمل باہر نہیں ہوا۔ بھارت نے 2014ء میں چاہ بہار پر کام شروع کیا اور بندرگاہ کی تعمیر کے لیے 8 کروڑ 50 لاکھ ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی۔ دسمبر 2018ء میں بھارت نے چاہ بہار بندرگاہ کا انتظام سنبھالا۔ انڈیا پورٹس گلوبل لمیٹڈ کو 18 ماہ کی لیز ملی تھی جو بعد میں 10 سال کردی گئی۔ ریل منصوبے سے باہر کیے جانے کے بعد اب تک بندرگاہ کے کنٹرول میں تبدیلی یا اس لیز سے متعلق کوئی نئی خبر نہیں آئی۔

چاہ بہار بندرگاہ بھارت کے لیے انتہائی اہمیت رکھتی ہے، پاکستان کے ساتھ تعلقات کی خرابی کی وجہ سے بھارت کو افغانستان اور وسطی ایشیا تک رسائی میں مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ وسطی ایشیا کے ساتھ تجارت بھارت کے لیے اہم ہے اور چاہ بہار بندرگاہ کے کنٹرول کے ساتھ بھارت کو افغانستان تک براہ راست رسائی مل رہی ہے۔ چاہ بہار بندرگاہ کو افغانستان سے منسلک کرنے کے لیے کئی روڈ اور ریل منصوبے ہیں جن میں زرنج دیلارم روڈ جسے روٹ 606 کا نام بھی دیا گیا ہے وہ بھارت نے بنوائی۔ یہ سڑک قندھار ہرات شاہراہ سے جا ملتی ہے اور وسطی ایشیا تک رسائی کا ذریعہ بن جاتی ہے۔

گلف آف عمان میں ہونے کی وجہ سے چاہ بہار کی اسٹریٹجک اہمیت بھی ہے۔ یہ بندرگاہ آبنائے ہرمز کے دہانے پر ہے اور گوادر سے صرف 100 میل کی دُوری پر ہے۔ آبنائے ہرمز تیل کی سب سے بڑی گزرگاہ ہے، لیکن ایران سعودی عرب کشیدگی کے دوران بھارت نے چاہ بہار کے کنٹرول کی بنیاد پر آبنائے ہرمز میں بحری گشت بڑھا دیا تھا۔

چاہ بہار زاہدان ریل منصوبے سے بھارت کو نکال باہر کیے جانے کا محرک تہران بیجنگ اسٹریٹجک معاہدہ بتایا جاتا ہے۔ اس اقتصادی اور سیکیورٹی معاہدے کا حجم 400 ارب ڈالر بتایا جا رہا ہے لیکن اس کی تفصیل نیویارک ٹائمز سے لی گئی ہے جس کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس معاہدے کا مسودہ موجود ہے۔ ایران کی پارلیمنٹ میں ابھی تک یہ معاہدہ پیش نہیں کیا گیا اور چین نے تو اس معاہدے پر لب بھینچ رکھے ہیں۔

اس معاہدے کے تحت چین ایران میں انفرااسٹرکچر منصوبوں میں سرمایہ کاری کرے گا اور 25 سال تک ایران کا تیل خریدے گا۔ ایران میں چین کی دلچسپی کی کئی وجوہات ہیں لیکن ایک وجہ پاکستان میں سی پیک منصوبے میں سست روی بھی ہے۔

2018ء میں پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے بعد سی پیک کو کئی دھچکے لگے۔ حکومتی عہدیداروں نے پچھلی حکومت کی مخالفت میں سوچے سمجھے بغیر بیانات داغے اور سی پیک منصوبوں پر دوبارہ مذاکرات کے اعلانات کیے۔ چین بھی اس صورتحال سے پریشان ہوا اور سی پیک سے متعلق منصوبوں پر کام تعطل کا شکار ہوگیا۔

چین نے خطے میں اپنی موجودگی اور اثر برقرار رکھنے کے لیے نئے راستوں کی تلاش شروع کی اور پچھلے سال اگست کے آخر میں ایران کے وزیرِ خارجہ جواد ظریف کے دورہ بیجنگ کے موقعے پر چین نے ایران کو 400 ارب ڈالر سرمایہ کاری کی پیشکش کی۔ اب جو معاہدہ بتایا جا رہا ہے یہ جواد ظریف کے اسی دورے کا ثمر تھا۔

چین نے ایران کے تیل اور گیس کے شعبوں میں 280 ارب ڈالر اور ٹرانسپورٹ انفرااسٹرکچر میں 120 ارب ڈالر سرمایہ کاری کی پیشکش کی تھی۔ چین نے امریکا کی نئی پابندیوں کے باوجود ایرانی تیل کی درآمد جاری رکھنے کا بھی وعدہ کیا جبکہ بھارت ایرانی تیل کی خریداری سے ہٹ رہا تھا۔ اہم بات یہ کہ ایران میں چین کے منصوبوں میں چین کی کمپنیوں کا پہلا حق تسلیم کیا گیا ہے، اب اگر چین کی کمپنیاں کسی منصوبے سے خود پیچھے ہٹ جائیں تو اس کے بعد منصوبے کی کھلی بولی ہوسکتی ہے۔ مبیّنہ طور پر چین نے منصوبوں کی سیکیورٹی کے لیے 5 ہزار فوجیوں کی تعیناتی کی بات بھی منوا لی ہے۔

چین کو سی پیک اور گوادر بندرگاہ سے جو فوائد مل سکتے تھے ایران کی اسٹریٹجک لوکیشن اسے تمام تر فوائد مہیا کرتی ہے بلکہ اضافی فائدہ آبنائے ہرمز تک رسائی ہے۔ افغانستان اور وسطی ایشیا تک رسائی پاکستان کی طرح ایران سے بھی ممکن ہے۔

چین کا ایران کے ساتھ براہِ راست زمینی راستہ نہیں ہے لیکن ایران کا محل وقوع اسے زیادہ پُرکشش بناتا ہے کیونکہ اس کی وسطی ایشیا تک براہِ راست رسائی ہے اور اگر افغانستان میں امن نہیں ہوتا تب بھی وسطی ایشیا تک براہِ راست رسائی ممکن رہے گی۔

چین کی سرمایہ کاری سے ایران کی معیشت کو سہارا ملے گا، جبکہ ایران کی بندر عباس اور چاہ بہار کے ریل اور روڈ رابطے بڑھیں گے۔ ازبکستان اور قازقستان کے ذریعے ریل رابطے چین اور افغانستان کو ملاتے ہیں اور ستمبر میں 41 کارگو کنٹینرز افغانستان سے چین بھجوائے گئے۔ چین ایران کے ساتھ مال برداری کے لیے ان ریل رابطوں کو بھی استعمال میں لاسکتا ہے۔

تحریکِ انصاف کی حکومت نے سی پیک منصوبے کو تقریباً لپیٹ دیا تھا لیکن پچھلے سال 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت کی تبدیلی کے بعد پاکستان کو ایک بار پھر چین کی طرف دیکھنا پڑا۔

چین کو فوری قائل کرنا آسان نہیں اسی لیے سی پیک اتھارٹی بنائی گئی اور گوادر میں کام کرنے والی چین کی کمپنیوں کو 23 سال کی ٹیکس چھوٹ کا اعلان کرتے ہوئے سی پیک پر کام تیز کرنے کے اشارے دیے گئے۔

سی پیک اتھارٹی کے قیام اور بعد ازاں اسے خودمختاری دینے کے لیے اس قدر تیزی سے کام کیا گیا کہ پارلیمنٹ سے منظوری کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ ابھی تک سی پیک پر کام دوبارہ اس تیزی سے ہوتا نظر نہیں آ رہا جس تیزی سے پچھلی حکومت میں ہو رہا تھا۔ سی پیک پر یہ سُست روی پاکستان کو اقتصادی اور سفارتی حوالوں سے مہنگی بھی پڑسکتی ہے اور ایران خطے میں چین کے پارٹنر کی حیثیت سے پاکستان کی جگہ لے سکتا ہے۔

ایران چین اقتصادی راہداری کے باوجود پاکستان کی اہمیت کم نہیں ہوتی کیونکہ چین کی لائف لائن آبنائے ملاکا ہے۔ اگر بھارت اور امریکا مل کر کسی موقع پر آبنائے ملاکا کو چین کے لیے بند کردیں تو اسے سی پیک اور گوادر کی ضرورت پڑے گی۔ آبنائے ملاکا کے بالکل قریب بھارت کے جزائر انڈیمان نکوبار میں فوجی اڈے موجود ہیں اور لداخ میں حالیہ تصادم کے بعد بھارت نے جزائر انڈیمان نکوبار میں اضافی فورسز تعینات کرنے کے ساتھ وہاں عسکری انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانے اور توسیع کا عمل تیز کردیا ہے۔ آبنائے ملاکا میں کوئی ہنگامی صورتحال درپیش ہونے پر چین گوادر بندرگاہ اور سی پیک کو استعمال میں لاکر اپنی سپلائی لائن کھلی رکھ سکتا ہے۔

بھارتی میڈیا یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ ایران کے ساتھ اسٹریٹجک شراکت داری خلیجی ملکوں میں چین کے تعلقات پر اثر انداز ہوگی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسا نہیں ہوگا کیونکہ چین کے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ پہلے ہی ایسے معاہدے موجود ہیں اور اسٹریٹجک تعاون کے پیرامیٹرز طے کرنے کے لیے اعلیٰ سطح کی کمیٹیوں کے مذاکرات ہوتے رہتے ہیں۔ چین کے ساتھ اسٹریٹجک شراک داری کے پیرامیٹرز طے کرنے کے لیے بنائی گئی کمیٹی کے شریک چیئرمین سعودی ولی عہد محمد بن سلمان ہیں۔

ایران اور چین اسٹریٹجک معاہدے کی ہیڈلائنز جب دنیا بھر کے میڈیا میں شائع ہو رہی تھیں اسی دوران چین اور عرب ریاستوں کے تعاون کے لیے بنائے گئے فورم کا اجلاس جاری تھا۔ اس فورم کا اجلاس ہر 2 سال بعد ہوتا ہے جس میں اگلے 2 سال کے لیے تعاون کے منصوبوں پر بات ہوتی ہے۔

ایران کے ساتھ اسٹریٹجک معاہدے کے باوجود چین ایران اور عرب ریاستوں کے ساتھ تعلقات میں توازن برقرار رکھنے کی کوشش کرے گا۔ چین عشروں سے جاری عرب ملکوں کے ساتھ شراکت داری کو ایران کے لیے قربان نہیں کرے گا اور تہران بھی اس بات کو سمجھتا ہے۔ پاکستان میں بھی یہ تاثر ہے کہ ایران کے ساتھ تعاون شاید عرب دوستوں کو ناراض کردے گا، لیکن ایسا ہوتا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔

چین کی طرف سے خطے میں اہم اسٹریٹجک معاہدے بھارت کی طرف سے چلی گئی چالوں کا توڑ ہیں۔ بھارت نے بھی چین کے گھیراؤ کی ایک پالیسی وضع کر رکھی ہے اور اس پر عمل پیرا ہے۔

چین نے اگر ہمبنٹوٹا، چٹاگانگ، کولمبو اور جبوتی میں قدم جمائے ہوئے ہیں اور پاکستان اس کا اتحادی ہے تو بھارت بھی بحر ہند میں اہم اسٹریٹجک بندرگاہوں پر فوجی سہولتیں حاصل کرچکا ہے۔

بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی نے 2018ء میں سنگاپور کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس سے بھارتی بحریہ کو چانگی نیول بیس تک براہِ راست رسائی ملی اور بھارتی بحریہ اس بحری اڈے سے ری فیول اور دوبارہ مسلح ہونے کی سہولیات پاچکی ہے۔ 2018ء میں ہی بھارت نے انڈونیشیا کے ساتھ معاہدہ کیا جس کے تحت بھارت کو آبنائے ملاکا کے داخلی راستے پر واقع سبانگ پورٹ تک رسائی ملی۔ یاد رہے کہ آبنائے ملاکا چین کے درآمدی تیل کا سب سے بڑا راستہ ہے۔

2018ء میں ہی بھارت نے عمان کے ساتھ معاہدہ کرکے الدقم پورٹ تک رسائی حاصل کی۔ الدقم پورٹ چین کے جبوتی میں بحری اڈے اور گوادر پورٹ کے وسطی حصے میں ہے۔ منگولیا، جاپان اور ویتنام کے ساتھ بھی بھارت کے بحری تعاون کے معاہدے موجود ہیں۔

لیکن ان سب کوششوں کے بعد یہ بات یقینی ہے کہ بھارت چین کا اکیلے گھیراؤ کرنے کی پوزیشن میں نہیں اس لیے وہ 4 فریقی سیکیورٹی ڈائیلاگ کا بھی حصہ ہے، جس میں بھارت کے علاوہ امریکا، جاپان اور آسٹریلیا شامل ہیں۔

بھارت ایک عرصے سے اس کوشش میں ہے کہ اس 4 فریقی غیر سمی فورم کو باقاعدہ فورم کی شکل دے دی جائے۔ اس 4 فریقی فورم کے رکن آسٹریلیا نے چین کے ساتھ کورونا وائرس کے مسئلے پر تعلقات بگاڑ لیے ہیں اور اس ماہ کے آغاز میں آسٹریلوی وزیرِاعظم نے ملک کے دفاعی بجٹ میں 10 سال کے دوران 40 فیصد اضافے کا اعلان کرتے ہوئے اسے 270 ارب ڈالر تک لے جانے کا فیصلہ سنایا۔ اس اضافے کی وجہ بیان کرتے ہوئے آسٹریلیا نے انڈو پیسفک میں درپیش خطرات کا حوالہ دیتے ہوئے چین بھارت سرحدی تصادم کا بھی حوالہ دیا۔

آسٹریلوی وزیرِاعظم نے دُور مار میزائل حاصل کرنے کا بھی اعلان کیا تاکہ مستقبل کے تنازعات کا مقابلہ کیا جاسکے۔ آسٹریلوی وزیرِاعظم نے کہا کہ امریکا چین کشیدگی بھی تیزی سے بڑھی ہے۔ کورونا وائرس کی وبا نے اس صورتحال کو مزید بگاڑا ہے اور عالمی سیکیورٹی آرڈر کو انتہائی غیر مستحکم مقام پر لا کھڑا کیا ہے۔

خطے میں فوجی ماڈرنائزیشن بھی غیر معمولی شرح سے بڑھی ہے۔ دیوارِ برلن کے گرنے اور عالمی معاشی بحران کی وجہ سے آسٹریلیا کو جو سیکیورٹی ماحول میسر تھا وہ اب ختم ہوچکا ہے۔ آسٹریلوی فوجی بجٹ میں امریکی بحریہ سے طویل فاصلے تک مار کرنے والے اینٹی شپ میزائلوں کی خریداری شامل ہے، اس کے علاوہ آسٹریلیا ہائپر سونک ویپن سسٹم بنانے کا ارادہ رکھتا ہے جو ہزاروں کلومیٹر تک مار کی صلاحیت کا حامل ہوگا، اس کے ساتھ ساتھ سائبر وار فیئر کے لیے 15 ارب ڈالر رکھے گئے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نومبر کے انتخابات سے پہلے چین پر دباؤ بڑھا رہے ہیں اور آئے روز چین کے خلاف پابندیوں کے اعلانات ہو رہے ہیں۔ ہانگ کانگ کے حوالے سے دباؤ بڑھایا جا رہا ہے، تائیوان کو اسلحہ بیچا جا رہا ہے، جنوبی بحیرہ چین میں چین کی فوجی مشقوں کے دوران امریکی بحریہ کا اسٹرائیک گروپ خطے میں بھیجا گیا اور مائیک پومپیو نے پہلی بار جنوبی بحیرہ چین میں چین کی عملداری کو نہ ماننے کا پالیسی بیان بھی دیا۔ ان حالات میں دنیا ایک بار پھر 2 کیمپوں میں تقسیم ہو رہی ہے اور اس بدلتی صورتحال میں نئے اتحاد بن بھی رہے ہیں اور پرانے بکھر بھی رہے ہیں۔

آصف شاہد

دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات بالخصوص مشرق وسطیٰ ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔