متشدد شدت پسندی اور دہشتگردی کے خطرات نے اتنی گہری جڑ پکڑ لی ہے اور اس حد تک پھیل گۓ ہیں کہ یہ ہماری قومی سالمیت اور بنیادوں کے لئے ایک چیلنج بن گۓ ہیں-
اس نے ہمارے سماج کو توڑ کر رکھ دیا ہے- لوگوں کا ریاست کی ان عناصر کو چیلنج کرنے اور ان کو گرفتار کرنے کی اہلیت پر سے ایمان ختم ہو تا جا رہا ہے- داخلی سلامتی دن بدن تیزی کے ساتھ زوال پزیر ہوتی جا رہی ہے-
سوال یہ ہے کہ ملک کی داخلی سلامتی کا انچارج کون ہے؟
بہت سی ایجنسیان ذمہ دار ہیں پھر بھی کسی کے پاس اس سوال کے جواب نہیں- داخلی سلامتی کو سنبھالنے اور ہم آہنگ کرنے کے لئے ایک مرکزی اتھارٹی کی غیر موجودگی عیاں ہے۔
کیا مسلح افواج کو ملک کی خارجی اور داخلی دونوںسلامتی کا ذمہ دار ہونا چاہیے؟ انہیں جو وسائل دیے گۓ ہیں ان سے، انہوں نے روایتی اور غیر روایتی خارجی خطرات کے خلاف ایک پیشہ ورانہ ادارہ اور فصیل قائم کی ہے-
لیکن سرحد پر بغاوتوں سے نمٹنے کے علاوہ کیا وہ انسداد دہشتگردی کے لئے بھی اتنے ہی مؤثر رہے ہیں جو ریاست اور عوام کو بری طرح سے متاثر کر رہا ہے؟
فوج پہلے ہی سے خاصی مصروف ہے، جنگ زدہ علاقوں کے انتظام سنبھالنے اور تنازعات سے متاثرہ علاقوں کی سماجی و اقتصادی ترقی میں مصروف ہے- دوسری طرف مرکزی علاقوں میں اموات اور تباہی نے ریاستی کمزوری کو دوچند کر دیا ہے- اگر حالات کو بنا کسی روک تھام کے یوں ہی بگڑنے دیا گیا تو فوج کے لئے دفاع کرنے کو کچھ باقی نہیں بچے گا-
ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ کونسا ادارہ داخلی محاذ پر کارکردگی دکھانے اور اس کی سلامتی کے لئے بہتر ہے اور پوری طرح سے تیار ہے- کیا یہ مسلح افواج ہیں یا شہری قانون نافذ کرنے والے ادارے؟ کیا پولیس کے ادارے ہمیشہ سے نا اہل، بدعنوان اور سیاسی تھے اور کیا یہ اسی طرح رہیں گے؟
کیا پولیس اپنی موجودہ حالت میں دہشتگردی سے نمٹنے کے لئے پوری طرح تربیت یافتہ اور مسلح ہے؟ کیا یہ کثیر جہتی، انتہائی پیچیدہ داخلی خطرے کا سامنا کرنے کے لئے عملی طور پر خود مختار ہے؟ آخر پولیس کو سیاسی دباؤ سے نکالنے کا سیاسی ارادہ ہمیشہ نا کافی کیوں ہوتا ہے؟
ان تمام مسائل کی جڑ ہمارے اثر پذیر سیاسی کلچر میں ہے- استخراجی سیاسی ادارے ہمیشہ استخراجی سیکورٹی اداروں پر حاوی رہیں گے، سوائے ان اداروں کے ، وہ ادارے جو لوگوں سے زیادہ وابستہ ہیں، کمیونٹی کے لئے زیادہ ذمہ دار اور جواب دہ ہیں-
آرمی کی اصل طاقت جہاز یا ٹینکوں میں نہیں بلکہ میرٹ کی بنیاد پر انتخاب اور معیاری تربیت کے ساتھ فروغ کے نظام میں ہے جو اسے ایک متحد کمانڈ کے تحت موثر آپریشنل حکمت عملی وضع کرنے کے لئے قابل بناتا ہے-
کیا پولیس سروسز کو بھی ویسی ہی ادارتی خودمختاری اور وسائل نہیں دئے جانے چاہییں جو مسلح افواج کو میسر ہیں؟ کیوں نہیں؟ کیا پولیس کو سیاست میں شامل کرنا یا اس کا بدعنوان ہونا، قسمت کا لکھا سمجھا جائے؟ یا اس کے کوئی متبادل ہیں جو ریاست اور سوسائٹی مہیا کر سکتے ہیں؟
مسلح افواج اور پولیس دونوں کو اپنے اپنے میدان میں اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے- یہ کوئی ہار جیت کا کھیل نہیں ہے، دونوں ہی ریاست اور عوام کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں- ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں ہی ایک دوسرے کی حمایت اور تسلیم کریں، بجائے اس کے کہ اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر بیٹھ جائیں-
امن و امان کے قیام اور دہشتگردی سے مقابلہ کی پہلی ذمہ داری پولیس پر عائد ہوتی ہے- چناچہ اسے ضرورت ہے ادارتی خودمختاری، مناسب مالیاتی فراہمی، تربیتی ذارئع اور حوصلہ افزائی کے لئے دیگر فلاحی وظائف ہونے چاہییں-
پولیس کا انٹیلی جنس نیٹ ورک اور پولیس کے تحقیقاتی ایجنسیان جیسے، مرکز میں انٹیلی جنس بیورو اور فیڈرل انٹیلی جنس ایجنسی، صوبائی سطح پر اسپیشل برانچز، ضلعی سطح پر کریمنل انویسٹیگیشن ایجنسی اور پولیس سٹیشن اور چھوٹے قصبوں میں پولیس رضاکاروں کی از سر نو تشکیل اور وسائل کی ضرورت ہے-
ان میں سے زیادہ تر ادارے ظاہری وجوہات کی بنا پر معطل اور غیرفعال ہو گئے ہیں- یہ وہ ادارے ہیں جن کا ہاتھ عوام کی نبض پر ہے؛ ماضی میں انہوں نے اپنی کارکردگی دکھائی ہے اور یہ دوبارہ ایسا کر سکتے ہیں اگر ان میں اپنا کام کرنے کی خواہش ہو-
ایک فوجی اور ایک پولیس اہلکار پر فی کس خرچ کا عمومی اندازہ لگانے کے لئے آپ کو ان کی عددی طاقت اور بجٹ کی تفویض کا جائزہ لینا ہوگا- فوج ایک سپاہی/افسر پر سالانہ 1,140,000 روپے، جبکہ ایک پولیس اہلکار پر بمشکل 340,000 روپے خرچ کیے جاتے ہیں-
اس کا کوئی متبادل نہیں سوائے اس کے کہ پولیس کی ایک صف اول کی تنظیم کے طور پر از سر نو تعمیر کی جائے تا کہ اندرونی خدشات کا مقابلہ کیا جا سکے، ورنہ ہم صرف دائروں میں ہی چکر لگاتے رہیں گے، اور سدا کے دغا باز مجرموں، مافیا اور دہشتگردوں کے پیچھے وقت اور وسائل ضائع کرتے رہیں گے-
وزیر اعظم نواز شریف کو بے مثال موقع ملا ہے معاملات کو درست کرنے کا- اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ان میں اتنی صلاحیت اور فراست ہے کہ وہ ماضی کو بھلا کر نۓ چیلنجوں کا سامنا کر سکیں-
کیا وہ تمام صوبائی حکومتوں کو ملا کر, سرپرستی کی حامل سیاست جو صرف استخراجی، سیاسی و اقتصادی اداروں کی پرورش کرتے ہیں، میں کوئی انقلابی تبدیلی لا سکتے ہیں؟ اگر نہیں تو ہمارے پاس داخلی اداروں کی بجاۓفقط استخراجی سیکورٹی ادارے رہ جائیں گے، اور بدقسمت شہریوں کی جان و مال کی حفاظت جس آئین میں وعدہ کیا گیا ہے، ایک ادھورا خواب بن کر رہ جاۓ گی-
مصنفین سابقہ پولیس افسر اور رٹائرڈ فوجی افسر ہیں-
ترجمہ: ناہید اسرار