ووہان کی ہوازونگ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ ایسے مریض جن میں پہلے سے ذیابیطس کی تشخیص نہیں ہوئی ہوتی اور ہائی بلڈ شوگر کی سطح بہت زیادہ ہوتی ہے، ان میں کووڈ 19 سے موت اور سنگین پیچیدگیوں کا خطرہ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
اس سے قبل تحقیقی رپورٹس میں بہت زیادہ بلڈ شوگر سے نمونیا، فالج، ہارٹ اٹیک اور متعدد دیگر بیماریوں سے موت کے خطرے کے درمیان تعلق کو ثابت کیا جاچکا ہے۔
حالیہ چند ماہ کے دوران کئی تحقیقی رپورٹس میں ذیابیطس اور کووڈ 19 کے مریضوں کی خراب حالت کے تعلق کو بھی دریافت کیا جاچکا ہے۔
تاہم خاہی پیٹ بلڈ گلوکوز کی سطح اور کووڈ 19 کے مریض میں ذیابیطس کی تشخیص کے بغیر علاج کے نتیجے کے رمیان براہ راست تعلق پر زیادہ کام نہیں کیا گیا تھا۔
جریدے ڈائیبیٹولوجیا میں شائع اس نئی تحقیق ہائی بلڈ شوگر اور 28 دن میں موت کے درمیان تعلق کا جائزہ 2 ہسپتالوں میں زیرعلاج ایسے مریضوں میں لیا گیا، جن میں پہلے ذیابیطس کی تشخیص نہیں ہوئی تھی۔
تحقیق کے دوران 24 جنوری سے 10 فروری تک ووہان کے 2 ہسپتالوں میں داخل ہونے والے تمام افراد کا جائزہ 28 دن تک لیا گیا اور داخلے کے وقت ان کے بلڈ شوگر لیول کو بھی دیکھا گیا۔
ان مریضوں میں 28 دن کے نتائج کا کلینکل ڈیٹا کو دیکھا گیا جن میں ہسپتا کے اندر پیچیدگیاں اور سی بی آر 65 اسکور بھی شامل تھا۔
سی بی آر 65 نمونیا کی شدت کو جانچنے کا موثر پیمانہ ہے اور 4 چیزوں پر مبنی ہوتا ہے، الجھن کی سطح، سانس کی رفتار (30 سانسیں فی منٹ)، systolic بلڈ پریشر (90 ایم ایم ایچ جی یا اس سے کم) یا diastolic بلڈ پریشر (60 ایم ایم ایچ جی یا اس سے کم) اور عمر (65 سال یا اس سے زیادہ)۔
اس تحقیق میں 605 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن کی اوسط عمر 59 سال تھی، جن میں سے 114 ہسپتال میں چل بسے تھے۔
208 مریض پہلے سے کسی ایک یا زیادہ بیماریوں کا شکار تھے مگر ان میں ذیایبطس کی تشخیص نہیں ہوئی تھی، جبکہ ہائی بلڈ پریشر سب سے عام عارضہ تھا۔
محققین نے دریافت کیا کہ 29 فیصد مریضوں میں ہائی بلڈ شوگر کی سطح ہسپتال میں داخلے کے وقت بہت زیادہ تھی۔
17 فیصد میں ہائی بلڈ شوگر کی سطح اتنی تھی جو پری ڈائیبیٹس کی سطح پر قرار دی جاسکتی ہے۔