افراط زر کے دباؤ کی وجہ غذائی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہے، اسٹیٹ بینک
کراچی: اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی مئی کے مہینے میں مہنگائی سے متعلق جاری کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افراط زر کے دباؤ کی اہم وجہ کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہے کیونکہ مئی میں کنزیومر پرائز انڈیکس (سی پی آئی) میں اضافے میں اس طرح کی اشیا کی شراکت 52.2 فیصد تھی جبکہ 2019 کے اسی مہینے میں یہ 37.6 فیصد تھی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مرکزی بینک کی رپورٹ میں شہری اور دیہی علاقوں میں مہنگائی کے رجحانات کے بارے میں بھی تفصیلات فراہم کی گئیں اور بتایا گیا کہ دونوں میں غذائی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کا غلبہ رہا جس پر عوام کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ خرچ ہوا۔
غذائی گروپ کی اعلیٰ شراکت میں مئی کے دوران 52.2 فیصد اضافہ ہوا جو اپریل 2020 میں 48.3 فیصد تھا۔
مزید پڑھیں: ’مالی سال 2020 کے دوران پاکستان میں دنیا کی سب سے بلند افراطِ زر دیکھی گئی‘
اس کے علاوہ غیر غذائی گروپ کی شراکت میں کمی واقع ہوئی جو گزشتہ مالی سال کے اسی مہینے میں 62.4 فیصد سے 47.4 فیصد ہوگیا۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا کہنا تھا کہ 'گزشتہ سال کے اسی مہینے (مئی 2019) کے دوران غیر غذائی گروپ کی شراکت 62.4 فیصد تھی جبکہ اپریل 2020 میں سی پی آئی میں غیر غذائی گروپ کی شراکت 51.7 فیصد رہی۔
گندم اور چاول جیسی اہم غذائی اجناس کی مقامی طلب کے مطابق وافر مقدار میں پیداوار کے باوجود صارفین ان اشیا کی قیمت کبھی کبھی بین الاقوامی مارکیٹ سے بھی زیادہ ادا کررہے ہیں اور کبھی کبھی پاکستان میں گندم کی قیمتیں بین الاقوامی قیمتوں سے بھی زیادہ ہوجاتی ہیں۔
مئی کے دوران دیہی سی پی آئی کی مجموعی افراط زر میں غذائی اشیا کے گروپ کی شراکت گزشتہ سال کے اسی مہینے میں 52.4 فیصد کے مقابلے میں بڑھ کر 63.8 فیصد ہوگئی ہے جبکہ اپریل میں یہ 58.8 فیصد تھی۔
یہ بھی پڑھیں: فروری میں افراط زر کی شرح میں 2 فیصد سے بھی زیادہ کمی آئی، وزیر اعظم
اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق مئی میں غیر غذائی گروپ کی شراکت کم ہوکر 36.2 فیصد ہوگئی جو گزشتہ مہینے میں 41.2 فیصد تھی جبکہ گزشتہ سال کے اسی مہینے کے دوران اس کا حصہ 47.6 فیصد تھا۔
مارچ میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد حکومت نے وائرس پر قابو پانے کے لیے شٹ ڈاؤن کا انتخاب کیا تھا۔
یہ شٹ ڈاؤن بڑے پیمانے پر بے روزگاری کا باعث بنا خصوصاً روزانہ کی اجرت کمانے والے مزدوروں کے لیے۔
اسی دوران ملک بھر میں اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوا جبکہ کچھ جگہوں پر اس کی قلت کی نشاندہی بھی کی گئی تھی۔