افغانستان: بم دھماکے میں خواتین، بچوں سمیت 6 افراد جاں بحق
افغانستان کہ مشرقی صوبے میں سڑک کے کنارے نصب بم پھٹنے سے گاڑی میں سوار خواتین اور بچوں سمیت 6 شہری جاں بحق ہوگئے۔
صوبہ غزنی کے گورنر کے ترجمان وحید اللہ نے بتایا کہ ضلع جاگاتو میں گاڑی مسافروں کو لے کر منزل کی طرف جارہی تھی کہ روڈ پر نصب بم سے ٹکرا گئی اور دھماکے میں 8 شہری زخمی بھی ہوگئے۔
خبر رساں ادارے 'اے پی' کے مطابق تاحال کسی تنظیم یا گروہ نے فوری طور پر حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
مزید پڑھیں: امریکا-طالبان امن معاہدے پر دستخط کے 2 روز بعد ہی افغانستان میں بم دھماکا
گزشتہ روز اسی صوبے میں طالبان کے ایک حملے میں سڑک کے کنارے نصب بم کے ذریعے ضلع ڈیاک میں پولیس سربراہ اور ان کے دو محافظوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
افغان چیک پوسٹ کے معائنے کے دوران حملہ ہوا۔
اس کے علاوہ وزارت دفاع نے کہا کہ افغان فوجیوں نے مشرقی صوبہ لوگر کے ضلع عذرا میں فوجی چوکیوں پر جمعہ کے روز طالبان کے حملوں کو پسپا کردیا۔
بیان میں کہا گیا کہ حملے میں کم از کم 8 طالبان ہلاک اور 4 زخمی ہوگئے۔
یہ بھی پڑھیں: افغان امن معاہدے کے اہم نکات
دوسری جانب طالبان نے افغان فوجیوں پر الزام عائد کیا کہ وہ ان کے گھروں اور اہلخانہ کو اپنی کارروائیوں کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
اس ضمن میں کابل نے طالبان پر الزام لگایا کہ وہ عام شہریوں اور سیکیورٹی فورسز کے خلاف حملوں میں تیزی لائے ہیں۔
واضح رہے کہ تقریباً 19 برس تک طالبان سے جنگ کے بعد امریکا، افغانستان سے انخلا، امریکی حمایت یافتہ حکومت اور ملک کے مختلف حصوں پر قابض جنگجو گروہ کے درمیان امن کے حصول کی کوششوں کے طریقوں پر غور کر رہا ہے۔
رواں سال 29 فروری کو امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدہ ہوا تھا جس میں امریکی فوجیوں کے انخلا کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
امریکی عہدیداران اور نیٹو نے مئی کے اواخر میں کہا تھا کہ اس وقت کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے سبب طالبان سے اتفاق کردہ شیڈول سے قبل افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد 8 ہزار 600 کے قریب ہے۔
یاد رہے کہ معاہدے پر دستخط کے بعد سے طالبان امریکا پر جیت کا دعویٰ کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: افغان حکومت اور طالبان کا عیدالفطر پر 3 روزہ جنگ بندی کا اعلان
معاہدے کے تحت اگر طالبان سیکیورٹی ضمانتیں دیں گے اور کابل سے مذاکرات کریں گے تو غیر ملکی فورسز کا افغانستان سے 14 ماہ میں انخلا ہوگا۔
جہاں اس معاہدے کی حمایت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ امن کی جانب پہلا قدم ہے وہیں کئی افغانوں کو خدشہ ہے کہ اس سے طالبان دوبارہ اقتدار میں آئیں گے۔
خیال رہے کہ 1996 سے 2001 تک طالبان نے افغانستان کے زیادہ تر حصے پر حکمرانی کی ہے۔