مصر: اخوان المسلمون کے 88 رہنماؤں کےخلاف فوجی عدالت کے فیصلے کی توثیق
مصر کی عدالت عظمیٰ نے اخوان المسلمون کے سینئر اراکین کی جانب سے 'غیر ملکی تنظیموں سے تعاون ' کیس میں فوجی عدالت کے فیصلے کے خلاف دائر اپیل مسترد کردی۔
عدالت عظمیٰ نے اخوان المسلمون کے مرشد عام محمد بدیع اور ان کے نائب خیرت الشاطر سمیت 88 اراکین کی سزائیں برقرار رکھی ہیں۔
مزید پڑھیں: مصر: اخوان المسلمون کے سربراہ سمیت مرکزی رہنماؤں کو عمر قید کی سزا
مصر ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق قاہرہ کی کرمنل کورٹ نے دسمبر 2018 میں محمد بدیع اور ان کے نائب خیرت الشاطر کے علاوہ 4 دیگر اراکین کو 'مکتب ارشاد کیس' میں عمر قید (25 برس) کی سزا سنائی تھی۔
عدالت نے اس معاملے میں 6 دیگر افراد کو بری کردیا تھا، جن میں 2013 میں تحلیل ہونے والی پارلیمنٹ کے اسپیکر سعد اور ممتاز شخصیات ایسام ایل ایریان اور محمد البلتیگی شامل تھے۔
اخوان المسلمون کے سینئر رہنماؤں کے خلاف نامعلوم شخصیات کو اسلحہ، گولہ بارود اور دھماکہ خیز مواد کی فراہمی اور جرائم کا منصوبہ بنانے کا الزام تھا۔
ان تمام افراد پر ’غیر ملکی تنظیموں کے تعاون سے جرائم کرنے‘ کا الزام تھا، جن میں فلسطینی تنظیم حماس اور لبنان سے تعلق رکھنے والی عسکری جماعت حزب اللہ شامل ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مصر:اخوان المسلمون کے رہنماؤں سمیت 75 افراد کو سزائے موت
مذکورہ کیس میں ابتدائی طور پر مصر کے سابق صدر محمد مرسی کو بھی ملوث کیا گیا تھا جو عدالتی پیشی کے موقع پر طبیعت خراب ہونے کے باعث وفات پاگئے تھے۔
یاد رہے کہ اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے مصر کے واحد صدر محمد مرسی نے 30 جون 2012 کو اقتدار سنبھالا تھا لیکن ایک سال بعد ہی 3 جولائی 2013 کو مصری فوج نے ان کا تختہ الٹ دیا تھا۔
بعد ازاں مصری حکام نے اخوان المسلمون گروپ کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔
محمد بدیع اور اخوان المسلمون کے 10 دیگر ارکان کو گزشتہ سال ستمبر میں 'مشرقی سرحدوں کو غیر قانونی طور پر عبور کرنے' کے مقدمے کی سماعت میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
بعدازاں مصر کی ایک عدالت کے جج نے 2014 میں محمد مرسی کے 529 حامیوں کو سزائے موت سنائی تھی۔
مزید پڑھیں: مصر: اخوان المسلمون کے سربراہ کے دوبارہ ٹرائل کا حکم
انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے مصری حکومت کے ان اقدامات پر شدید تنقید کی گئی تھی اور گرفتار افراد کے خلاف آزادانہ ٹرائل کو یقینی بنانے پر زور دیا تھا۔
2013 میں دھرنے میں عوام کو نشانہ بنانے کی مذمت دنیا بھر کے انسانی حقوق کی تنظمیوں کی جانب سے کی گئی تھی۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی ایک رپورٹ میں ان فیصلوں کو ‘مضحکہ خیز انصاف ’قرار دیتے ہوئے حکام سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ پرامن احتجاج کرنے والے تمام گرفتار افراد کے خلاف مقدمات کو ختم کر دیا جائے۔