لاہور ہائیکورٹ کا پیٹرولیم بحران کی تحقیقات کیلئے کمیشن بنانے کا فیصلہ
لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس محمد قاسم خان نے گزشتہ ماہ ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے اعلان کے بعد سامنے آنے والے پیٹرول بحران کی تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ سطح کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عدالت عدالت میں پیٹرولیم بحران کے خلاف سماعت میں وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان، اٹارنی جنرل برائے پاکستان خالد جاوید خان، آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کی چیئرمین عظمیٰ عادل اور دیگر وفاقی و صوبائی حکام پیش ہوئے تھے۔
علاوہ ازیں اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید خان نے پیٹرولیم بحران کی تحقیقات کے لیے شوگر کمیشن کی طرز پر کمیشن بنانے کی تجویز دی تھی جس پر عدالت نے ہدایت کی کہ کمیشن ایسا ہونا چاہیے جو وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری سے بھی سوالات کر سکے۔
جسٹس قاسم خان نے کہا کہ پیٹرولیم بحران کے معاملے پر محسوس ہوتا ہے کہ کچھ بڑے اس معاملے میں شامل ہیں اور اٹارنی جنرل صاحب کو روسٹرم پر آ کر بحران پیدا کرنے والوں کے خلاف کی گئی کارروائی سے آگاہ کرنے کی ہدایت کی۔
یہ بھی پڑھیں: چیئرمین نیب ہر چیز پر نوٹس لیتے ہیں لیکن پیٹرول کے بحران پر خاموش ہیں، پشاور ہائیکورٹ
جسٹس قاسم خان نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ کو کہا گیا تھا کہ اسپیکر سے پوچھ کہ بتائیں کہ وہ کمیٹی بنا رہے ہیں یا نہیں جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر میں نے خود اتوار کے روز اسپیکر قومی اسمبلی سے ملاقات کی۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے پیٹرولیم بحران کا معاملہ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے سامنے رکھنے کا فیصلہ کیا۔
بعدازاں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری کو روسٹرم پر آنے کی ہدایت کی اور استفسار کیا کہ پیٹرولیم بحران پر کب کارروائی شروع کی گئی اور بحران کا معاملہ وزیر اعظم کے علم میں کب لایا گیا۔
جسٹس قاسم خان نے ریمارکس دیے کہ پرنسپل سیکریٹری کے تحریری جواب میں الفاظ کا گورکھ دھندا نظر آتا ہے۔
مزید پڑھیں: پیٹرولیم مصنوعات کا بحران اور مجموعی صورتحال پر ایک نظر
انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ جب تک بحران کے ذمہ دار پکڑے نہیں جائیں گے تب تک بحران پر قابو نہیں پایا جا سکتا، بظاہر لگتا ہے آئل مافیا نے فائدہ اٹھانے کے لیے پیٹرول کو شارٹ کیا۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے مزید کہا کہ حکومت پہلے ہر ماہ یکم کو پیٹرولیم کی قیمتیں بڑھاتی تھی گزشتہ ماہ 26 جون کو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھا کہ مافیا کو اربوں روپے کا فائدہ پہنچا گیا۔
دوران سماعت اٹارنی جنرل نے تجاویز پر مبنی رپورٹ چیف جسٹس کو پیش کی اور کہا کہ اگر عدالت اس میں ردو بدل کرنا چاہے تو کر سکتی ہے، میری ذاتی تجاویز عدالت کے سامنے ہیں۔
جس پر جسٹس قاسم خان نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل آپ کی تجاویز ہومیوپیتھک ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: آئل کمپنیوں نے بیوروکریسی کو پیٹرول بحران کا ذمہ دار ٹھہرادیا
اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے حکومت کی جانب سے ہدایات ہیں کہ عدالت سے کچھ نہیں چھپانا، جو بھی ذمے دار ہوا اس کے خلاف بلا تفریق کارروائی ہوگی۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ حکومت نے مافیا کو 4 کروڑ روپے کا جرمانہ کیا اور مافیا نے 4 دنوں میں 7 ارب روپے کما لیے۔
ان کا کہنا تھا کہ پرنسپل سیکریٹری بہت بڑا آدمی ہے یہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی چلاتا ہے، پرنسپل سیکریٹری کو 4 مرتبہ بلایا اور وہ آج آئے ہیں، مجھے اگر اس معاملے پر مطمئن نہ کیا گیا تو میں اپنے تفصیلی فیصلے میں لکھوں گا کہ یہ بیڈ گورننس ہے۔
جسٹس قاسم خان نے مزید کہا کہ چیئرپرسن اوگرا کچھ لوگوں کو بچانے کی کوشش کر رہی ہیں، چیئرپرسن اوگرا عدالت میں سیدھا بیان دے دیں ورنہ یہ نہ ہو کہ باقی بچ جائیں آپ پھنس جائیں۔
مزید پڑھیں: پیٹرول بحران ختم ہونے کے بعد مزید 3 کمپنیوں کو ڈیڑھ کروڑ روپے کا جرمانہ
عدالت میں اوگرا کے وکیل نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ اوگرا اور وزارت پیٹرولیم کے مابین 10 سال سے لڑائی چل رہی ہے، 20 مارچ کو چیئرپرسن اوگرا نے حکومت کو پیٹرول کی قلت سے متعلق آگاہ کیا لیکن اقدامات نہیں کیے گئے۔
جس پر جسٹس قاسم خان نے کہا کہ اوگرا عدالت کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کر رہا ہے، اوگرا کا جواب تصدیق شدہ نہیں ہے یہ صرف ردی کی ڈھیری ہے۔
بعدازاں لاہور ہائی ورٹ نے پیٹرولیم بحران درخواست کی کارروائی 16 جولائی تک ملتوی کرتے ہوئے اٹارنی جنرل سے کمیشن کے لیے نام اور ٹی او آرز سے طلب کر لیں۔
واضح رہے کہ یکم جون کو حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے بعد ملک میں پیٹرول کا بحران پیدا ہوگیا تھا جس پر حکومت اور اوگرا کے نوٹس کے باوجود قلت پر قابو نہ پایا جاسکا۔
تاہم 26 جون کو جیسے ہی حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 25 روپے 58 پیسے تک اضافہ کیا ملک میں پیٹرول اور ڈیزل کی قلت ختم ہوگئی تھی۔
ملک میں پیٹرول کی قلت اور ذخیرہ اندوزی میں ملوث کمپنیوں کا پتا لگانے کے لیے وزارت توانائی کے پیٹرولیم ڈویژن نے 8 رکنی کمیٹی بھی تشکیل دی تھی۔