وزارت مذہبی امور نے مندر کی تعمیر کا معاملہ اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیج دیا
اسلام آباد: وزارت مذہبی امور نے مندر کی تعمیر کے لیے سرکاری گرانٹ کی فراہمی سے متعلق معاملہ اسلامی نظریاتی کونسل (سی آئی آئی) کو بھجوا دیا ہے جبکہ دارالحکومت میں مندر کی تعمیر کے حق میں پہلا عوامی احتجاج کیا گیا۔
وفاقی وزیر برائے مذہبی امور پیر نورالحق قادری نے ایک خط میں کونسل کی رائے طلب کی ہے کہ آیا حکومت کو شہر میں ایک مندر کی تعمیر کے لیے فنڈز دینے کی اجازت ہے یا نہیں۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کے خلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ
خط میں کہا گیا ہے کہ کیا حکومت سرکاری فنڈز کا استعمال کرتے ہوئے غیر مسلم عبادت گاہ تعمیر کر سکتی ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہندو پنچایت کے ایک وفد اور کچھ غیر مسلم پارلیمنٹیرینز نے نورالحق قادری سے ملاقات کی تھی اور اس مندر کی تعمیر کے لیے سرکاری فنڈ مختص کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
مراسلے میں کہا گیا کہ مذہبی امور دراصل وزارت اقلیتی بہبود فنڈ کے معاملات بھی دیکھتی ہے، جو غیر مسلم پارلیمنٹیرینز کی سفارشات کی بنیاد پر اقلیتی برادری کے مذہبی مقامات کی مرمت اور بحالی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
تاہم قوانین کے تحت مذہبی اقلیتوں کے لیے ایک نئی عبادت گاہ کی تعمیر جائز نہیں تھی، خط میں مزید کہا گیا ہے کہ اس صورتحال کے پیش نظر درخواست کو غور کے لیے وزیر اعظم کے دفتر ارسال کردیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: قانون پر عملدرآمد تک مندر کی تعمیر نہیں ہوسکتی، اسلام آباد ہائیکورٹ
وزیر مذہبی امور کے خط میں نشاندہی کی گئی کہ اس معاملے پر پارلیمنٹیرین اور نورالحق قادری نے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی جسے مولویوں نے متنازع بنا دیا تھا جنہوں نے سوشل میڈیا پر اس کی مخالفت کی تھی اور وزارت مذہبی امور سے رجوع کیا تھا تاکہ عوامی رقم سے ایک مندر کی تعمیر پر اعتراض کیا جائے۔
اس کے جواب میں عمران خان نے وزارت مذہبی امور سے کہا کہ وہ اسلامی نظریاتی کونسل سے مشورہ لیں۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے اس بات کا اعتراف کیا کہ انہیں وزارت کا خط موصول ہوا ہے اور انہوں نے کہا کہ کونسل کے تحقیقاتی شعبے کو اس سوال پر ایک رائے مرتب کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے۔
ڈاکٹر ایاز نے کہا کہ علما کو اس معاملے پر احتجاج نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کی بجائے اسے اسلامی نظریاتی کونسل کی رہنمائی کرنی چاہیے، انہوں نے کہا کہ یہ ستمبر میں ہونے والے اسلامی نظریاتی کونسل کے اجلاس کے دوران اٹھایا جائے گا کیونکہ محکمہ تحقیق کو مشاورت کرنے اور ضرورت پڑنے پر عوامی تاثرات طلب کرنے کے بعد اپنی رائے کو حتمی شکل دینے میں دو سے تین ہفتوں کا وقت لگتا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی رمیش کمار وانکوانی نے ڈان کو بتایا کہ مندر کے لیے مالی اعانت سے متعلق استدلال غلط ہے۔
مزید پڑھیں: مندر کے معاملے کو بعض مذہبی، سیاسی عناصر نے ایشو بنایا، نورالحق قادری
انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مسلمانوں سے وصول کردہ ٹیکسوں سے ہندو مندر نہیں بنایا جا سکتا، یہ درست ہے اور ہم اس سے متفق ہیں لیکن کیا ہندو برادری کی جناب سے 70 سالوں میں ادا کیے گئے ٹیکسوں کے ذریعے ملک میں کسی بھی مندر کی تعمیر پر کوئی رقم خرچ کی گئی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی 10کروڑ روپے کی گرانٹ جائز ہے کیونکہ یہ اصل میں ہمارے پیسے تھے۔
نیشنل پریس کلب میں مندر کی تعمیر کی حمایت میں ایک احتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا جس کی سربراہی عوامی ورکرز پارٹی کے عمار راشد نے کی۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ مندر کو دہائیوں پہلے شہر کی ہندو آبادی کے لیے تعمیر کرنا چاہیے تھا اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ شدت پسندوں کے دباؤ کے سامنے سر نہیں جھکائے جو مختلف بہانوں سے ملک کے شہریوں کو ہراساں کررہے ہیں۔
مظاہرین نے ایسے پوسٹر لگائے تھے جن پر لکھا تھا کہ ‘قائد کا پاکستان سب کا پاکستان ہے، ہم جبر کے اصولوں پر عمل نہیں کرتے ہیں اور اسلام آباد میں مندر تعمیر کرو' لکھا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم نے اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کیلئے گرانٹ کی منظوری دے دی
تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے رہنما سید حامد علی شاہ موسوی نے بھی مندر کی تعمیر کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسے متنازع نہیں بنایا جانا چاہیے کیونکہ غیر مسلموں کو اپنی عبادت گاہ رکھنے کا حق ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی آخری حکومت نے 2017 میں H-9/2 میں ہندو مندر کی تعمیر کے لیے 2 ہزار 400 مربع گز زمین مختص کی تھی، آج اس کی تعمیر کی مخالفت کرنے والے اس وقت حکومت کے اتحادی تھے جبکہ ایک اور مخالف مفتی منیب الرحمٰن رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ ہیں۔