حماد صدیقی نے 20 کروڑ روپے بھتہ نہ ملنے پر بلدیہ فیکٹری کو آگ لگوائی، جے آئی ٹی رپورٹ
سانحہ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ کے مطابق متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے اعلیٰ عہدیدار حماد صدیقی نے 20 کروڑ روپے بھتہ نہ ملنے پر بلدیہ میں قائم گارمنٹس فیکٹری میں آگ لگوائی۔
سندھ حکومت نے عذیر بلوچ، نثار مورائی اور سانحہ بلدیہ فیکٹری کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹس جاری کر دی ہیں۔
ڈی آئی جی سی آئی اے سلطان علی خواجہ کی سربراہی میں 9 رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے چار ٹرمز آف ریفرنس کے تحت پہلی جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں واقعے کی دوبارہ تحقیقات کی اور فیکٹری مالکان اور دیگر کے بیانات کے علاوہ واقعے کے سیاسی پہلو کا بھی جائزہ لیا۔
جے آئی ٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تحقیقات کے دوران ملزم رضوان قریشی نے انکشاف کیا کہ اگست 2012 میں پارٹی کے جانے مانے عہدیدار حماد صدیقی نے اپنے فرنٹ مین رحمٰن بھولا کے ذریعے علی انٹرپرائزز کے مالک سے 20 کروڑ روپے کا بھتہ مانگا۔
فیکٹری مالکان یہ معاملہ بلدیہ ٹاؤن کے سیکٹر انچارج اصغر بیگ کے علم میں لائے جو انہیں اپنے بھائی ماجد بیگ کے ہمراہ عزیز آباد 90 لے گئے اور کے ٹی سی انچارج حماد صدیقی اور فاروق سلیم سے ملاقات کی اور انہیں بتایا کہ فیکٹری مالکان ان کے حامی ہیں جبکہ بھتے کی رقم کے مطالبے سے متعلق بھی بات ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں: سانحہ بلدیہ فیکٹری: ایم کیو ایم کو کروڑوں روپے بھتہ دینے کا کہا گیا، مالک
رضوان قریشی نے بتایا کہ اس موقع پر ان کے درمیان تلخ کلامی ہوئی اور حماد صدیقی اور فاروق سلیم نے پارٹی پالیسی کا حوالہ دے کر مطالبے سے پیچھے ہٹنے سے صاف انکار کردیا۔
چند روز بعد حماد صدیقی نے بلدیہ ٹاؤن کے سیکٹر انچارج اصغر بیگ کو معطل کردیا اور جوائنٹ سیکٹر انچارج رحمٰن بھولا کو سیکٹر انچارج بنا دیا جس کے بعد حماد صدیقی اور فاروق سلیم نے رحمٰن کو حکم دیا کہ وہ فیکٹری مالکان سے بھتے کی رقم وصول کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ رحمٰن بھولا نے فیکٹری مالکان سے 20 کروڑ روپے بھتے کا مطالبہ کیا اور ان کے انکار پر رحمٰن اور اس کے نامعلوم ساتھیوں نے 11 ستمبر 2012 کو فیکٹری میں کیمیکل پھینکا جس سے آگ لگی۔
اگلے روز سی آئی ڈی پولیس نے بلدیہ ٹاؤن کے گجرات محلے میں اصغر اور ماجد کے گھر پر چھاپہ مارا اور ماجد کو گرفتار کیا، ایم کیو ایم (اے) کی جانب سے فیکٹری مالکان پر دباؤ ڈالا گیا جس کے باعث انہوں نے یہ بیان دیا کہ واقعے میں ماجد بیگ ملوث نہیں ہے۔
ملزم رضوان قریشی نے کہا کہ اس بیان پر سی آئی ڈی نے ماجد بیگ کو رہا کردیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ پارٹی کے اعلیٰ عہدیدار کے حکم پر ایم کیو ایم (اے) کے سابق وزیر پولیس اسٹیشن گئے اور فیکٹری مالکان کے خلاف مقدمہ درج کروایا۔
فیکٹری مالکان نے سندھ ہائی کورٹ سے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کرلی لیکن سابق وزیر نے اپنے تعلقات استعمال کرتے ہوئے ان کی ضمانت منسوخ کروادی۔
اس کے بعد سابق وزیر اعظم نے فیکٹری مالکان کی پنجاب ہائی کورٹ سے ضمانت حاصل کرنے میں مدد کی لیکن ایم کیو ایم (اے) کی مداخلت کے بعد، سابق وزیر اعظم معاملے سے پیچھے ہٹ گئے اور پارٹی کے اسی اعلیٰ عہدیدار کے نامعلوم فرنٹ مین نے، جو حکومت کا حصہ تھے، فیکٹری مالکان سے کیس واپس لینے کے لیے 15 کروڑ روپے وصول کیے۔
رضوان قریشی نے کہا کہ انہیں یہ تمام معلومات بلدیہ ٹاؤن کے سابق سیکٹر انچارج سے ملیں۔
مزید پڑھیں: سانحہ بلدیہ فیکٹری: انسداد دہشتگردی عدالت نے آخری گواہ کو طلب کرلیا
جے آئی ٹی کی سفارشات
کمیٹی نے دستیاب شواہد اور ماہرین کے رائے حاصل کرنے کے بعد مندرجہ ذیل سفارشات پیش کیں:
1۔ فیکٹری میں آتشزدگی کوئی حادثہ نہیں تھا بلکہ منصوبہ بندی کے تحت آگ لگائی گی جو تخریب کاری تھی اور جو فیکٹری مالکان کی جانب سے ایم کیو ایم (اے) کے رحمٰن بھولا اور حماد صدیقی کو 20 کروڑ روپے بھتہ اور منافع میں حصہ دار نہ بنانے پر لگائی گئی۔
2۔ واقعے سے 'غیر ذمہ دارانہ طریقے' سے نمٹا گیا اور کسی 'فائدے' کے لیے اسے اس طرح ہینڈل کیا گیا جس سے 'متاثرین' کی بجائیے 'مجرمان' کو فائدہ پہنچا، واقعے کے مقدمے کا اندراج اور تحقیقات ناصرف بدنیتی پر مبنی تھی بلکہ اندرونی و بیرونی سطح پر اسے شدید دباؤ کا بھی سامنا تھا، ایف آئی آر میں واقعے کو پہلے ایک عام قتل کی طرح پیش کیا گیا پھر حادثے کی شکل دے دی گئی، جبکہ اس میں بھی اصل مجرمان کی بجائے فیکٹری مالکان اور اس کی انتظامیہ کو شامل کیا گیا۔
واقعے کی جس طرح تحقیقات کی گئی اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس 'زیر اثر' تھی، اس لیے مقدمے اور پہلی تحقیقات میں کہیں بھتے کا ذکر نہیں کیا گیا، حالانکہ جے آئی ٹی کا ماننا ہے کہ یہی اس دردناک واقعے کی بنیادی وجہ تھی۔
3۔ تحقیقاٹی ٹیم کی طرف سے ریاست سے 2012 کی ایف آئی آر واپس لیتے ہوئے تعزیرات پاکستان اور انسداد دہشت گردی قانون کی متعلقہ شقوں کے تحت رحمٰن بھولا، حماد صدیقی، زبیر عرف چریا، زبیر کے چار نامعلوم ساتھیوں، عمر حسان قادری، ڈاکٹر عبدالستار، علی حسان قادری اور اقبال ادیب خانم کے خلاف نیا مقدمہ درج کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔
4۔ تحقیقاتی ٹیم نے محمد زبیر سے واقعے میں اس کے کردار کے متعلق تحقیقات کی کوشش کی کیونکہ تمام شواہد واقعے میں اس کے ملوث ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہیں، اس سلسلے میں جے آئی ٹی نے سعودی عرب میں موجود محمد زبیر کے والد محمد نذیر کو تحقیقات کا حصہ بننے کی پیشکش کی لیکن انہوں نے انکار کردیا، تحقیقات میں مزید پیشرفت کا محمد زبیر سے تفتیش پر بہت انحصار ہے جو پہلے ہی ملک سے فرار ہے اور اس کے پاسپورٹ کی منسوخی لے لیے ڈی جی امیگریشن اینڈ پاسپورٹ کو تین خطوط بھی لکھے گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سانحہ بلدیہ فیکٹری: 7 سال بعد زمینی حقائق اب بھی وہی ہیں
5۔ رپورٹ میں محمد زبیر کو ملک واپس لانے اور گرفتار کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔
6۔ تمام مفرور ملزمان کے پاسپورٹ منسوخ کرنے اور ان کے نام فوری طور پر ای سی ایل میں ڈالے کی سفارش کی گئی ہے۔
7۔ کیس کے تمام گواہان کو متعلق قانون کے تحت تحفظ فراہم کرنے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔
8۔ بھتے کی رقم سے حیدر آباد میں خریدی گئی جائیداد قانونی طریقے سے فیکٹری مالکان کو منتقل کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔
سانحہ بلدیہ فیکٹری
خیال رہے کہ 11 ستمبر 2012 کو کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں قائم کپڑے کی فیکٹری میں لگنے والی آگ کے نتیجے میں 250 سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔
سانحے کی تحقیقات کے لیے رینجرز اور پولیس سمیت دیگر اداروں کے افسران پر مشتمل 9 رکنی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی (جے آئی ٹی) تشکیل دی گئی تھی، جس نے اپنی رپورٹ سندھ ہائی کورٹ میں جمع کرائی تھی۔
سانحہ بلدیہ ٹاؤن کیس میں فروری 2015 میں ڈرامائی موڑ اس وقت آیا جب رینجرز کی جانب سے سامنے آنے والی ایک رپورٹ میں ایم کیو ایم کو اس واقعے میں ملوث قرار دیا گیا۔
جے آئی ٹی رپورٹ میں متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما رؤف صدیقی، عبدالرحمٰن عرف بھولا اور زبیر عرف چریا سمیت 11 ملزمان کو فیکٹری میں آگ لگانے کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: بلدیہ فیکٹری مقدمے میں 2 گواہوں کا ملزم کے خلاف حلفیہ بیان
پروسیکیوشن کے مطابق مشتبہ ملزمان نے اس وقت کے ایم کیو ایم کراچی کی تنظیمی کمیٹی کے سربراہ حماد صدیقی کی ہدایات پر عمل کیا کیونکہ فیکٹری کے مالکان نے بھتے کی رقم کی ادائیگی سے انکار کردیا تھا۔
ابتدائی طور پر ثبوتوں کی عدم موجودگی پر پولیس نے زبیر چریا کو رہا کردیا تھا البتہ عبدالرحمٰن عرف بھولا کی جانب سے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کے سامنے قلمبند کرائے گئے بیان میں انہوں نے زبیر کو بھی شریک جرم قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے زبیر اور دیگر ساتھیوں کے ہمراہ فیکٹری کو آگ لگانے کا کام انجام دیا جس کے بعد پولیس نے زبیر کو دوبارہ گرفتار کر لیا تھا۔
علاوہ ازیں رواں سال اپریل میں کیس کی سماعت کے دوران ایک اہم ترین گواہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش ہوا اور واقعے میں ملوث ایک ملزم زبیر عرف چریا کو شناخت کرلیا۔