یہ دعویٰ امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا۔
یالے کینسر سینٹر کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ متعدد بیماریوں کے نتیجے میں بلڈ کلاٹس کا خطرہ ہوتا ہے مگر کووڈ 19 میں اس مسئلے میں خون کی شریانوں کے اندر موجود خلیات اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
ان خلیات کو پہنچنے والا نقصان کووڈ 19 کے جان لیوا اثرات کا مرکز جز ثابت ہوتا ہے اور ہماری تحقیق میں پہلی بار ثابت کیا گیا کہ کووڈ 19 کے مریضوں خصوصاً بہت زیادہ بیمار افراد میں یہ عمل کس طرح کام کرتا ہے۔
تحقیق کے دوران کووڈ 19 کے 68 مریضوں کے خون کے نمونوں کا معائنہ کیا گیا، جن میں سے 48 کی حالت بہت خراب تھی اور وہ آئی سی یو میں زیرعلاج تھے جبکہ باقی ہسپتال میں تو تھے مگر آئی سی یو میں نہیں۔
محققین نے دریافت کیا کہ خون کے endothelial خلیات اور پلیٹ لیٹس کے متحرک ہونے کی شرح آئی سی یو میں زیرعلاج مریضوں میں دیگر کے مقابلے میں لگ بھگ دگنا زیادہ تھی۔
انہوں نے دیکھا کہ ایک عنصر thrombomodulin تمام مریضوں کی بقا سے منسلک تھا اور اس کی جانچ پڑتال سے ڈاکٹروں کو مریضوں کے بہتر علاج میں مدد مل سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم اس عنصر کی شناخت کرلیتے ہیں جو مریض کی حالت زیادہ بگڑنے اور موت کا باعث بنتا ہے، تو یہ بہت مددگار ثابت ہوگا کیونکہ ایسے مریضوں کی زیادہ نگہداشت ممکن ہوسکے گی۔
اب محققین نے thrombomodulin پر مبنی ٹیسٹ تیار کرنے پر کام کررہے ہیں جو دیگر جان لیوا امراض سے تحفظ میں بھی مدد دے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارا دیگر مقصد علاج کی حکمت عملیوں کو دریافت کرنا ہے جو بلڈ کلاٹس کو بننے ے روک سکیں، یہ بھی دیکھنا ہوگا اس وقت استعمال ہونے والی ادویات کس حد تک مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔
اس تحقیق کے نتائج جریدے دی لانسیٹ ہیماٹولوجی میں شائع ہوئے۔
خیال رہے کہ کورونا وائرس صرف نظام تنفس تک محدود رہنے والا وائرس نہیں بلکہ اس کی چند سب سے خطرناک علامات میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ ہے خون کی بے تحاشا رکاوٹیں یا بلڈ کلاٹس۔
بلڈ کلاٹس کا مسئلہ اس وقت ہوتا ہے جب خون گاڑھا ہوجاتا ہے اور شریانوں میں اس کا بہاؤ سست ہوجاتا ہے، ایسا عام طور پر ہاتھوں اور پیروں میں ہوتا ہے مگر پھیپھڑوں، دل یا دماغ کی شریانوں میں بھی ایسا ہوسکتا ہے۔
سنگین کیسز میں یہ مسئلہ جان لیوا ہوتا ہے کیونکہ اس سے فالج، ہارٹ اٹیک، پھیپھڑوں کی رگوں میں خون رک جانا اور دیگر کا خطرہ بڑھتا ہے۔
ڈاکٹر تاحال یہ سمجھ نہیں سکے کہ کیسے اور کیوں کورونا وائرس سے خون گاڑھا ہونے لگتا ہے جبکہ پنسلوانیا یونیورستی کے ایک ڈاکٹر لیوئس کپلان نے واشنگٹن پوسٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ طبی ماہرین نے اس قسم کی کلاٹس کو پہلے کبھی نہیں دیکھا۔
انہوں نے کہا 'مسئلہ یہ ہے کہ ہم یہ تو سمجھ جاتے ہیں کہ یہاں ایک کلاٹ ہے مگر اب تک یہ سمجھ نہیں سکے کہ یہاں کلاٹ کیوں ہے، ہم اب تک اس کو جان نہیں سکے اور یہی وجہ ہے کہ ہم خوفزدہ ہیں'۔
جرمنی میں کووڈ 19 سے ہلاک ہونے والے 12 مریضوں پر ہونے والی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 60 فیصد میں جسم کے اندر ٹانگوں یا ہاتھوں میں بلڈ کلاٹس کی تشخیص نہیں ہوسکی تھی۔
امریکا میں حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ کورونا وائرس خون کی شریانوں میں ایک ٹشو اینڈوتھیلیم پر حملہ آور ہوتا ہے، جس کو ہونے والے نقصان کے باعث بلڈکلاٹس کا مسئلہ درپش ہوتا ہے اور شریانیں کام نہیں کرپاتیں۔
محققین نے بتایا کہ کووڈ 19 کے مریضوں کا خون آسانی سے گاڑھا ہونے لگتا ہے جس کی وجہ سے ادویات اور سیال پہنچانے کے لیے ٹیوب کا استعمال مشکل ہوجاتا ہے۔
سائنسدانوں نے جب کووڈ 19 کے مریضوں کے پھیپھڑوں کا جائزہ مائیکرواسکوپ سے لیا تو انہوں نے ننھے ڈارک مائیکرو کلاٹس کو دریافت کیا۔
فلو سے ہلاک ہونے والے مریضوں میں بھی خون کی رگیں بند ہونے کو دیکھا گیا ہے مگر کووڈ 19 کے شکار افراد میں ان کی تعداد 9 گنا زیادہ ہوتی ہے۔
اس تحقیق میں فلو اور کووڈ 19 سے ہلاک ہونے والے 7، سات مریضوں کے پھیپھڑوں کا موازنہ کیا گیا تھا۔
محققین کا کہنا تھا کہ ایسا نظر آتا ہے کہ وائرس سے پھیپھڑوں میں ہوا کی نالیوں اور دیواروں کی بجائے خون کی شریانوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچتا ہے۔
شریانوں میں بلڈ کلاٹس سے ہارٹ اٹیک کا خطرہ بھی بڑھتا ہے۔
چین میں کووڈ 19 کے 187 مریضوں پر ہونے والی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ لگ بھگ 30 فیصد افراد کے دلوں کو نقصان پہنچا تھا اور ممکنہ طور یہی وجہ ہے کہ پہلے سے کسی بیماری سے لڑنے والے افراد کورونا وائرس کا شکار ہوتے ہیں تو ان میں موت کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتا ہے۔
درحقیقت تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ امراض قلب کے شکار افراد میں کورونا وائرس سے موت کی شرح 10 فیصد کے قریب ہے۔
نیدرلینڈ میں آئی سی یو میں زیرعلاج 184 مریضوں پر ہونے والی ایک تحقیق میں ایک تہائی افراد میں بلڈ کلاٹس کو دریافت کیا گیا جبکہ 4 فیصد میں شریانوں کی بندش دیکھی گئی۔
امریکا کی تھامس جیفرسن یونیورسٹی کی تحقیق میں کووڈ 19 کے ایسے مریضوں کا جائزہ 20 مارچ سے 10 اپریل تک لیا گیا جن میں فالج کا حملہ ہوا تھا اور یہ معمول سے بالکل ہٹ کر تھا۔