پائلٹس کے لائسنس جعلی یا مشکوک؟ اصل معاملہ آخر ہے کیا؟
وفاقی وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان کے بیان نے بالآخر وہ کام کردیا جو شاید کوئی غیر بھی نہیں کرسکتا تھا۔ قومی اسمبلی میں پائلٹس کے لائسنس کے حوالے سے دیے گئے وزیر صاحب کے بیان کو بنیاد بناکر یورپین یونین ایئر سیفٹی ایجنسی (ایاسا) نے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) پر آئندہ 6 ماہ کے لیے اپنی حدود میں پروازوں پر پابندی عائد کردی ہے۔
ایاسا نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ پی آئی اے پر پابندی کا فیصلہ وزیر ہوابازی کے اس بیان کے بعد کیا گیا ہے جس میں انہوں نے یہ انکشاف کیا تھا کہ پاکستان میں جاری ہونے والا ہر تیسرا پائلٹ جعلی لائسنس یافتہ ہے۔
لیکن اس اعلان کے بعد فوری طور پر پاکستان نے یورپی حکام سے رابطہ کیا ہے جس کی وجہ سے یورپی یونین نے فلائٹ آپریشن میں 3 جولائی تک توسیع کردی۔
وفاقی وزیر نے اس بیان کو دینے کے لیے اس وقت کا انتخاب کیا جب ایئر بس اے 320 کی پرواز پی کے 8303 کریش کی عبوری رپورٹ جاری ہورہی تھی۔ شاید وہ اس کریشن کی رپورٹ کو بنیاد بناکر پائلٹس کے خلاف کوئی مہم شروع کرنا چاہتے تھے اور انہیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ وہ کس سمت معاملے کو لے جارہے ہیں۔ یاد رہے کہ اس بیان کے بعد متحدہ عرب امارات نے بھی 50 سے زائد پاکستانی پائلٹس کے لائسنس کی تصدیق کے لیے پاکستان سول ایوی ایشن سے رابطہ کرلیا ہے۔
غلام سرور خان کے اس بیان کے بعد معاملہ دو آتشہ ہوگیا۔ یعنی جیسے ہی جعلی لائسنس کا معاملہ طیارہ حادثے کے ساتھ جڑا ویسے ہی ایوی ایشن صنعت میں تو جیسے بھونچال آگیا ہو۔
اس بیان کے بعد بیرونِ ملک ایئر لائنز میں ملازمت کرنے والے پاکستانی ریڈار پر آگئے ہیں اور سب سے پہلے ویتنام کی سول ایوی ایشن نے پاکستان کے 20 پائلٹس کو گراونڈ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے علاوہ کویت نے بھی 7 پاکستانی پائلٹس اور 56 انیجئنرز کو بھی معطل کردیا۔
پھر اس کے بعد یورپی یونین نے بھی پابندی عائد کردی جس کے بعد پاکستان بھی افغانستان، انگولا، آرمینا، کانگو اور ایران جیسے ملکوں میں شامل ہوگیا ہے جن کی ایئر لائنوں کو یورپ میں آپریٹ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی پائلٹس کو لائسنس جاری کرنے کا ایک مربوط نظام موجود ہے اور یہ نظام شہری ہوا بازی کے ریگولیٹر کے ماتحت کام کرتا ہے۔ یہ نظام کیسے کام کرتا ہے؟ اس نظام میں کیا تبدیلیاں کی گئی ہیں؟ اور کس طرح یہ نظام کرپشن کا شکار ہوا اس پر آج کی تحریر میں جائزہ لیں گے۔
کوئی بھی نوجوان جو ایوی ایشن کی صنعت میں بطور پائلٹ اپنا پروفیشنل کیریئر شروع کرنا چاہتا ہے تو انٹرمیڈیٹ کرنے کے بعد اس کو سول ایوی ایشن کا وضع کردہ میڈیکل ٹیسٹ پاس کرنا ہوتا ہے۔
طبّی معائنے میں پاس ہونے کے بعد وہ نوجوان فلائنگ اسکول میں داخلہ لینے کا اہل بن جاتا ہے۔ مرتب کردہ کورس کے مطابق 3 ماہ تک زمین پر تربیتی عمل شروع کیا جاتا ہے۔ پائلٹ کو ایوی ایشن سے متعلق بنیادی تعلیم کلاس رومز میں دی جاتی ہے۔ جس میں تکنیکی کے علاوہ سیفٹی اور ایوی ایشن قوانین شامل ہوتے ہیں۔
ان 3 ماہ کی تربیت اور 3 گھنٹے فلائنگ کے بعد پہلا لائسنس مل جاتا ہے جس کو اسٹوڈنٹ پائلٹ لائسنس یا SPL کہا جاتا ہے۔ اس لائسنس کو حاصل کرنے کے بعد مزید پڑھائی اور 40 گھنٹے پرواز مکمل کرنے پر وہ پرائیویٹ پائلٹ لائسنس یا PPL کا اہل ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد 200 گھنٹے کی پرواز مکمل کرنے پر سول ایوی ایشن اتھارٹی کمرشل پائلٹ لائسنس یا CPL جاری کرتی ہے۔
اس لائسنس کے اجراء کے لیے پائلٹ کو 8 تحریری امتحانات بھی دینا ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ انسٹرومنٹ ریٹنگ کا عملی امتحان دینا ہوتا ہے۔ اس امتحان کے پاس کرنے کے بعد نوجوان لڑکا یا لڑکی CPL لائسنس حاصل کر لیتے ہیں اور کسی بھی ایئر لائن میں بطور کیڈٹ پائلٹ ملازمت کرسکتے ہیں۔ CPL کے ساتھ پائلٹس سنگل انجن ایئر کرافٹ کو اکیلے اُڑا سکتے ہیں، مگر 2 انجن والے طیارے یا 6500 کلو گرام سے وزنی طیارے کو بطور پائلٹ وہ آپریٹ نہیں کرسکتے لیکن ہاں، وہ معاون پائلٹ کے طور پر کام ضرور کرسکتے ہیں۔
پی آئی اے میں کیڈٹ پائلٹ کو بنیادی تربیت دینے کے بعد سب سے پہلے اے ٹی آر طیارے پر فرسٹ آفیسر تعینات کیا جاتا ہے اور وہ طیارے کی دائیں والی نشست جو فرسٹ آفیسر کے لیے مختص ہوتی ہے، وہاں سے جہاز کو آپریٹ کرتا ہے۔ اے ٹی آر سے ایئر بس 320 اور پھر بوئنگ 777 طیاروں پر فرسٹ آفیسر تعینات کیا جاتا ہے۔
فرسٹ آفیسر سول ایوی ایشن کے قوانین کے مطابق پائلٹ تقریباً 16سے 18سال تک بطور معاون پائلٹ پرواز کرتے ہوئے اپنے گھنٹے مکمل کرلیتا ہے اور یوں وہ کپتان بننے کے لیے تحریری امتحان دینے کا اہل ہوجاتا ہے۔ اس تحریری امتحان میں سو سوالات پر مشتمل 8 پرچے دینا ہوتے ہیں۔
کوئی بھی پائلٹ جو اس امتحان کو پاس کرلیتا ہے تو اس کو دیگر پریکٹیکل ٹیسٹ لینے کے بعد اے ٹی آر طیارے پر 50 گھنٹے کمانڈ پائلٹ کی تربیت دی جاتی ہے اور اس کے بعد وہ طیارے کے کاپٹ میں معاون پائلٹ کی دائیں والی نشست چھوڑ کر کپتان کے لیے مختص بائیں والی نشست پر بیٹھنے کا حقدار ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد سول ایوی ایشن پائلٹ کو ایئر لائن ٹرانسپورٹ لائسنس یعنی ATPL جاری کردیتی ہے اور یہی وہ لائسنس ہے جس کے بارے میں وفاقی وزیر شہری ہوا بازی غلام سرور خان کا کہنا ہے کہ یہ لائسنس جعلی ہیں۔
پاکستان میں پائلٹس کی تربیت کے لیے کوئی مقامی طور پر تیار کردہ نصاب موجود نہیں ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد پائلٹس کی تربیت کے لیے امریکی فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن (FAA) کے مرتب کردہ کورس کو اپنایا گیا تھا، جس کی بنیاد پر پورا تربیتی نظام مرتب کیا گیا۔
سال 2009ء تک یہی کورس لاگو رہا اور اس کے تحریری امتحانات سول ایوی ایشن میں ہوا کرتے تھے۔ پائلٹس کو یہ پرچے کاغذ پر حل کرنے ہوتے تھے جس کا نتیجہ ایک ہفتے میں ملتا تھا۔ اگر پائلٹ 70 فیصد تک نمبر لینے میں کامیاب ہوجائے تو اس کو پاس قرار دیا جاتا ہے جبکہ فیل ہونے کی صورت میں مزید ایک ماہ پڑھائی کے لیے دیا جاتا تھا۔
اپنے طور پر یہ نظام کامیابی سے چل رہا تھا۔ اب چونکہ پرچے پہلے سے نہیں بنائے جاتے تھے اس لیے پائلٹ کو بالکل بھی اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ اسے کن سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس پورے معاملے میں ہر سطح اور لائسنس کے پائلٹ کے لیے الگ الگ پرچے تیار کیے جاتے تھے۔
سال2010ء سے سول ایوی ایشن نے نہ صرف پائلٹس کی تربیت کے لیے بنیادی کورس میں تبدیلی کرتے ہوئے امریکی نصاب کے بجائے یورپی یونین کی ایوی ایشن سیفٹی کا تیار کردہ کورس متعارف کروا دیا بلکہ امتحانات کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کے ساتھ ساتھ سوالات کا مجموعہ یا Question Bank فراہم کردیا جس میں تقریباً 30 ہزار ایم سی کیوز ہیں موجود ہیں۔ بس یہی وہ موقع تھا جہاں سے شروع ہوا مشکوک یا جعلی لائسنس والا سلسلہ۔
یہ تبدیلی اس قدر اچانک تھی کہ فلائنگ اسکول کو نہ تو اپنے انسٹرکٹرز کو تربیت دینے کا موقع ملا اور نہ ہی پائلٹس کو، جو طویل عرصے سے امریکی کتابوں کو پڑھ رہے تھے اور پھر اچانک ان کو یورپی کتابوں کا پلندہ پکڑا دیا گیا۔ ایک اور پریشانی یہ ہوئی کہ جنہوں نے معاون پائلٹ کے لیے امریکی نصاب پر تربیت حاصل کی تھی اب کپتان بننے کے لیے انہیں یورپی نصاب کے تحت امتحان دینے پڑگئے، جس نے ان کے لیے کئی مسائل کو جنم دیا۔
ہاں لیکن اس نئے نظام سے سہولت یہ ہوئی کہ پائلٹ جیسے ہی ایک گھنٹے میں ایک سو سوالات کے جواب دے دیتا تو فوری طور پر ہی اس کو نتیجہ مل جاتا یعنی وہ پاس ہوا ہے یا فیل، اس کو معلوم کرنے میں کچھ بھی تاخیر نہیں ہوتی۔
اس نظام میں ایک اور تبدیلی یہ بھی آئی کہ سول ایوی ایشن نے فیل ہوجانے والوں کے لیے ایک ماہ تیاری کی شرط بھی ختم کردی اور اب وہ اگلے ہی گھنٹے دوبارہ امتحان میں پیش ہوسکتے ہیں، یعنی بس فیس بھرے جائیں اور امتحان دیے جائیں۔
اس کے ساتھ ساتھ امریکی نظام میں اگر کوئی پائلٹ ایک یا دو نمبر سے فیل ہوجاتا تو سول ایوی ایشن کے قانون کے تحت وہ زبانی امتحان دینے کا حق رکھتا تھا جس میں وہ سوالات کے جواب دے کر پاس ہوسکتا ہے۔ مگر اس نئے نظام میں جنریٹ کی گئی مارکس شیٹ میں وہ فیل ہی ہوگا۔
سول ایوی ایشن پاکستان کی جانب سے کاپی رائٹ ایکٹ کی بھی سنگین خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی جو کورس پائلٹس کو پڑھا رہی ہے اس کی اجازت باضابطہ طور پر یورپی یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجسی سے حاصل نہیں کی ہے۔
جن افسران نے اس کورس کو متعارف کرایا ہے انہوں نے کورس کی کتابیں اور ایم سی کیوز کا غیر قانونی استعمال شروع کردیا ہے۔ اگر سول ایوی ایشن نے اس کورس کو باضابطہ طور پر حاصل کیا ہوتا تو اس کورس سے لائسنس لینے والے کمرشل پائلٹس کو یورپ میں فلائنگ کی سہولت دستیاب ہوتی۔
سول ایوی ایشن نے یہ نظام چونکہ خود تیار نہیں کیا تھا اس لیے جس وقت اس نصاب کو اپنانے کا فیصلہ کیا گیا تو ساتھ ہی ایک پہلے سے تیار شدہ question bank یعنی سوالات کا مجموعہ حاصل کرلیا۔ جس میں 30 ہزار کے قریب سوالات کے جوابات موجود ہیں۔ ان سوالات، ممکنہ جوابات اور درست جواب کو مارک کر کے یہ سب کچھ ایک سافٹ ویئر کمپنی کے حوالے کردیا جس نے سول ایوی ایشن کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق فیڈنگ کرکے اس کو امتحانی سافٹ ویئر سے منسلک کردیا۔
اس پورے عمل میں چونکہ فلائنگ سے متعلق کوئی فرد شامل نہیں تھا اور نہ ہی اس کام کی نگرانی کسی پروفیشنل پائلٹ نے کی تو اس عمل میں ایسے جوابات پر درست مارک لگ گیا جو درست جواب نہیں تھے۔ اب اگر آپ درست جواب پر بھی مارک لگائیں تو کمپیوٹر اس کو غلط ہی مارک کرے گا۔
اس خامی کے بارے میں پائلٹس ایسوسی ایشن، ایئر لائنز اور فلائنگ اسکولز متعدد تحریری شکایات سول ایوی ایشن کو درج کرا چکے ہیں، مگر تاحال یہ غلطی دُور نہیں کی گئی ہے۔ جس کی وجہ سے اگر پائلٹ کو درست جواب معلوم بھی ہو تو وہ کمپیوٹر میں وہی غلط جواب منتخب کرنے پر مجبور ہے۔
اس خرابی کو دُور کرنا سول ایوی ایشن کے حکام کے بس میں ہے بھی نہیں کیونکہ انہوں نے یہ نظام خود تیار کیا نہیں ہے۔ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ جنہوں نے نیا نظام متعارف کرایا وہ بھی اس ٹیسٹ کو پاس کرنے کے اہل نہیں تھے اور یہ عمل بھی کرپشن کا دروازہ کھولنے کا سبب بنا۔
وفاقی وزیر غلام سرور خان کے جعلی لائسنس والے بیان کے بعد متعدد پائلٹس سے بات ہوئی تو ان کہنا تھا کہ بھائی جعلی نہیں مشکوک لائسنس کہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم میں سے جس کسی کے پاس بھی فلائنگ کا لائسنس ہے وہ سول ایوی ایشن کا جاری کردہ ہے۔ سول ایوی ایشن میں پائلٹس کا پرسنل ڈیپارٹمنٹ موجود ہے جہاں پائلٹس کا تمام ریکارڈ فلائنگ اسکول سے لے کر اب تک کی تاریخ کا محفوظ کیا جاتا ہے اور لائسنس کی تجدید کے لیے ہر 6 ماہ بعد پائلٹ کو سول ایوی ایشن کے متعلقہ شعبے میں ذاتی طور پر پیش ہونا ہوتا ہے۔ جس لائسنس کی ہر 6 ماہ تجدید ہورہی ہو تو وہ جعلی کیسے ہوسکتا ہے؟ کسی پائلٹ کے پاس موجود لائسنس فوٹو شاپ پر نہیں بنایا بلکہ امتحان پاس کرنے کے بعد سول ایوی ایشن کے ڈائریکٹر یا ڈی جی لائسنس کے اجراء کی منظوری دیتا ہے اور ہر لائسنس اسی طرح جاری ہوا ہے‘۔
مشکوک لائسنس کے بھی مختلف درجے ہیں۔
پہلا
سب سے پہلا مشکوک لائسنس وہ ہے جس میں پائلٹ کمپوٹرائزڈ مارکس شیٹ پر ایک یا دو نمبر سے فیل ہوگیا ہے اور اس کی فائل میں فیل ہونے کی مارکس شیٹ لگی ہے۔ حکام یہ مارکس شیٹ دیکھ کر ہی فیصلہ کرتے ہیں کہ لائسنس غلط جاری ہوا کیونکہ اس میں تو پائلٹ فیل ہوگیا ہے۔ مگر وہ اس کے زبانی امتحان کا نتیجہ ساتھ شامل نہیں کررہے جس میں انسٹرکٹر نے پائلٹ کو پاس کیا ہے۔
دوسرا
دوسری قسم کے مشکوک لائسنس وہ ہیں جس میں ایوی ایشن ڈویژن کا دعوٰی ہے کہ جس دن اس نے امتحان دیا اس دن وہ فلائٹ کیسے کررہا تھا؟ اس کے جواب میں پائلٹس کا کہنا تھا کہ امتحان ایک گھنٹے کا ہوتا ہے۔ جس کے بعد دن کے 23 گھنٹے باقی ہوتے ہیں۔ اس میں وہ پرواز کرسکتے ہیں اور ایوی ایشن نے ایسی کوئی شرط لاگو نہیں کی کہ امتحان والے دن پائلٹ فلائنگ نہیں کرسکتا ہے۔
تیسرا
تیسری قسم وہ ہے جو جعلی کے زمرے میں آسکتی ہے جس میں رشوت دے کر امتحان پاس کیا گیا ہو۔ اس کے لیے اس نظام کو وضع کرنے والے افراد نے بنیاد ہی سے گنجائش نکال لی تھی کہ کمپوٹرائزڈ نظام میں جوابوں کو غلط مارک کرادیا گیا جس سے درست جواب دینے والا بھی فیل ہو جاتا ہے۔ پائلٹ بار بار پیپر دینے سے جب تنگ آجاتا تو پھر سی اے اے کے اہلکار بھاری رشوت پر جعلی مارکس شیٹ کا اجراء کرتے ہیں۔ بس یہی ہے سب سے خطرناک عمل جس پر پائلٹس اور اس سے قبل سول ایوی ایشن کے عملے کی پکڑ ہونی چاہیے مگر افسوس کہ ایسا اب تک نہیں ہو پارہا ہے۔
دوسری طرف ایوی ایشن ڈویژن نے یہ سمجھے بغیر کے مشکوک اور جعلی میں فرق کیا ہے، اور تمام پائلٹس کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی کوشش کی اور یہی وہ غلطی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی ایوی ایشن صنعت کو دباؤ اور پریشانی کا سامنا ہے۔
پائلٹس کا کہنا ہے کہ جو فہرست بنی ہے اس میں اکثر پائلٹس کے ایک یا دو پیپرز کو مشکوک قرار دیا گیا ہے۔ اب اگر کسی نے کرپشن سے پاس ہی ہونا ہے تو وہ تمام پرچوں میں کیوں نہیں یہ کرپشن کرتا؟
حکومت نے پی آئی اے کے 141 پائلٹس کے لائسنس کو مشکوک یا جعلی قرار دیا ہے، مگر فہرست میں شامل 39 پائلٹس اب پی آئی اے کا حصہ ہی نہیں جب کہ کئی پائلٹس کے نام، ایمپلائی نمبر، سی اے اے ریفرنس نمبر بھی غلط درج ہیں۔
اس فہرست میں اے ٹی آر طیارہ حادثے میں انتقال کر جانے والے کیپٹن صالح جنجوعہ اور فرسٹ آفیسر منصور جنجوعہ کے نام بھی شامل ہیں۔ فہرست میں بعض ریٹائرڈ پائلٹس کے نام بھی شامل کیے گئے ہیں جب کہ حکومتی فہرست میں 4 پائلٹس ایسے بھی ہیں جن کے لائسنس ہائیکورٹ درست قرار دے چکی ہے۔
لائسنس سے متعلق غلام سرور خان کے بیان سے نہ صرف عالمی سطح پر پی آئی اے کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے بلکہ یہ عمل ایوی ایشن کے قوانین کی خلاف ورزی بھی ہے۔ کسی بھی پائلٹ کا لائسنس اگر مشکوک ہو تو اس کو اظہارِ وجوہ کا نوٹس جاری کیا جاتا ہے۔ جس کے بعد ضابطے کی کارروائی مکمل کی جاتی ہے۔
اگر ایوی ایشن حکام پائلٹ کے پیش کردہ جواب سے مطمئن ہوں تو لائسنس بحال رہتا ہے بصورتِ دیگر لائسنس کی جس طرح کی خلاف ورزی ہوتی ہے اس طرح کے جرمانے یا پھر عارضی معطلی کی جاسکتی ہے۔
جبکہ پائلٹ نے اگر جعل سازی کی ہو اور وہ ثابت ہوجائے تو پائلٹ کا لائسنس منسوخ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے خلاف قانونی کارروائی بھی کی جاسکتی ہے۔ مگر یہ کام سول ایوی ایشن اتھارٹی کو مکمل رازداری سے کرنا ہوتا ہے، نہ کہ عوامی سطح پر جعل سازی کا الزام لگا کر دنیا بھر میں رسوا کیا جائے۔
پاکستان میں سول ایوی ایشن کے قانون کے تحت اگر کوئی بھی فلائنگ کا طالب علم کمرشل پائلٹ لائسنس 200 گھنٹے کی فلائنگ کے ساتھ حاصل کرلیتا ہے تو اس کو کسی بھی ایئر لائن میں ملازمت مل سکتی ہے۔ مگر پی آئی اے کے علاوہ کسی بھی نجی ایئر لائن میں کیڈٹ پائلٹ کی بھرتی ہی نہیں کی جاتی، جس کی وجہ سے فلاننگ کلبز سے تربیت مکمل کرنے اور CPL رکھنے والے تقریباً 2ہزار سے زائد پائلٹس اس وقت ملک میں بے روزگار ہیں۔
پاکستان میں اس وقت 2 نجی ایئر لائنز ایئر بلیو اور سرین ایئر کام کررہی ہیں۔ جس میں سے ایک ایئر لائن فرسٹ آفیسر کی بھرتی کے لیے کم از کم 15 سو گھنٹے کی فلائنگ تجربے کی ڈیمانڈ کررہی ہیں، جس میں سے 200 گھنٹے ملٹی انجن ایئر طیارے پر تجربہ ہونا چاہیے اگر ایسا نہیں ہے تو پھر 500 گھنٹے جیٹ ایئر کرافٹ کی پرواز کی ہوئی ہو جبکہ دوسری ایئر لائن نے شرط کو نرم کرتے ہوئے کم از کم فلائنگ کو 1000 گھنٹے کردیا ہے۔
اس شرط پر تو کوئی کیڈٹ پائلٹ پورا اتر ہی نہیں سکتا ہے۔ سول ایوی ایشن جو اس صنعت کا ریگولیٹر ہے، وہ ایک طرف پائلٹس کو لائسنس جاری تو کرتا ہے، مگر ایئر لائنز میں بھرتی سے متعلق ان مسائل کو حل کرنے سے انکاری ہے جس کی وجہ سے لاکھوں روپے خرچ کرکے بھی نوجوان پائلٹس کی بڑی تعداد بے روزگار ہے۔
اس وقت ملک میں 10 سے زائد فلائنگ اسکول کام کررہے ہیں، جس میں سے کراچی میں 3، لاہور میں 4 جبکہ ملتان، فیصل آباد اور پشاور میں ایک ایک فلائنگ اسکول موجود ہیں۔ ان میں چند تو بہت پروفیشنل انداز میں آپریٹ ہورہے میں مگر بعض میں ریگولیٹری اور پیشہ ورانہ اخلاقیات کا کوئی خیال نہیں رکھا جارہا ہے، اور اس حوالے سے سول ایوی ایشن نے بھی آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ فیصل آباد میں کام کرنے والے فلائنگ اسکول کو لاہور کے ایک فلائنگ اسکول کے لائسنس پر آپریٹ کیا جارہا ہے۔
اکثر فلائنگ اسکولز میں 3 ماہ کی گراؤنڈ کلاسز کو تقریباً ختم کردیا گیا ہے اور بعض فلائنگ اسکولز نے فلائنگ انسٹرکٹرز کو ہی گراونڈ انسٹرکٹرز کا کام سونپ دیا، اور اسٹوڈنٹ پائلٹ کو مجموعہ سوالات کی سی ڈی یا یو ایس بی فراہم کردی ہے اور پائلٹ کو سمجھائے بغیر ہی رٹا لگوانا شروع کردیا۔ اس کا نقصان یہ ہورہا ہے کہ نوجوان اسٹوڈنٹ پائلٹ کے بنیادی تصور کو سمجھے بغیر ہی بس رٹے رٹائے جواب دینے کی تیاری کررہے ہیں۔
اس کے علاوہ بعض فلائنگ کلبز اسٹوڈنٹ پائلٹ کو فیک لاگنگ بھی کراتے ہیں۔ اگر ایک گھنٹے پرواز کا خرچہ 7 ہزار روپے ہے تو اسٹوڈنٹ سے 4 ہزار روپے لے کر فیک لاگنگ کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر فلائنگ اسکول کوئی مسافر پرواز بھی چارٹر کرتا تو اس کے دونوں پائلٹس اپنے لاگ بک میں فلائنگ کے گھنٹے تحریر کرتے ہیں۔ جبکہ قانون کے تحت صرف ایک پائلٹ وہ فلائنگ اپنی پرسنل لاگ بک میں درج کرسکتا ہے۔
کراچی میں پی آئی اے ٹریننگ سینٹر میں ایک فلائنگ اسکول کام کررہا ہے جس کو حرفِ عام میں پی آئی اے اکیڈمی کہا جاتا ہے۔ اس کے اسٹوڈنٹ پائلٹس کو جو بیج دیا جاتا ہے وہ بھی پی آئی اے کا ہوتا ہے۔ اس اکیڈمی میں داخلہ لینے والوں کو یہی تاثر دیا جاتا ہے کہ وہ پی آئی اے میں تربیت حاصل کررہے ہیں اور CPL لائسنس ملنے کے بعد انہیں پی آئی اے میں بھرتی کرلیا جائے گا۔ مگر دراصل اس اکیڈمی کا پی آئی اے سے کوئی تعلق ہے ہی نہیں۔
اس اکیڈمی کا نام شہید بے نظیر بھٹو فلائنگ اسکول ہے۔ جس نے پی آئی اے ٹریننگ سینٹر میں جگہ کرائے پر لے کر یہ اسکول قائم کیا ہے۔ جبکہ اس اسکول کی فلائنگ نواب شاہ سے ہوتی ہے۔ یہ اسکول نجی ملکیت میں ہے مگر نوجوانوں کو پی آئی اے کی جگہ کا دھوکہ دے کر بھاری فیس بھی وصول کی جارہی ہے۔
پاکستان میں ایوی ایشن کا ریگولیٹری ماحول مخدوش اور پرانا ہوچکا ہے۔ موجودہ حکومت کے آنے بعد اس نظام میں بہتری کی کوشش کی گئی ہے اور سول ایوی ایشن کی تنظیمِ نو کی جارہی ہے۔ مگر پائلٹس کے مشکوک لائسنس کے معاملے کو جس طرح سے طیارہ حادثے کے ساتھ جوڑا گیا ہے اس نے پاکستان کی شہری ہوا بازی کی صنعت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے اور اب طویل عرصے تک ملک اور قوم کو اس نقصان کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
یورپ کی فضاؤں میں پی آئی اے کی پروازوں کی بندش نے بڑی تعداد میں عمران خان کے سپورٹرز اور ووٹرز کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے۔ اب یورپ میں مقیم سمندر پار پاکستانیوں کو پاکستان آنے کے لیے براہِ راست کوئی پرواز دستیاب نہیں ہوسکے گی۔ سمندر پار پاکستانیوں کو مجبوراً غیر ملکی ایئر لائنز پر سفر کرنا ہوگا، جس کی وجہ سے پی آئی اے کے ٹکٹ کی مد میں پاکستان آنے والا زرِمبادلہ بھی اب پاکستان نہیں آسکے گا جبکہ پاکستانیوں کو مختلف ایئر پورٹس پر پروازیں بدلنے کی زحمت بھی اٹھانا پڑے گی۔
اس حوالے سے پیرس میں مقیم ایک سمندر پار پاکستانی سے بات ہوئی جو سفر کے لیے ہمیشہ پی آئی اے کا ہی انتخاب کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا کی ایئر لائنز کے بیچ جب وہ پاکستانی پرچم بردار طیارہ دیکھتے تھے تو سر فخر سے بلند ہوجاتا تھا۔ مگر اب پاکستانی پرچم یورپی فضاؤں اور ایئرپورٹ پر دیکھائی نہیں دے گا جس کا انہیں افسوس رہے گا۔ شاید یہ افسوس اور غم ہر پاکستان کے دل میں بھی موجود ہے۔
راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔