سندھ ہائیکورٹ: شوگر انکوائری رپورٹ کی کارروائی پر حکم امتناع میں توسیع
وفاق کے لا آفیسر نے سندھ ہائی کورٹ کو آگاہ کیا کہ شوگر انکوائری کمیشن سے متعلق معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سندھ ہائی کورٹ نے گزشتہ سماعت میں وفاقی حکام کو شوگر انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر سندھ کی 20 شوگر ملز کے خلاف 30 جون تک کارروائی سے روک دیا تھا۔
چنانچہ جسٹس عمر سیال کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے اس معاملے کی سماعت کی جس میں اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ حکام نے عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا ہے ساتھ درخواست کی کہ معاملے کو سپریم کورٹ کے حکم تک مؤخر کیا جائے۔
بعدازاں بینچ نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کرتے ہوئے حکم دیا کہ حکم امتناع آئندہ سماعت تک برقرار رہے گا۔
یہ بھی پڑھیں: شوگر کمیشن رپورٹ پر سندھ ہائی کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج
26 جون کو میرپور خاص شوگر ملز اور صوبے کی دیگر 19 ملوں نے چینی کی ذخیرہ اندوزی اور قیمتوں میں اضافے کے خلاف مرتب کی گئی انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا اور رپورٹ کو کالعدم قرار دینے کی درخواست کی تھی۔
درخواست گزار مخدوم علی خان نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ کمیشن متعلقہ قوانین کے مطابق صحیح طور سے تشکیل نہیں دیا گیا تھا اور اس میں وہ اراکین شامل ہیں جو پہلے ہی شوگر ملز کے خلاف اپنا ذہن بنا چکے ہیں کہ کیوں کہ وہ اس مقصد کے لیے اس سے قبل بنائے گئے کمیشن کا بھی حصہ تھے۔
وکیل نے مزید اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ تحقیقات کے دوران درخواست گزاروں میں سے کسی سے بھی ان کی ملوں کے کام کے طریقہ کار اور کاروبار کے بارے میں معلومات یا وضاحت طلب نہیں کی گئی اور کمیشن نے ان کے خلاف فیصلہ سنا دیا جس سے درخواست گزاروں کی ساکھ اور ان کے کاروبار پر برا اثر پڑا۔
جس پر عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ قابل وکیل کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات قابل غور ہیں اور ساتھ ہی وفاقی حکومت کو 30جون تک تحقیقاتی رپورٹ پر عملدرآمد سے روک دیا تھا۔
مزید پڑھیں:شوگر کمیشن کیس:اٹارنی جنرل کی ملز مالکان کیخلاف منصفانہ، غیر جانبدار کارروائی کی یقین دہانی
جس کے بعد وفاقی حکام نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف 28 جون کو سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
یاد رہے کہ اس سے قبل جب یہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش کیا گیا تھا س وقت وہاں سے بھی شوگر انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر عمل درآمد پر حکم امتناع جاری کیا گیا تھا۔
تاہم 20 جون کو ہائی کورٹ نے حکم امتناع خارج کرتے ہوئے کہا تھا کہ انکوائری کمیشن کی تشکیل کو قانونی اوراس کی رپورٹ اور کارروائی کو درست قرار دے دیا تھا۔
چینی بحران کی تحقیقات اور کارروائی کا معاملہ
یاد رہے کہ ملک میں چینی کے بحران کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی نے 4 اپریل کو اپنی رپورٹ عوام کے سامنے پیش کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ چینی کی برآمد اور قیمت بڑھنے سے سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کے گروپ کو ہوا جبکہ برآمد اور اس پر سبسڈی دینے سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا تھا۔
دستاویز کے مطابق سال 17-2016 اور 18-2017 میں چینی کی پیداوار مقامی کھپت سے زیادہ تھی اس لیے اسے برآمد کیا گیا۔
واضح رہے کہ پاکستان میں چینی کی سالانہ کھپت 52 لاکھ میٹرک ٹن ہے جبکہ سال 17-2016 میں ملک میں چینی کی پیداوار 70 لاکھ 80 ہزار میٹرک ٹن ریکارڈ کی گئی اور سال 18-2017 میں یہ پیداوار 66 لاکھ 30 ہزار میٹرک ٹن تھی۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ نے حکومت کو شوگر کمیشن کی رپورٹ پر عمل درآمد سے روک دیا
تاہم انکوائری کمیٹی کی تحقیقات کے مطابق جنوری 2019 میں چینی کی برآمد اور سال 19-2018 میں فصلوں کی کٹائی کے دوران گنے کی پیدوار کم ہونے کی توقع تھی اس لیے چینی کی برآمد کا جواز نہیں تھا جس کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ برآمد کنندگان کو 2 طرح سے فائدہ ہوا، پہلا انہوں نے سبسڈی حاصل کی دوسرا یہ کہ انہوں نے مقامی مارکیٹ میں چینی مہنگی ہونے سے فائدہ اٹھایا جو دسمبر 2018 میں 55 روپے فی کلو سے جون 2019 میں 71.44 روپے فی کلو تک پہنچ گئی تھی۔
بعدازاں حکومت چینی بحران پر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی تحقیقاتی رپورٹ کا فرانزک آڈٹ کرنے والے کمیشن کی حتمی رپورٹ 21 مئی کو سامنے لائی تھی جس کے مطابق چینی کی پیداوار میں 51 فیصد حصہ رکھنے والے 6 گروہ کا آڈٹ کیا گیا جن میں سے الائنس ملز، جے ڈی ڈبلیو گروپ اور العربیہ مل اوور انوائسنگ، دو کھاتے رکھنے اور بے نامی فروخت میں ملوث پائے گئے۔
اس حوالے سے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے بتایا تھا کہ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق اکاؤنٹنگ کی مد میں فراڈ ہوا ہے اور گنے کی خریداری میں انڈر رپورٹنگ کی جارہی ہے، پاکستان میں جتنا گنا پیدا ہوتا ہے اور جتنی چینی پیدا ہوتی ہے اور جتنی فروخت ہوتی ہے اس میں 25 سے 30 فیصد کا فرق آرہا ہے۔
مزید پڑھیں: چینی بحران رپورٹ: 'جہانگیر ترین، مونس الہٰی،شہباز شریف فیملی کی ملز نے ہیر پھیر کی'
شہزاد اکبر نے کہا تھا انکوائری کمیشن کو مل مالکان کی جانب سے 2، 2 کھاتے رکھنے کے شواہد ملے ہیں، ایک کھاتہ سرکاری اداروں جیسا کہ ایس ای سی پی، ایف بی آر کو دکھایا جاتا ہے اور دوسرا سیٹھ کو دکھایا جاتا ہے جس میں اصل منافع موجود ہوتا ہے۔
معاون خصوصی نے کہا تھا کہ انکوائری کمیشن کے مطابق اس وقت ملک میں شوگر ملز ایک کارٹیل کے طور پر کام کررہی ہیں اور کارٹیلائزیشن کو روکنے والا ریگولیٹر ادارہ مسابقتی کمیشن پاکستان اس کو روک نہیں پارہا، 2009 میں مسابقتی کمیشن نے کارٹیلائزیشن سے متعلق رپورٹ کیا تھا جس کے خلاف تمام ملز مالکان میدان میں آگئے تھے۔
شہزاد اکبر نےمزید کہا تھا کہ سب سے بڑا گروپ جے ڈی ڈبلیو ہے جن کا چینی کی پیداوار میں 20 فیصد کے قریب حصہ، آر وائے کے کا 12فیصد، المعیذ گروپ کا 6.8 فیصد، تاندیا والا کا 5 فیصد، شریف گروپ کا 4.5 فیصد اور اومنی گروپ کا 1.6 فیصد حصہ ہے۔
معاون خصوصی نے بتایا تھا کہ جے ڈی ڈبلیو شوگر مل میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کے رہنما جہانگیر ترین کے 21 فیصد حصص ہیں، علی خان ترین کے 13 فیصد، احمد محمود صاحب کے 26 فیصد شیئرز ہیں اور یہ واحد کمپنی ہے جس میں 24 فیصد شیئر عوام کا ہے، انہوں نے کہا کہ جے ڈی ڈبلیو نے 2 کھاتے رکھے تھے، اوور انوائسنگ اور انڈر رپورٹنگ بھی پائی گئی۔
چنانچہ 7 جون کو وزیر اعظم عمران خان نے شوگر کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں چینی اسکینڈل میں ملوث افراد کے خلاف سفارشات اور سزا کو منظور کرتے ہوئے کارروائی کی ہدایت کی تھی۔