نیویارک جینوم سینٹر اور نیویارک یونیورسٹی کے جینیاتی ماہر نیویلی سنجنا یہ جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ کونسے جینز نئے کورونا وائرس کو انسانی خلیات متاثر کرنے کی صلاحیت دیتے ہیں۔
لیکن ووہان میں ایک ابتدائی کیس کے جینیاتی سیکونس پر تجربات کے دوران انہیں یہ جاننے میں مشکلات کا سامنا ہوا کہ وائرس کی کونسی قسم خلیات کو متاثر کرتی ہے۔
جس کے بعد ٹیم نے اپنی توجہ اس وائرس کی جی قسم پر مرکوز کی۔
انہوں نے بتایا 'ہم شاک رہ گئے،درحقیقت اس کے نتیجے میں یہ وائرس تیزی سے پھیلا، ہم نے اس تجربے کو مختلف اقسام کے خلیات پر دہرایا اور ہر بار یہ قسم پہلے سے زیادہ متعدی ثابت ہوئی'۔
سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ کورونا وائرس میں آنے والی تبدیلیوں کی شناخت سے اس کے پھیلاؤ کو ٹریک کیا جاسکتا ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی اور براڈ انسٹیٹوٹ کے بائیولوجسٹ پیڈریز سیبتی کا کہنا تھا کہ وائرس کے پھیلاؤ کو سمجھنا کوئی جادوئی گولی نہیں، مگر ا سے ہمیں اپنے ردعمل کو بہتر کرنے میں مدد ملے گی، یہ وقت کے خلاف دوڑ ہے۔
اس سے قبل رواں ماہ اسکریپرز ریسرچ انسٹیٹوٹ کی تحقیق میں بتایا گیا کہ نئے کورونا وائرس کے جینیاتی نظام میں اس طرح تبدیلیاں آئی ہیں جس سے وہ مزید طاقتور ہوگیا ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ کورونا وائرس میں کس قسم کی تبدیلیاں آچکی ہیں، مگر یہ تبدیلیاں ممکنہ طور پر وضاحت کرسکتی ہیں کہ وائرس سے دنیا بھر میں اب بھی اتنے زیادہ لوگ متاثر کیوں ہورہے ہیں۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ وائرس کے اسپائیک پروٹین میں جینیاتی تبدیلیاں آئی ہیں، یہ وائرس کی وہ اوپری ساخت ہے جس کو وہ انسانی خلیات میں داخل ہونے کے لیے استعمال کرتا ہے۔
اگر نتائج ثابت ہوگئے تو یہ پہلی بار ہوگا کہ جب کسی نے اس وبا کے دوران وائرس میں تبدیلیاں ثابت کی ہیں۔
محققین نے کہا کہ جینیاتی تبدیلیوں کے بعد وائرسز زیادہ متعدی ہوجاتے ہیں۔
یہ تحقیق اس وقت سامنے آئی ہے جب رواں ہفتے ہی عالمی ادارہ صحت نے کہا تھا کہ نئے کورونا وائرس میں جو تبدیلیاں اب تک دیکھی گئی ہیں وہ اس وقت تیار ہونے والی ویکسینز کی افادیت کو متاثر نہیں کریں گی۔
گزشتہ ہفتے عالمی ادارے نے کہا تھا کہ وائرس کی اقسام بننے سے وہ زیادہ آسانی سے پھیلے گا نہیں اور نہ ہی لوگوں کو سنگین حد تک بیمار کرسکے گا۔
اس نئی تحقیق میں محققین نے لیبارٹری میں تجربات کے دوران ثابت کیا کہ ڈی 614 جی نامی میوٹیشن سے وائرس میں اسپائیک یا کانٹے بڑھ گئے اور یہ زیادہ مستحکم بھی ہیں، جس سے اس کے لیے خلیات میں داخل ہونا زیادہ آسان ہوگیا ہے۔
اس تحقیق کو ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں کیا گیا بلکہ پری پرنٹ سرور BioRxiv میں شائع کیا گیا یعنی ابھی اس پر دیگر ماہرین نے نظرثانی نہیں کی۔
تاہم محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے وضاحت ہوتی ہے کہ امریکا اور لاطینی امریکی ممالک میں یہ وائرس اتنی آسانی اور تیزی سے کیوں پھیل رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بہت اہم ہے کیونکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وائرس تبدیل ہورہا ہے اور تبدیلیوں کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کررہا ہے، اس نے انسانی کلچر میں مطابقت کے لیے کافی زبردست کام کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جنوری کے وسط میں ایک تبدیلی آئی جس نے وائرس کو مزید متعدی بنایا، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ زیادہ جان لیوا ہے، مگر یہ پہلے کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ متعدی ہوچکا ہے۔
دیگر تحقیقی رپورٹس میں بھی ایسا خیال پیش کیا گیا تھا اور لاس آلموس لیبارٹری کی اپریل میں سامےن آنے والی ایک تحقیق میں اس میوٹیشن کو ڈی 614 جی کا نام دیتے ہوئے تشویش کا باعث قرارا دیا تھا کیونکہ یہ یورپ اور امریکا میں سب سے عام قسم بن گیا تھا۔
تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ یہ فروری کے آغاز میں یورپ میں پھیلنا شروع ہوا اور جب نئے خطوں میں پہنچا تو بہت تیزی سے بالادست قسم بن گیا۔
مگر محققین نے اس وقت کہا تھا کہ مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ ثابت کیا جاسکے کہ وائرس میں یہ تبدیلی کسی حادثے کے باعث سب سے عام قسم نہیں بن گئی۔