نقطہ نظر

کورونا کے دوران دبئی میں گزرنے والے دن اور رات!

مالی مشکلات کے باوجود کورونا سےلڑنے والے ڈاکٹروں کو 10، 10 سال کے ویزے جاری کیے گئےاور فرنٹ لائن پر لڑنے والوں کو بونس بھی دیے گئے

جب ہم دبئی کے لیے پاکستان سے روانہ ہو رہے تھے اس وقت تک پاکستان میں 300 سے زائد اور متحدہ عرب امارات میں تقریباً ڈیڑھ سو کورونا کے کیس سامنے آچکے تھے۔ 18 مارچ کی سہہ پہر دبئی ایئرپورٹ پر اترے تو ہر وقت مختلف رنگ و نسل کے مسافروں سے بھرا رہنے والا دبئی ایئرپورٹ بھائیں بھائیں کر رہا تھا۔

جہاز سے نکلنے کے بعد ایئرپورٹ لاؤنج لے جانے والی میٹرو کے دروازے تک پہنچنے میں ایک منٹ کا وقت لگ جاتا ہے، عموماً ان 60 سیکنڈوں میں 3 سے 4 پروازوں کے لوگ میٹرو کے سامنے اکھٹے ہوجایا کرتے ہیں۔ تاہم اس روز میٹرو کے سامنے صرف ہماری فلائٹ کے مسافر تنہا مرزا یار کی طرح کھڑے تھے۔

تھرمل اسکینر کے ذریعے مسافروں کا بخار چیک ہو رہا تھا اور ہم پاکستان کے برخلاف خالی لاؤنج اور گیلریوں سے بغیر کسی رکاوٹ یا کوئی فارم پُر کیے باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔

قرنطینہ کا عام مسافروں کے لیے ابھی تک کوئی باضابطہ نظام موجود نہیں تھا البتہ دفاتر چھٹیوں سے واپس آنے والے اپنے ملازمین سے گھروں میں آئسولیشن کا عرصہ گزارنے پر زور دے رہے تھے۔

سناٹے سے گِھرے ایئرپورٹ میں ویزا کنٹرول پر بیٹھے محض ایک یا دو افسران ہی اپنی ذمہ داریاں انجام دے رہے تھے۔ جس پرواز سے ہم دبئی پہنچے وہ دبئی آنے والی آخری پروازوں میں سے ایک تھی کیونکہ 24 مارچ تک دبئی ایئرپورٹ ہر فلائٹ کے لیے بند کردیا گیا تھا۔

مارچ کے آخری دنوں میں تقریباً 80 فیصد نجی شعبوں کے ملازمین کا کام دفاتر سے گھر منتقل کردیا گیا تھا۔ اسکول اور کالج آن لائن کلاسوں کا آغاز کرچکے تھے۔ مارچ کے ختم ہوتے ہوتے متحدہ عرب امارات میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد 664 کے ہندسے کو چُھو رہی تھی۔

26 مارچ سے 'سینیٹائزنگ لاک ڈاؤن' کا آغاز ہوا جسے صرف 3 دن کے لے رات 8 بجے سے صبح 6 تک کے لیے نافذ کیا گیا۔ ان 3 راتوں میں شہر کی ہر گلی اور ہر حصے کو جراثیم سے پاک کیا جا رہا تھا۔ رات 8 کے بعد شہر میں ٹریفک بند ہوجاتی، اور بغیر پرمٹ کے گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں تھی، جبکہ خلاف ورزی کرنے پر بھاری جرمانے عائد کیے جاتے۔ ٹریفک کنٹرول کمپیوٹرائزڈ ہونے کی وجہ سے قانون کی خلاف ورزی کرنے والا کوئی بھی شخص بچ کر نکل نہیں سکتا تھا۔ سڑکوں پر صرف پولیس یا سینیٹائزنگ کے کام پر مامور افراد کی گاڑیاں ہی نظر آتی تھیں یا پھر ہوم ڈیلیوری بوائز دیکھے جاسکتے تھے۔

ہوم ڈیلیوری بوائز وہ مخلوق تھی جن کے روزگار میں ان دنوں بھرپور اضافہ ہوا۔ ہوم ڈیلیوری کی طلب خوب بڑھی جبکہ دیگر تقریباً تمام پیشہ ور افراد تو جیسے اپنی اہمیت ہی کھو چکے تھے۔

3 دن کا یہ سینیٹائزنگ پروگرام سانپ کی آنت بن کر پھیل گیا اور 24 گھنٹوں کے لاک ڈاؤن میں بدل گیا۔ پھر اگلے 30 دنوں میں مشرقِ وسطیٰ میں سخت ترین لاک ڈاؤن کرنے والی ریاستوں میں دبئی سرِفہرست آگیا جہاں ہر کاروبار بند تھا اور لوگ بغیر قانونی اجازت کے گھروں سے نکل نہیں سکتے تھے۔

6 اپریل تک امارات میں مریضوں کی تعداد 2 ہزاز 76 ہوچکی تھی۔ چند مخصوص شعبوں کے علاوہ اکثر دفاتر نے ملازمین کو گھر سے آن لائن کام کرنے کی ہدایت دے دی۔

تعمیراتی کمپنیاں اگرچہ کھلی تھیں مگر تعمیرات سے جڑا کام کافی حد تک رُک چکا تھا۔ تعمیراتی سائٹ پر صبح شام بخار چیک کرنے کا عمل جاری تھا، اور ایک بھی مریض نکلنے کی صورت میں پوری کی پوری سائٹ کو بند کردیا جاتا۔

جو محدود دفاتر اور سپر مارکیٹیں کھلی تھیں وہاں داخلے سے پہلے ہر شخص کا چیک اپ کیا جا رہا تھا، ہر اسٹور کے داخلی حصے اور ہر کاؤنٹر پر سینیٹائزر اور دستانے رکھے گئے تھے۔ سپر مارکیٹوں میں استعمال سے پہلے اور استعمال کے بعد ہر ٹرالی پر اسپرے کیا جاتا۔ قطار بنانے کی ہر جگہ پر 8 فٹ کے فاصلے پر نشان لگ چکے تھے۔

لیکن حیرانی کی بات یہ تھی کہ سخت ترین لاک ڈاؤن میں لوگ گھروں تک محدود ہوچکے تھے مگر اس کے باوجود کورونا کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہو رہا تھا۔ عوام کے دماغوں پر کورونا سوار ہوچکا تھا اور احتیاطی تدابیر پر عمل کرتے کرتے لوگوں کے اعصاب شل ہوچکے تھے۔ یہ سچ ہے کہ لوگ کورونا سے اس قدر ڈر چکے تھے کہ نیندوں سے سکون تک رخصت ہوچکا تھا۔

دبئی میں اس قدر خوف کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ یہاں آزاد میڈیا نام کی کوئی شے موجود نہیں، چنانچہ سرکاری بیانیے کو چیلنج یا ان پر مناظرہ کرنے کا تصور ناپید اور عوام کے پاس پک اینڈ چوز کا کوئی آپشن دستیاب نہیں۔ سازشی نظریات اور افواہیں یہاں بھی سرگرم رہیں مگر ان کا مرکز فائیو جی ٹاورز رہے، قہوے اور جوشاندے نہیں۔

یکم رمضان تک سخت لاک ڈاؤن نافذ رہا۔ سنیما، باغ، ساحلِ سمندر، کھیل کے میدان، سیلون سب کے سب بند تھے۔

گھر کا کوئی ایک فرد ہی اپنے اہل خانہ کے لیے ضروری خریداری کرسکتا تھا۔ مالز جو یہاں کی زندگی کا ایک بنیادی عنصر ہیں، مکمل طور پر بند تھے مگر انٹرنیٹ کا وسیع ترین اور تیز ترین وجود ہونے کی وجہ سے آن لائن کاروبار راتو رات چمک اٹھا تھا۔

آن لائن شاپنگ مراکز پر ورک لوڈ کی وجہ سے خریداروں کو 2، 2 ماہ کی تاخیر سے سامان پہنچانے کا وعدہ کیا جاتا۔ شام ہوتے ہی لوگ بالکونی میں بیٹھ جاتے اور اماراتی ملی نغمے گاتے، سڑکوں پر پولیس گاڑیوں اور گھوڑوں پر پھرتی۔ گھر سے باہر نکلنے اور پابندی کی خلاف ورزی کرنے والوں پر بھاری جرمانے عائد کیے جاتے۔

قانون پر عمل کروانے کے لیے پولیس ناکے لگا کر شہریوں کو مرغہ نہیں بناتی تھی بلکہ جرمانوں کا خوف خودبخود ان کو گھر تک محدود رکھنے پر مجبور رکھتا تھا کہ ایک بار جو جرمانہ ہوگیا اسے بھرنے کے سوا دوسری کوئی صورت نہیں تھی۔

تارکینِ وطن کی ایک بڑی اکثریت معمولی سی غفلت پر 3، 4 یا 5 ہزار درہم کا جرمانہ ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتی اور جو تھوڑے سے امیر مقامی اماراتی یہ عیاشی کرسکتے تھے ان کو پکڑنے کے لیے قانون کا شکنجہ ہمیشہ کی طرح فعال تھا۔

لاک ڈاؤن کے کھلنے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا تھا۔ لوگ ترانے گاتے گاتے اور بالکنیوں میں بیٹھے بیٹھے تھک چکے تھے۔ ہلکی پھلکی واک تک کے لیے بھی گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔ بڑے بڑے ہوٹلوں اور ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی عمارتیں قرنطینہ مراکز میں بدل چکی تھیں۔ عوامی ٹرانسپورٹ اور میٹرو کی سروسز بند تھیں۔ ٹیکسی میں مسافر اور ڈرائیور کے بیچ شیشے لگ رہے تھے، ہر ہسپتال کے استقبالیے اور کاؤنٹر پر بھی شیشے نصب کیے جانے لگے اور ہسپتالوں کا عملہ حفاظتی کٹ میں ملبوس ہوچکا تھا۔

کاروبارِ زندگی کے ٹھہرنے کے ساتھ گھروں میں گاڑیاں بھی بے حرکت رہیں شاید اسی لیے ہر گزرتے دن کے ساتھ آسمان اجلا ہوتا جا رہا تھا۔ برج خلیفہ کی روشنیاں دُور دُور سے دکھائی دینے لگی تھیں۔

لیکن اس لاک ڈاؤن کا سب سے منفی پہلو یہ تھا کہ لوگوں کو دھڑا دھڑ ملازمتوں سے فارغ کیا جارہا تھا اور جو افراد بحال رہے ان کی تنخواہوں میں کمی کی گئی۔ وسیلہ روزگار نہ ہو تو دبئی جیسے مہنگے شہر میں ایک انسان مہینہ بھر تو کیا 2 دن بھی نہیں رہ سکتا۔

پردیسی اپنے اپنے ملکوں سے مطالبہ کرنے لگے تھے کہ انہیں جلد از جلد یہاں سے نکالا جائے۔ کھانے پینے، گھروں کے کرایے، پیٹرول، بجلی، ڈاکٹر و دیگر ضروری اشیا و خدمات کے لیے درہم چاہئیں مگر اب ملازمتیں، کاروبار، یوں کہیے کہ آمدن کا ہر ذریعہ ہاتھوں سے جا رہا تھا مگر وطن واپسی کی بھی کوئی راہ نہ سوجھتی کہ ساری دنیا میں فضائی سفر تعطل کا شکار ہوچکا تھا۔

حکومت اپنی جگہ حسبِ توفیق مدد کر رہی تھی۔ مستحق طبقے کو خوراک کی فراہمی کی کوششیں جاری تھیں۔ ان دنوں منسوخ یا تنسیخ کے قریب ویزوں میں دسمبر تک توسیع دی گئی، قرض داروں کو قرض کی ادائیگی میں 3 ماہ کی چھوٹ دی گئی، ایک چھوٹے طبقے کی جانب سے گھروں اور دفاتر کے کرایے بھی معاف کیے۔ کورونا سے لڑنے والے ڈاکٹروں کو تو 10، 10 سال کے ویزے جاری کردیے گئے اور فرنٹ لائن پر موجود افراد کو بونس بھی دیے گئے۔

رمضان کے آغاز پر لاک ڈاؤن محدود کرتے ہوئے بازاروں کو صبح 6 سے رات 10 تک کھول دیا گیا اور عوام کو باہر نکلنے کی تھوڑی بہت اجازت بھی مل گئی تاکہ لوگ ڈھنگ سے روزے رکھ سکیں۔ مگر یہ نرمی بہت سارے نئے احتیاطی قوانین اور سزاؤں کے تعین کے بعد کی گئی تھی۔ عوام کی رہنمائی کے لیے مکمل طور پر فعال ٹیلی فون لائنز اور واٹس اپ نمبر مہیا کیے گئے تاکہ عوام کو فوری اور باآسانی رہنمائی مل سکے۔

اگرچہ شہریوں کو سڑک پر واک کی اجازت دے دی گئی تھی لیکن مساجد، سنیما، پارک، جم اور بارز جیسے عوامی مقامات مکمل بند رہے۔ حیرت انگیز طور پر پارکوں کے گرد اور سڑکوں پر واک اور سائیکلنگ کرنے والوں کی تعداد عام دنوں کے مقابلے میں دُگنی ہوچکی تھی۔

قوتِ مدافعت بڑھانے کی خاطر عوام کی بڑی تعداد ماہِ صیام کے باوجود روزانہ چہل قدمی اور ورزش کے لیے نکلنے لگی تھی، لیکن اس مبارک مہینے میں بھی مساجد نماز، جمعہ، تراویح اور اعتکاف سمیت ہر قسم کے اجتماعات کے لیے بند رہیں اور ابھی تک بند ہیں۔

ریسٹورینٹ اور قہوہ خانوں میں بیٹھنے کی جگہیں محدود اور درمیانی فاصلہ بڑھا کر انہیں کھول دیا گیا جبکہ ہوم ڈیلیوری کے لیے تمام ریسٹورینٹ 24 گھنٹے کھلے رہے۔ رمضان کے ساتھ مالز کھولے گئے مگر اس طرح کہ تمام مقامات کے داخلی دروازوں پر تھرمل اسکینر نصب کیے گیے جبکہ 12 برس سے کم عمر بچوں اور 60 برس سے زائدالعمر افراد کا داخلہ ممنوع قرار پایا۔

عام گنجائش کی نسبت صرف 30 فیصد لوگوں کو 3 گھنٹوں کے لیے مالز میں شاپنگ کرنے کی اجازت تھی۔ ہر اسٹور میں صارفین کی گنجائش محدود کردی گئی تھی۔

افطار کے خیمے اس خطے کی حکومتوں اور معاشرے کا ایک اہم خاصہ ہیں جہاں لوگوں میں مفت افطار کا انتظام کیا جاتا ہے تاہم اس بار یہ سرگرمی مکمل طور پر بند رہی۔ سرکاری افطار کی تقسم کا عمل نئے انداز سے واک اِن بنا کر مناسب فاصلے سے انجام دیا گیا۔

جرمانے پہلے کے مقابلے میں دگنے کردیے گئے تھے تاکہ افطاری لینے والوں اور شاپنگ کرنے والوں کا رش قابو سے باہر نہ ہوجائے۔ امارات میں رمضان میں مالز، ریسٹورینٹ اور قہوہ خانے ساری رات کھلے رکھنے کی روایت ہے کہ یہ وہ واحد مہینہ ہے جس میں عوام ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے ہیں۔

پاکستان کی طرح یہاں بازار 12 بجے تک بند نہیں رہتے بلکہ عام مہینوں میں گروسری اور سپر مارکیٹیں صبح 8 بجے کھل جاتی ہیں اور رمضان میں تو 24 گھنٹے کھلے رکھنے کی روایت ہے۔ اسی روٹین کو دھیان میں رکھتے ہوئے اس بار احتیاطی تدابیر کے طور پر خریداری کے مراکز اور ریسٹورینٹ کو رات 8 بجے سے اگلی صبح 10 بجے تک بند رکھنے کی ہدایت دی گئی یعنی پیک آورز پر مکمل لاک ڈاؤن تھا۔

گھروں میں افطار پارٹیوں سے لے کر ہمسائے میں افطار بھیجنے تک ہر چیز پر پابندی تھی البتہ قریبی خاندان کے محض چند افراد کی مہمان نوازی کی اجازت تھی۔ سینیٹائزنگ، اسپرے اور زیادہ سے زیادہ ٹیسٹنگ اور ڈرائیو وے ٹیسٹنگ کا عمل بھرپور انداز میں جاری رہا۔ ان تمام تر قوانین کی جس شدت سے پابندی کی جا رہی تھی پاکستان میں اس کی سوچ بھی ناممکن ہے۔ قوانین کی خلاف ورزیوں کے کیسز آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں تھے۔ مگر کورونا کے کیس اس قدر سخت قواعد و ضوابط کے باوجود بھی بڑھ رہے تھے اور اپریل کے آخر تک 27 ہزار ٹیسٹ ہوچکے تھے جس کے نتیجے میں 12 ہزار سے زائد مریض سامنے آچکے تھے۔

لیکن اگر کوئی یہ سوچ رہا تھا کہ عید پر لاک ڈاؤن سے آزادی ملنے والی ہے تو یہ اس کی خام خیالی تھی کہ عید کے 3 دن لاک ڈاؤن کے اوقات میں 3 گھنٹے کا مزید اضافہ کرکے جرمانے بڑھا دیے گئے تھے۔ نمازِ عید گھروں پر ہی ادا کی گئی۔ میل ملاقات پر مکمل پابندی رہی، خلاف ورزی کی صورت میں مہمان اور میزبان دونوں پر الگ الگ بھاری جرمانہ لگایا جاتا۔ یعنی جب جب رمضان اور عید پر حکومت کو عوامی اجتماعات اور پارٹیوں کا خطرہ محسوس ہوا تب تب پہلے سے زیادہ سخت پابندیاں عائد کی گئیں اور بھاری جرمانوں کا اعلان کیا گیا۔ ایسا نہیں تھا کہ عوام کو عید کے کپڑے خریدنے ہیں تو یکدم سارا لاک ڈاؤن ختم کردو۔

یہ 2 ماہ کا سخت ترین لاک ڈاؤن یقیناً عوام کے لیے کسی سخت آزمائش سے کم نہیں تھا کیونکہ یہاں لوگوں کی اکثریت ون، ٹو یا تھری بیڈ روم، یا پھر اسٹوڈیو اپارٹمنٹس تک محدود رہی۔ محرومیوں کے شکار تارکینِ وطن کے ذہنی تناؤ کی کیفیت کیسی ہوگی کہ جن کے لیے فقط گھر سے باہر نکلنا ہی تفریح کا سبب ہوتا تھا۔

اس دوران دیہاڑی دار طبقے کی اکثریت بے روزگار ہوچکی تھی اور صرف بھارت کے ایک لاکھ افراد اپنے چھوٹے بڑے روزگار سے فارغ کردیے گئے تھے۔ ذریعہ آمدن نہ ہونے کے سبب لوگوں کے پاس گھروں کے کرایوں کی ادائیگی، اشیائے خور و نوش کی خریداری اور طبّی اخراجات پورے کرنے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ ان دنوں پاکستان کے ایک ایسے خاندان سے متعلق بھی خبر سامنے آئی جو ملازمت سے محرومی کے بعد پارکوں میں سونے پر مجبور تھا۔ جب یہ خبر ایک مقامی اخبار میں شائع ہوئی تو حکومت کی طرف سے انہیں رہائش مہیا کی گئی۔

مئی کے آخر تک کیسوں کی تعداد 33 ہزار سے تجاوز کرگئی تھی۔ اگرچہ دبئی کی کوششیں اور محنت دنیا کی بہترین کاوشوں میں شمار ہورہی تھیں اور اسی وجہ سے کیسوں کی شرح میں کچھ کمی تو دیکھنے میں آئی لیکن مکمل ضابطہ ممکن نہ ہوسکا تھا۔

ابھی تک کسی کو خبر نہیں تھی کہ لاک ڈاؤن کب ختم ہوگا مگر عید کے بعد کچھ نئے اصولوں و ضوابط کے ساتھ دبئی میں لاک ڈاؤن مرحلہ وار ختم کرکے ہوٹلوں، سنیماؤں، مارکیٹوں، مالز، انٹرٹینمنٹ زون اور ساحلِ سمندر کو شہریوں کے لیے کھول دیا گیا۔

مساجد اور اسکول تاحال بند ہیں۔ گھر سے کام کرنے والا عملہ اب دفاتر میں واپس آچکا ہے۔ دبئی کے مالز میں 100 فیصد گنجائش کی اجازت دی جاچکی ہے۔ شہریوں کو ایک سے دوسری ریاست جانے کی فی الحال اجازت نہیں دی گئی۔ 4 ماہ کے عرصے کے دوران پورے ملک میں 20 لاکھ ٹیسٹ کیے جاچکے ہیں اور کم سے کم 24 مقامات پر ڈرائیو تھرو ٹیسٹنگ کے انتظامات کیے گئے ہیں۔

شہر بھر کے ریسٹورینٹ اپنے آدھے میز اور کرسیاں و صوفے الٹا کیے ابھی تک حالات بہتر ہونے اور اجازت ملنے کے منتظر ہیں کہ سماجی دُوری کا قانون اپنی جگہ مضبوطی سے کھڑا ہے اور جانے کب تک کھڑا رہے البتہ اب بچوں اور بوڑھوں سمیت سب کو ہر جگہ جانے کی اجازت ہے۔ پچھلے ویک اینڈ پر بچوں اور بوڑھوں کو 3 ماہ بعد ریسٹورینٹ جانے کی اجازت ملی تو شہر کے اکثر ریسٹورینٹ نے 12 سال سے کم عمر بچوں کو مفت کھانا پیش کیا۔ اس دوران آن لائن کلاسیں شدو مد سے جاری رہیں۔

یکم جولائی یعنی 4 ماہ بعد مساجد کھلیں گی۔ ستمبر سے تعلیمی اداروں کو جزوی طور پر کھولنے کی چہ مگوئیاں بھی ہو رہی ہیں، شاید تعلیمی سرگرمیوں کے حوالے سے کوئی نیا نظام متعارف کروایا جائے گا یا کلاسوں، اسکول اور بسوں میں طلبا کی تعداد محدود کردی جائے گی۔ اگرچہ ابھی فیسیں بڑھانے کی اجازت نہیں دی گئی مگر ایسی کوئی صورتحال پیدا ہوئی تو اسکولوں کی فیسوں میں اضافہ ناگزیر ہوجائے گا۔

موجودہ صورتحال میں پہلے ہی شہر کے کچھ اسکول اخراجات میں اضافے کے سبب بند ہو رہے ہیں۔ کمپنیوں اور اداروں سے دھڑا دھڑ لوگ فارغ ہورہے ہیں۔ جہاں چھوٹے ادارے اور کمپنیاں دیوالیہ ہورہی ہیں وہیں بڑے بڑے بینک، ایئر لائنز، اسکول اور تعمیراتی کمپنیاں بھی بے دریغ اپنا بجٹ اور سائز کم کرنے پر تُلی ہوئی ہیں۔

اس وقت دبئی مکمل طور پر کھلا ہے مگر پچھلے 3 ماہ نے ہزاروں لوگوں اور زندگیوں کو اندھیروں میں دھکیل دیا ہے، کورونا وبا سے زیادہ اس کے پیدا کردہ اثرات عوام کے لیے زیادہ خطرناک ثابت ہوئے ہیں۔

مرنے والے کم ہیں مگر جو جیتے جی اپنے خاندانوں کو لے کر سالوں سے بنی پناہ گاہ سے بے سرو سامان رخصت ہو رہے ہیں ان کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے۔ جب لوگ دبئی سے ملازمتوں سے محروم ہوکر بھارت، پاکستان یا بنگلہ دیش جاتے ہیں تو ان کے سامنے کوئی سنہری امید نہیں ہوگی۔

امارات کے حکومتی ادارے سر جوڑے بیٹھے ہیں کہ کس طرح معاشی گاڑی کو بریک لگائے بغیر کورونا کے پھیلاؤ کو روکا جائے؟ شاید اس ضمن میں دبئی کو آئندہ دنوں میں اپنی تیز رفتار ٹیکنالوجی اور متنازع فائیو جی کا بھرپور استعمال کرنا پڑے۔

کورونا کی دھند شاید دنیا بدلے بغیر نہیں چھٹے۔ دبئی جیسی مشرقِ وسطیٰ کی ریاست بھی شاید اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اس وبا اور اس کے پیدا کردہ اثرات سے شاید اتنی جلدی نہیں نکل سکے گی۔


تصاویر: لکھاری

صوفیہ کاشف

صوفیہ کاشف ادبی مضامین اور افسانے لکھنے کا شوق رکھتی ہیں۔ آپ ان کے مزید مضامین ان کی ویب سائٹ SofiaLog پر پڑھ سکتے ہیں اور ان کے ولاگ ان کے یوٹیوب چینل SofiaLog. Vlog

پر دیکھ سکتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔