جن افراد کو ویکسین کا استعمال کرایا گیا ان میں 14 دن بعد وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح 90 فیصد سے زیادہ تھی جبکہ کسی قسم کے شدید مضر اثرات بھی دیکھنے میں نہیں آئے۔
کمپنی کے ترجمان کے مطابق ایک اور گروپ پر ویکسین کے نتائج بھی جلد جاری کیے جائیں گے جن میں ٹرائل کا دورانیہ 28 دن کا تھا اور ان نتائج کو تدریسی جرائد میں شائع کیا جائے گا۔
اس کے بعد تیسرے اور آخری مرحلے کے آغاز کے لیے درخواست کی گئی۔
کمپنی نے رواں ماہ برازیل کے Instituto Butantan کے ساتھ شراکت داری کا بھی اعلان کیا تھا تاکہ برازیل میں تیسرے مرحلے کے ٹرائل پر کام کیا جاسکے، جہاں کورونا وائرس کے کیسز بہت تیزی سے سامنے آرہے ہیں۔
نتائج کے حوالے سے چینی کمپنی کے صدر وائیڈونگ ین نے کہا 'پہلے اور دوسرے مرحلے کی تحقیق میں ثابت ہوا کہ کورونا ویک محفوظ اور وائرس کے خلاف مدافعتی ردعمل پیدا کرسکتی ہے'۔
انہوں نے مزید کہا کہ پہلے اور دوسرے مرحلے کو ان حوصلہ افزا نتائج کے ساتھ مکمل کرنا ایک اور اہم سنگ میل ہے جو ہم نے کووڈ 19 کے خلاف جنگ میں حاصل کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا 'ہم ویکسین کی تیاری کے لیے پروڈکشن یونٹ کی تعمیر پر بھی سرمایہ کاری شروع کررہے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ ڈوز تیار کیے جاسکیں اور لوگوں کو کووڈ 19 سے تحفظ مل سکے، ہماری دیگر ویکسینز کی طرح، ہم بھی عالمی سطح پر کورونا ویک کی تیاری کے لیے پرعزم ہیں، یہ ہمارا مشن ہے کہ اس انسانی بیماری کے خاتمے کے لیے ویکسینز فراہم کریں'۔
سینویک نے اس ویکسین کی تیاری جنوری 2020 میں چین کے ممتاز تحقیقی اداروں کے ساتھ مل کر شروع کی تھی۔
کمپنی کو 13 اپریل کو چین کے ادارے این ایم پی اے کی جانب سے پہلے اور دوسرے مرحلے کے ٹرائل شروع کرنے کی اجازت ملی۔
خیال رہے کہ اپریل میں چین کے طبی حکام نے امید ظاہر کی تھی کہ کووڈ 19 سے تحفظ دینے والی ویکسین ستمبر تک ایمرجنسی استعمال جبکہ عام افراد کے لیے اگلے سال کے ابتدا میں دستیاب ہوسکتی ہے۔
چین کے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن کے سربراہ گائو فو نے چائنا گلوبل ٹیلی ویژن نیٹ ورک کو بتایا تھا کہ کہ ملک میں اس وقت ویکسینز کے کلینیکل ٹرائلز دوسرے یا تیسرے مرحلے میں ہیں اور ممکنہ طور پر وہ اس وبا کی دوسری لہر کے وقت تک دستیاب ہوسکتی ہیں۔
گائو فو نے کہا 'ہم ویکسین کی تیاری کے حوالے سے صف اول میں ہیں اور امکان ہے کہ ستمبر تک ایمرجنسی استعمال کے لیے ایک ویکسین تیار ہوچکی ہوگی، یہ نئی ویکسینز لوگوں کے کچھ خصوصی گروپس جیسے طبی ورکرز کے لیے استعمال کی جاسکیں گی'۔
ان کا کہنا تھا 'ممکنہ طور پر عام افراد کے لیے ویکسین اگلے سال کی ابتدا میں دستیاب ہوگی، تاہم اس کا انحصار اس کی تیاری میں پیشرفت پر ہوگا'۔
دوسری جانب گزشتہ دنوں ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ چین ممکنہ طور پر دنیا کا پہلا ملک بن سکتا ہے جو ستمبر میں ہی کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے ویکسینز کو خطرے سے دوچار افراد کے لیے متعارف کراسکتا ہے چاہے اس دوران کلینیکل ٹرائل پر کام ہی کیوں نہ جاری ہو۔
برطانوی روزنامے ٹیلی گراف کی رپورٹ کے مطابق امریکا کے مقابلے میں کورونا وائرس کے علاج کو متعارف کرانے کے لیے چین کے طبی حکام نے ویکسینز کے حوالے سے گائیڈلائنز کا مسودہ تیار کرلیا ہے۔
کسی بھی ملک کے مقابلے میں چین میں سب سے زیادہ 5 ویکسینز انسانی آزمائش کے دوسرے مرحلے میں داخل ہوچکی ہیں۔
ویکسین کی تیاری میں کامیابی سے کورونا وائرس سے متاثر چین کی معیشت کو بحال کرنے میں مدد ملے گی جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ویکسین کی تیاری کے تیز رفتار منصوبوں کو بھی دھچکا لگے گا۔