پاکستان

تیل بحران کی وجہ طلب و رسد کے طریقہ کار کو سنبھالنے میں غلطی تھی، اوگرا

وفاقی کابینہ کو پیش کی گئی ایک تفصیلی رپورٹ میں اوگرا نے پیٹرولیم ڈویژن کی پوزیشن کو چیلنج کردیا۔

اسلام آباد: پیٹرولیم بحران اور اس کی قیمتوں کے بارے میں اٹھنے والے تنازعات کے درمیان آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے طلب و رسد کے طریقہ کار کو سنبھالنے میں حکام کی غلطی کا انکشاف کیا ہے جس کی وجہ سے ملک بھر میں مارکیٹ پلیئرز کی جانب سے ذخیرہ اندوزی اور تیل کی بلیک مارکیٹنگ سامنے آئی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وفاقی کابینہ کو پیش کی گئی ایک تفصیلی رپورٹ میں اوگرا نے وزارت توانائی کے پیٹرولیم ڈویژن (ایم ای پی ڈی) کی پوزیشن کو بھی چیلنج کیا کہ بطور ریگولیٹر یہ ہر وقت 20 روز کے اسٹاک کو یقینی بنانے کی ذمہ دار ہے۔

ریگولیٹر نے یہ دعوٰی کرنے کے لیے متعدد قواعد و ضوابط کا حوالہ دیا کہ ملک بھر میں اسٹاک کی بحالی اور ہموار فراہمی ایم ای پی ڈی کے تحت پیٹرولیم ڈویژن اور ڈائریکٹر جنرل آئل کی ذمہ داری ہے۔

ریگولیٹر نے ایم ای پی ڈی سے کی گئی بات چیت بھی رپورٹ کے ساتھ منسلک کی جس میں سپلائی کے بحران کے بارے میں خبردار کرنے اور ڈی جی آئل کے دفتر کی جانب سے متعدد فیصلوں کو وقتا فوقتا تبدیل کرنے کے بارے میں روشنی ڈالی گئی۔

مزید پڑھیں: آئل کمپنیوں نے بیوروکریسی کو پیٹرول بحران کا ذمہ دار ٹھہرادیا

اس رپورٹ میں 9 جون کو کابینہ کے فیصلوں پر عمل درآمد کی تازہ ترین حیثیت بھی شامل کی گئی ہے جس میں اوگرا نے قواعد کی خلاف ورزی پر 9 آئل مارکیٹنگ کمپنیوں (او ایم سی) پر عائد جرمانے کی رپورٹ دی تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیکریٹری پیٹرولیم نے 20 مارچ کو 15 دنوں کے پیٹرول اور 43 دن کے ڈیزل کا اسٹاک ظاہر کیا تھا اور ساتھ تجویز دی تھی کہ ’طلب/رسد کے بارے میں فوری فیصلہ کرنے‘ کی ضرورت ہے۔

25 مارچ کو ایم ای پی ڈی نے تمام او ایم سی اور ریفائنریز کو ’اپنی منصوبہ بند درآمد منسوخ کرنے کو کہا‘۔

اگلے ہی دن (26 مارچ) ایم ای پی ڈی نے ایک سمری پیش کی جسے 27 مارچ کو کابینہ کی کمیٹی برائے انرجی (سی سی او ای) نے کراچی میں قائم تین ریفائنریز کو بند کرنے اور مقامی خام تیل کی پارکو اور اٹک ریفائنریز میں پیداوار میں 60-70 فیصد تک کٹوتی کرنے پر منظوری دی تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ اس کام میں اوگرا کو شریک یا اس کی رائے طلب نہیں کی گئی تھی۔

سی سی او ای کے فیصلے کی بنیاد پر تین ریفائنریز کا آپریشن بند کر دیا گیا تھا جبکہ درآمدات پر پہلے ہی پابندی عائد تھی اس طرح ملک کے سپلائی کے ذرائع کم ہوگئے تھے۔

4 اپریل کو ایم ای پی ڈی نے اوگرا کو اطلاع دی کہ او ایم سی اٹک، پاکستان اور پارکو ریفائنریز سے مصنوعات نہیں اٹھارہے ہیں جن سے کہا جانا چاہیے کہ ’فصلوں کی کٹائی کے موسم کے دوران طلب کو پورا کرنے کے لیے ایچ ایس ڈی (ہائی اسپیڈ ڈیزل) کے 20 روز کے لازمی اسٹاک کو برقرار رکھنا چاہیے‘۔

6 اپریل کو تمام او ایم سی سے کہا گیا کہ وہ ریفائنریز سے مصنوعات لینے کو بڑھا دیں اور مطلوبہ اسٹاک تیار کریں۔

اسی دن تمام ریفائنریز سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ طلب میں اضافے کو پورا کرنے کے لیے 60-70 فیصد کے ان پٹ پر کام کریں خاص طور پر ڈیزل پر کیونکہ درآمدات پر پہلے ہی پابندی عائد تھی۔

اوگرا نے کہا کہ اس نے 10 اپریل کو سی سی او ای سمری کے حوالے سے فیصلے پر اپنے ’تحفظات‘ریکارڈ کرادیے تھے اور نشاندہی کی تھی کہ ایم ای پی ڈی کی سمری اور سی سی او ای کے فیصلے میں تضاد ہے جس میں صرف 2 ریفائنریز کو چلانے کا کہا گیا اور ایم ای پی ڈی نے تمام ریفائنریز کو چلانے کا نیا فیصلہ کیا۔

یہ بھی پڑھیں: ملک بھر میں پیٹرول کی فراہمی شدید متاثر

ایم ای پی ڈی نے 16 اپریل کو اوگرا کے خدشات کو تسلیم کیا اور لازمی اسٹوریج / اسٹاک کے لیے اس کے اقدامات کو سراہا اور کہا کہ فیصلوں پر اوگرا کے اٹھائے گئے سوالات کو تیل کی فراہمی اور لاجسٹک چین سے متعلق تمام آپریشنل امور کو چلانے کے لیے اٹھایا گیا تھا اور یہ صرف پارکو اور اٹک کو چلانے کا کوئی حتمی فیصلہ نہیں تھا لیکن اس کی کابینہ نے توثیق کی تھی لہذا اسے حتمی شکل دی گئی تھی۔

ایم ای پی ڈی اور اوگرا دونوں نے لازمی اسٹاک اکٹھا کرنے کے لیے مارکیٹ پلیئرز کا تعاقب کیا تھا۔

28 اپریل کو ایم ای پی ڈی نے ڈیزل اور پیٹرول کی درآمد پر عائد پابندی کو اس شرط کے ساتھ ختم کردیا کہ درآمد کرنے والے اپنے 20 فیصد طلب مقامی ریفائنریز سے بھی حاصل کریں گی اور اس فیصلے کے بارے میں اوگرا کو نہیں بتایا گیا۔

28 مئی کو ایم ای پی ڈی نے قیمتوں میں اضافے کا طریقہ کار تبدیل کرنے کے لیے ایک سمری پیش کی اور یکم جون سے 16 جون تک قیمت میں تبدیلی ملتوی کرنے کی کوشش کی تاکہ ’موجودہ پی ایس او قیمت پر مصنوعات کی درآمد کے لیے او ایم سی کو ترغیب دی جائے اور اس طرح انوینٹری نقصان سے بچا جاسکے‘۔

اوگرا نے اگلے روز اس تجویز کی مخالفت کی کیونکہ اسے یقین تھا کہ ’انوینٹری نقصانات کی روک تھام قومی خزانہ / صارفین کی قیمت پر ہوگی‘ اور اس سے خریداری کے قواعد کی پیروی میں ایک عوامی کمپنی، پاکستان اسٹیٹ آئل کو نقصان پہنچے گا۔

2 جون کو اوگرا نے اسٹاک کی پوزیشن کی اطلاع دی اور ایم ای پی ڈی پر زور دیا کہ وہ مصنوعات کی نظرثانی اجلاس کے 13 مئی کے فیصلے کے تحت درآمدات اور مقامی پیداوار کا شیڈول حاصل کرے جو مارکیٹ کی طلب پر رد عمل دینے کے لیے ہو اور خاطر خواہ اسٹاک اور بلا تعطل فراہمی کو یقینی بنائے۔

مزید پڑھیں: پیٹرول کی قیمت میں یکدم 25 روپے 58 پیسے کا بڑا اضافہ

اس نے ایم ای پی ڈی سے کہا کہ صورتحال کے مطابق درآمدات کے لیے اضافی کارگو کا بھی بندوبست کیا جائے۔

پیٹرول بحران

واضح رہے کہ حکومت نے کورونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن کے عرصے میں پیٹرولیم مصنوعات مجموعی طور پر 56 روپے 89 پیسے فی لیٹر تک سستی کی تھیں۔

25 مارچ سے یکم جون تک پیٹرول 37 روپے 7 پیسے فی لیٹر سستا کیا گیا، اسی عرصے میں ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 42 روپے 10 پیسے فی لیٹر کمی کی گئی جبکہ مٹی کا تیل 56 روپے 89 پیسے اور لائٹ ڈیزل 39 روپے 37 پیسے فی لیٹر سستا کیا گیا۔

31 مئی کو حکومت نے پیٹرول کی قیمت میں مزید 7 روپے فی لیٹر کمی کا اعلان کیا تھا جس کے بعد اس کی قیمت 74 روپے 52 پیسے فی لیٹر ہوگئی تھی۔

تاہم اگلے ہی روز یعنیٰ یکم جون سے ملک بھر میں پیٹرول کی شدید قلت پیدا ہوگئی تھی۔

اسی روز پیٹرولیم ڈویژن کی جانب سے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کو ارسال کیے گئے خط میں کہا گیا تھا کہ موگاز اور آئل مارکیٹنگ کمپنیوں (او ایم سیز) کی جانب سے یکم جولائی 2020 سے پیٹرولیم مصنوعات میں ہونے والے ممکنہ اضافے کا مالی فائدہ حاصل کرنے کے لیے ملک بھر میں ریٹیل آؤٹ لیٹس پر مصنوعات کی فراہمی میں کمی کی جاسکتی ہے۔

اس میں کہا گیا تھا کہ بحرانی صورتحال سے بچنے کے لیے ریگولیٹر ہونے کی حیثیت سے اوگرا کو او ایم سیز کو ملک میں ہر ریٹیل آؤٹ لیٹ پر اسٹاکس کی فراہمی یقینی بنانے کی ہدایت کرے۔

3 جون کو اوگرا نے پیٹرول کے تعطل پر 6 آئل مارکیٹنگ کمپنیز کو شوکاز نوٹس جاری کیا تھا جبکہ پیٹرول ذخیرہ کرنے کی شکایات پر ملک بھر میں آئل ڈپوز پر چھاپے بھی مارے گئے۔

تاہم پیٹرول کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کی جاسکی تھی۔

ملک بھر میں پیٹرول کی مسلسل قلت کے باعث 8 جون کو حکومت کی جانب سے پیٹرول کی قیمت اور مارکیٹنگ کو 'مکمل طور پر ڈی ریگولیٹ' کرنے اور قیمتوں کے یکساں تعین کا طریقہ کار ختم کرنے کا اصولی فیصلہ سامنے آیا تھا۔

یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا جب آئل مارکیٹنگ کمپنیز (او ایم سیز) ہائی اوکٹین بلینڈنگ کمپونینٹ (ایچ او بی سی) کے معاملے میں کارٹیلائزیشن جیسے رویے پر تنقید کی زد میں ہیں۔

بعد ازاں 26 جون کو حکومت نے پیٹرول اور ڈیزل سمیت پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اچانک 27 سے 66 فیصد یعنی 25 روپے 58 پیسے تک کا اضافہ کرنے کا اعلان کیا تھا جس کا اطلاق مہینے کے آغاز کے بجائے فوری طور پر کیا گیا تھا۔

کورونا وائرس: ملک میں مزید 103 اموات، متاثرین 2 لاکھ 8 ہزار سے زائد ہوگئے

میانمار:رخائن میں فوجی آپریشن کی تیاریاں، ہزاروں شہری بے گھر

نسل پرستانہ ویڈیو شیئر کرنے پر تنقید کے بعد ٹرمپ نے ٹوئٹ حذف کردی