صحت

اسپین کے شہر میں مارچ 2019 میں کورونا وائرس کی موجودگی کا انکشاف

اسپین کے طبی ماہرین نے ایک تحقیق میں یہ دعویٰ کیا کہ ووہان میں وبا پھیلنے سے 9 ماہ قبل یہ وائرس بارسلونا میں موجود تھا۔

اسپین کے طبی ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ بارسلونا میں مارچ 2019 میں جمع کیے گئے نکاسی آب کے نمونوں میں نوول کورونا وائرس کو دریافت کیا ہے۔

یعنی چین کے شہر ووہان میں کووڈ 19 کے پھیلنے سے 9 ماہ قبل، یہ وائرس اس شہر میں موجود تھا۔

اگر اس کی مکمل تصدیق ہوجاتی ہے تو پھر وائرس کی بنیاد کے حوالے سے نئے سوالات سامنے آئیں گے۔

محققین نے بارسلونا میں رواں سال 15 جنوری کو لیے گئے نکاسی آب کے نمونوں میں بھی نئے کورونا وائر کو دریافت کیا تھا جبکہ اسپین میں کووڈ 19 کا پہلا آفیشل کیس 6 ہفتے بعد فروری کے آخر میں سامنے آیا تھا۔

بارسلونا یونیورسٹی کی تحقیقی ٹیم نے نکاسی آب کے نمونوں کو پی سی آر کورونا وائرس ٹیسٹ کے ذریعے جانچا اور ان کا کہنا تھا کہ یہ وائرس متاثرہ افراد کے فضلے کے ذریعے نکاسی آب میں آجاتا ہے، اور یہ اس وبا کے سراغ اور قابو پانے کا ایک مددگار ٹول ثابت ہوسکتا ہے۔

بارسلونا یونیورسٹی بائیولوجی پروفیسر البرٹ بوسک نے بتایا کہ بارسلونا میں اگر کورونا وائرس کا سراغ ایک ماہ پہلے لگ جاتا تو وبا کے حوالے سے ردعمل بھی بہتر ہوسکتا تھا۔

تحقیقی ٹیم نے نکاسی آب کے 2 سال تک منجمد نمونوں کا تجزیہ کیا اور یہ دیکھ کر دنگ رہ گئے کہ 12 مارچ 2019 کو اس وائرس کی کم مقدار شہر میں موجود تھی۔

اس وقت کووڈ 19 کا کوئی کیس تو ریکارڈ نہیں ہوا تھا مگر پروفیسر البرٹ کا کہنا تھا کہ یہ ممکن ہے کہ اس سے ملتے جلتے نتائج دنیا بھر میں دریافت ہوں۔

انہوں نے کہا 'چونکہ کووڈ 19 کے بیشتر کیسز علامات کے لحاظ سے فلو سے ملتے جلتے ہوتے ہیں، تو اس وقت یہ کیسز بھی فلو ہی سمجھے گئے ہوں'۔

دوسری جانب دیگر سائنسدانوں نے بارسلونا یونیورسٹک نتائج پر شکوک کا اظہار کیا ہے۔

فرانسس کریک انسٹیٹوٹ کے ڈاکٹر جوناتھن اسٹوئی نے ٹیلیگراف کو بتایا کہ اس دعوے کی تصدیق کے لیے مزید تجزیوں کی ضرورت ہوگی۔

انہوں نے کہا 'ہوسکتا ہے کہ یہ نتائج درست ہوں، مگر جب آپ اس طرح کا اہم دعویٰ کرتے ہیں تو اس کے حوالے سے کوئی ابہام نہیں ہونے چاہیے، یہی وجہ ہے کہ مجھے اس پر شکوک ہیں'۔

کیلیفورنیا یونیورسٹی کے جینیٹکس انسٹیٹوٹ کے پروفیسر فرانسکوئس بیلوکس نے کہا کہ بظاہر ایسا ممکن نہیں آتا 'نئے کورونا وائرس یا اس سے ملتے جلتے کوئی وائرس اگر اس وقت پھیل رہا تھا، تو یہ خیال اسی وقت زیرغور لایا جاسکتا ہے جب اس وقت کے دیگر نمونوں میں بھی اس کی تصدیق ہو'۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان کی ٹیم نے جینیاتی تجزیے میں پورے اعتماد سے اس خیال کو مسترد کیا ہے کہ نیا کورونا وائرس 2019 کے موسم بہار میں پھیل رہا تھا، اگر اس وائرس کی موجودگی کی تصدیق 2019 کے اختتام سے قبل ہوجاتی ہے، جس پر ہمیں شک ہے، تو اس وقت ایک اور وبا پھیلنا چاہیے تھی۔

اس سے قبل گزشتہ ہفتے اب اٹلی کے ماہرین کی ایک تحقیق میں انکشاف کیا گیا تھا کہ وہاں کے 2 بڑے شہروں میں کم از کم دسمبر میں ہی کورونا وائرس پہنچ چکا تھا۔

درحقیقت اس تحقیق سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ وائرس اٹلی میں اسی وقت نمودار ہوچکا تھا جب چین میں پہلی بار اسے رپورٹ کیا گیا تھا۔

اٹلی کے نیشنل ہیلتھ انسٹیٹوٹ کی تحقیق میں سوریج کے پانی کے تجزیے کے بعد یہ دریافت کیا گیا۔

محققین نے دریافت کیا کہ گزشتہ سال دسمبر میں میلان اور تورین کے سیورج کے پانی میں وائرس کے آثار موجود تھے جبکہ بولونگا میں اس وائرس کے نمونے جنوری میں نکاسی آب میں موجود تھے۔

اس سے پہلے مانا جاتا تھا کہ اٹلی میں پہلا کیس فروری کے وسط میں سامنے آیا تھا مگر محققین کا کہنا تھا کہ نئے نتائج سے وائرس کے آغاز کے بارے میں جاننے میں مدد ملے گی۔

انہوں نے ان بین الاقوامی شواہد کی بھی تصدیق کی جن میں کہا گیا ہے کہ سیوریج کے نمونوں کوو وائرس کو ابتدا میں پکڑنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

مارچ میں خبررساں ادارے رائٹرز کے مطابق میلان یونیورسٹی کے وبائی امراض کے ماہر پروفیسر ایڈریانو ڈیسرلی نے کہا کہ لمبارڈی اور میلان کے ہسپتالوں میں نمونیا اور فلو کے شکار افراد میں نمایاں اضافہ گزشتہ سال اکتوبر سے دسمبر کے دوران دیکھا گیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ وہ ابھی درست اعدادوشمار تو نہیں دے سکتے مگر 2019 کے آخری سہ ماہی کے دوران ہسپتالوں میں ایسے کیسز کی معمول سے کہیں زیادہ تھی جن میں مریضوں میں نمونیا اور فلو جیسی علامات کا سامنا ہوا اور کچھ کی ہلاکت بھی ہوگئی۔

اب وہ ہسپتالوں کے ریکارڈ پر نظرثانی اور کیسز کی دیگر تفصیلات جیسے گھروں میں اموات کی تعداد اکھٹی کررہے ہیں، تاکہ یہ سمجھنے میں مدد مل سکے کہ کیا اٹلی میں اس وائرس کی 2019 کے آخر میں پھیل چکی تھی۔

پروفیسر نے بتایا 'ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا یہ وائرس 2019 کے آخر میں اٹلی میں پہنچ کیا چکا تھا اور اگر ہاں، تو یہ اتنے عرصے تک پکڑ میں کیوں نہیں آسکا'۔

اطالوی پروفیسر کا کہنا ہے کہ ایک بار ان کی تحقیق مکمل ہوجائے، پھر ممکنہ طور پر مقامی طبی انتظامیہ مشتبہ علامات سے ہلاک ہونے والے افراد کی لاشوں کا جائزہ لینے پر غور کرے گی۔

اپریل میں برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کی تحقیق میں کہا گیا تھا کہ نوول کورونا وائرس کی وبا ممکنہ طور پر گزشتہ سال ستمبر کی وسط میں پھیلنا شروع ہوئی تھی اور چین کا شہر ووہان سے اس کا آغاز نہیں ہوا۔

کیمبرج یونیورسٹی کی اس تحقیق کے دوران کووڈ 19 کی وبا کی بنیاد ڈھونڈنے پر کام ہورہا ہے اور تحقیقی ٹیم کو توقع ہے کہ وہ اس پہلے فرد کو شناخت کرنے میں کامیاب ہوجائے گی جو اس وائرس کا پہلا شکار بنا، جس کے بعد یہ آگے پھیلنا شروع ہوا۔

وائرس کے پھیلنے کے نیٹ ورک کا تجزیہ کرنے کے دوران وہ اب تک اس کے لیے پھیلائو کا چارٹ بشمول جینیاتی تبدیلیاں جاننے میں کامیاب ہوچکے ہیں یعنی کیسے یہ وائرس چین سے آسٹریلیا، یورپ اور باقی دنیا تک پھیلا۔

اس تحقیق کے دوران اس تحقیق میں کورونا وائرس کے 1 ہزار سے زائد مکمل جینومز کو دیکھا گیا جن کا سیکوئنس انسانی مریضوں سے تیار کیا گیا تھا۔

بعد ازاں جینیاتی تبدیلیوں کی بنیاد پر وائرس کو ٹائپ اے، بی اور سی میں تقسیم کیا گیا اور ٹائپ اے ٹائپ اے وائرس ممکنہ طور پر چمگادڑوں سے براستہ پینگولین انسانوں میں چھلانگ لگا کر پہنچا تھا۔

ٹائپ اے کو چینی اور امریکی شہریوں میں دریافت کیا گیا جس کا تبدیلیوں والا ورژن آسٹریلیاں اور امریکا تک پہنچا۔

تحقیق کے مطابق ووہان میں زیادہ تر کیسز میں ٹائپ اے وائرس نظر نہیں آیا بلکہ ٹائپ بی وائرس متحرک تھا جس سے عندیہ ملتا ہے کہ وہاں کسی ایونٹ سے یہ بدلنا شروع ہوا۔

ٹائپ سی ورژن ٹائپ بی کے بطن سے نکلا جو یورپ کے ابتدائی کیسز میں نظر آیا جبکہ جنوبی کوریا، سنگاپور اور ہانگ کانگ میں بھی اس کے مریض تھے مگر چین میں اس کے آثار نہیں ملے۔

محققین کے مطابق جمع شدہ ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا 13 ستمبر سے 7 دسمبر کے دوران پھیلنا شروع ہوئی اور اس کی بنیاد وائرس میں تبدیلیوں کی شرح کی رفتار ہے۔

تاہم سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ وقت کا تخمینہ غلط بھی ہوسکتا ہے مگر فی الحال یہی تخمینہ درست لگتا ہے، اس حوالے سے مزید مریضوں کے نمونوں کا تجزیہ کیا جائے گا۔

تحقیقی ٹیم کے قائد پیٹر فورسٹر کا کہنا تھا کہ ممکنہ طور پر اس وبا کے آغاز ووہان سے نہیں ہوا کیونکہ وہاں تمام مریضوں میں ٹائپ بی وائرس دریافت ہوا، البتہ ووہان سے 500 میل دور واقع صوبے گوانگ ڈونگ میں 11 میں سے 7 جینومز میں ٹائپ اے کو دیکھا گیا، یہ تعداد بہت کم ہے کیونکہ وبا کے ابتدائی مرحلے کے جینومز کی تعداد بہت کم تھی۔

وائرس کی اصل بنیاد کی شناخت کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ اس لیے ضروری ہے تاکہ آئندہ ایسا ہونے سے بچا جاسکے اور اس سے یہ معلوم ہوگا کہ وہ کونسے عوامل ہیں جس کی وجہ سے کووڈ 19 پھیلا۔

سائنسدانوں نے پہلی بار اس وائرس کی بنیاد جاننے کے لیے قدم زمانے کے انسانوں کی ہجرت کے لیے استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے وائرس کے پھیلائو کو ٹریک کیا۔

اس تحقیق کے نتائج جریدے جرنل پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز میں شائع ہوئے۔

خیال رہے کہ مارچ میں ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اس وائرس کا پہلا کیس 17 نومبر کو سامنے آیا تھا۔

یہ بات ساﺅتھ چائنا مارننگ پوسٹ نے چینی حکومت کے کورونا وائرسز کے کیسز کے تجزیے کے حوالے سے بتائی۔

چینی حکومتی ڈیٹا کے مطابق 17 نومبر کو یہ ممکنہ پہلا مریض سامنے آیا تھا۔

اس کے بعد روزانہ ایک سے 5 نئے کیسز رپورٹ ہوئے اور 15 دسمبر تک کووڈ 19 کے مریضوں کی تعداد 27 تک پہنچ گئی تھی جبکہ 17 دسمبر کو پہلی بار 10 کیسز رپورٹ ہوئے اور 20 دسبمر کو مصدقہ کیسز کی تعداد 60 تک پہنچ گئی تھی۔

27 دسمبر کو ہوبے پرویژنل ہاسپٹل آف انٹیگرٹیڈ کے ڈاکٹر زینگ جی شیان نے چینی طبی حکام کو اس نئے کورونا وائرس سے ہونے والے مرض کے بارے میں بتایا تھا، جب تک مریضوں کی تعداد 180 سے زائد ہوچکی تھی، مگر اس وقت بھی ڈاکٹروں کو اس کے حوالے سے زیادہ شعور نہیں تھا۔

2019 کے آخری دن یعنی 31 دسمبر کو مصدقہ کیسز کی تعداد 266 تک پہنچی اور یکم جنوری کو 381 تک چلی گئی۔

رپورٹ کے مطابق چینی حکومت کا یہ ریکارڈ عوام کے لیے جاری نہیں کیا گیا، مگر اس سے ابتدائی دنوں میں مرض کے پھیلاﺅ کی رفتار کے بارے میں اہم سراغ ملتے ہیں اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تک چین میں کتنے کیسز رپورٹ ہوچکے تھے۔

سائنسدان اس پہلے مرض کی تلاش اس لیے بھی کرنا چاہتے ہیں تاکہ نئے کورونا وائرس کا باعث بننے والے ذریعے کا سراغ لگایا جاسکے، جس کے بارے میں ابھی سوچا جاتا ہے کہ یہ کسی جانور جیسے چمگادڑ سے ایک اور جانور میں گیا اور پھر انسانوں میں منتقل ہوگیا۔

حکومتی ڈیٹا کے مطابق یہ بھی ممکن ہے کہ ایسے کیسز نومبر سے بھی پہلے رپورٹ ہوئے ہوں جن کی تلاش کا کام ہورہا ہے۔

امریکا میں کووڈ 19 کی مزید 3 نئی علامات کی شناخت

کورونا وائرس کے علاج کی تلاش میں اہم پیشرفت

حاملہ خواتین میں کورونا وائرس کی شدت سنگین ہونے کا امکان زیادہ