پاکستان

’قیمت میں اضافے کے باوجود جنوبی ایشیا میں سب سے سستا پیٹرول پاکستان میں ہے‘

عالمی منڈی کو دیکھتے ہوئے پاکستان میں پیٹرول 41 روپے مہنگا ہونا تھا، جسے 25 روپے تک محدود رکھا گیا، وزیر توانائی

وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب نے دعویٰ کیا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے باوجود پاکستان میں پیٹرول نہ صرف برصغیر بلکہ جنوبی ایشیا کے مقابلے سستا ہے۔

قومی اسمبلی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافے پر وضاحت دیتے ہوئے وزیر توانائی عمر ایوب نے کہا کہ عالمی مارکیٹ میں پیٹرول کی قیمتوں میں 112 فیصد اضافہ ہوا ہے جس کو دیکھتے ہوئے پاکستان میں پیٹرول کی قیمت میں 41 روپے کا اضافہ ہونا تھا لیکن حکومت نے اسے 25 روپے 58 پیسے تک محدود رکھا۔

انہوں نے کہا کہ اسی طرح ڈیزل کی قیمت میں 24 روپے 31 پیسے کا مجموعی اضافہ ہونا تھا لیکن اس میں 21 روپے تک اضافہ کیا گیا۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز حکومت نے پیٹرول کی قیمت میں اچانک 25 روپے 58 پیسے اور ڈیزل کی قیمت میں 21 روپے کا اضافہ کردیا تھا جبکہ اضافے کا یہ نوٹیفکیشن بھی معمول سے 4 روز قبل منظر عام پر آیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پیٹرول کی قیمت میں یکدم 25 روپے 58 پیسے کا بڑا اضافہ

انہوں نے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات میں اضافہ حکومت کی مجبوری ہے لیکن اس کے باوجود نہ صرف برصغیر بلکہ پورے جنوبی ایشیا میں پیٹرول کی قیمت سب سے سستی ہے۔

عمر ایوب کا کہنا تھا کہ یکم جنوری کو پیٹرول کی قیمت 116 روپے 60 پیسے اور ڈیزل کی 127 روپے 26 پیسے تھی، ہم نے پیٹرول کو 45 روپے اور ڈیزل کو 47 روپے سستا کیا اور قیمتوں میں حالیہ اضافے کے باوجود بھی پیٹرول کی قیمت جنوری کے مقابلے 17 روپے فی لیٹر اور ڈیزل 26 روپے فی لیٹر کم ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان میں پیٹرول 100 روپے فی لیٹر ہے جبکہ بھارت میں اس وقت پیٹرول کی قیمت 180 روپے، بنگلہ دیش میں 174 اور چین میں 138 روپے فی لیٹر ہے۔

اسی طرح جنوب مشرقی ایشیا میں دیکھا جائے تو فلپائن میں 153 روپے، تھائی لینڈ 159 روپے اور جاپان میں پیٹرول 196 روپے فی لیٹر میں دستیاب ہے۔

مزید پڑھیں: آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے پیٹرول کی قلت کی ذمہ داری وزارت توانائی پر ڈال دی

ان کا کہنا تھا کہ یہ وہ حقائق جن سے ہم نظر نہیں چرا سکتے جس وقت بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمت میں کمی آئی ہم نے عوام تک اس کے ثمرات پہنچائے، ہم تقریباً 30 روز کے وقفے پر کام کرتے ہیں لہٰذا جب اضافہ ہوا تو اسے بھی ایک حد تک کیا گیا۔

وزیر توانائی نے دعویٰ کیا کہ حکومت نے 46 اور 48 فیصد ٹیکسز اور جی ایس ٹی نہیں رکھا بلکہ ایک مناسب سطح پر رکھا جبکہ ان مصنوعات پر نئے ٹیکسز بھی نہیں لگائے۔

ایوان میں عمر ایوب کا کہنا تھا کہ حکومت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کے مطابق اضافہ اور کمی کی جائے جبکہ سابقہ ادوارِ میں جب پیٹرول کی قیمت کم ہوتی تھی تو اس کا فائدہ حکومت خود اٹھاتی تھی لیکن ہم نے یہ نہیں کیا۔

بجلی کے بارے میں وزیر توانائی نے کہا کہ جب ہماری حکومت اقتدار میں آئی اس وقت بجلی کے ترسیلی نظام کی صلاحیت صرف 8 ہزار میگا واٹ تھی جس کی وجہ سے 5 سو میگا واٹ کی ٹرانسمیشن لائنز میں تعطل آتا تھا لیکن ہم نے اس صلاحت کو ساڑھے 26 ہزار میگا واٹ تک پہنچا دیا۔

یہ بھی پڑھیں: آئل کمپنیوں نے بیوروکریسی کو پیٹرول بحران کا ذمہ دار ٹھہرادیا

انہوں نے کہا کہ ہائی لاس فیڈرز کے علاوہ سب فیڈرز پر لوڈ شیڈنگ ختم کردی گئی ہے اور ترسیلی نظام اور تقسیم کار نظام میں مزید سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں، اس کے علاوہ ہماری توجہ کلین اور گرین انرجی، قابل تجدید توانائی پر مرکوز ہے۔

اپنے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ توانائی کے جو معاہدے گزشتہ حکومتوں نے کیے وہ مہنگے تھے اور درآمدشدہ ایندھن پر منحصر بجلی کی قیمت بھی زیادہ تھی لہٰذا اس وقت ہماری تمام تر توجہ انڈیجنیئس فیول، قابل تجدید توانائی، ہائیڈل انرجی، جوہری توانائی پر ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ انرجی مکس بہتر کیا جائے کیوں کہ ہمیں معلوم ہے کہ جب ہماری توانائی کی قیمت بین الاقوامی مقابلے پر آئے گی تو اس سے ہماری صنعت مسابقت کے قابل ہوگی اور ہمیں فائدہ ہوگا۔

بعدازاں اپوزیشن اراکین کی جانب سے سخت تنقید کے بعد عمر ایوب ایک مرتبہ پھر فلور پر آئے اور کہا کہ کہ ہم نے مجبوراً پیٹرول کی قیمت میں 34 فیصد اضافہ کیا ہے لیکن یاد رہے کہ جب کمی کی تھی تو 36 فیصد کی تھی۔

ایوان میں اس وقت دلچسپ صورتحال دیکھنے میں آئی جب 2014 میں پیٹرول کی قیمت پر طنز کرتے ہوئے ہوئے انہوں نے پہلے اسپیکر اور پھر حماد اظہر سے پوچھا کہ اس وقت کس کی حکومت تھی جس پر اپوزیشن نے یک زبان ہو کر انہیں مسلم لیگ سے سابقہ وابستگی یاد دلاتے ہوئے بتایا کہ ’آپ کی حکومت تھی‘ جس پر عمر ایوب بولے کہ میں اس وقت کابینہ کا حصہ نہیں تھا مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی۔

وزیر توانائی نے کہا کہ 2014 میں ایک ماہ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں 31 فیصد اضافہ ہوا تھا اور تقریباً 74 روپے 89 فی لیٹر سے بڑھا کر 108 روپے فی لیٹر تک پہنچا دیا گیا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پیٹرول پر تاریخ میں سب سے زیادہ 47 فیصد ٹیکس عائد تھے اس وقت اپوزیشن اور حکومت کو اس کا خیال نہیں آیا۔

حکومت کی ہر کارروائی خوف کے تابع ہے، رانا ثنا اللہ

دوسری جانب قومی اسمبلی کے اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثنا اللہ نے کہا کہ سرکاری فنڈز اور اتھارٹی، ہر سرکاری افسر کی ذمہ داری ہے اپنے اختیارات اور فنڈز کا استعمال دیانت داری سے کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ محکمہ داخلہ کے لیے 19-2018 میں ہمارے آخری بجٹ میں ایک کھرب 9 ارب روپے اس مد میں رکھے گئے جبکہ رواں مالی سال میں اس مد میں ایک کھرب 39 ارب 86 کروڑ روپے خرچ کیے گئے جو 28 فیصد زائد ہے جبکہ آئندہ مالی سال کے ایک کھرب 57 ارب 75 کروڑ روپے کی رقم مختص کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ میرا اعتراض ہے کہ جب کسی چیز میں اضافہ نہیں کیا گیا اور عام سرکاری ملازم کی تنخواہ نہیں بڑھائی تو اس میں 13 فیصد اضافے کا کیا جواز ہے جبکہ ساتھ یہ راگ الاپا جاتا ہے کہ ہم نے اخراجات میں کمی کی ہے۔

ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے رہنما مسلم لیگ (ن) رانا ثنا اللہ نے کہا کہ دیگر اخراجات کو کہا جاتا ہے کہ یہ کھانچہ ہوتا ہے جس کی مد میں آپ نے گزشتہ برس 6 ارب 70 کروڑ روپے خرچ کیے اور حالیہ بجٹ میں 10 ارب روپے رکھے ہیں جبکہ آپ جس دور پر بدعنوانی کا الزام لگاتے ہیں اس دور میں یہ رقم 4 ارب 60 کروڑ روپے تھی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کہا جاتا تھا کہ وزیراعظم ہاؤس میں بہت کھانچے تھے جس کے اخراجات 18-2017 میں 96 کروڑ تھے لیکن جب نظر ثانی کی گئی تو اسے ایک ارب 17 کروڑ روپے تک پہنچا دیا گیا یعنی وزیراعظم جو کوئی خرچہ نہیں کرتے ان کا خرچ قوم کو ماہانہ 9 کروڑ روپے برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔

رانا ثنا اللہ نے کہا کہ جب وزرا دعویٰ کرتے ہیں کہ وزیرعظم ہاؤس کے اجلاس میں بسکٹ اور چائے کے علاوہ کچھ ملتا ہی نہیں تو کیا یہ ایک ماہ میں 9کروڑ 75 لاکھ روپے کے بسکٹ اور چائے پی جاتے ہیں۔

ساتھ ہی ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کی بنیاد ہی پروپیگنڈے، جھوٹ، نفرت اور انتقام پر ہے، پہلے دن سے اب تک صرف پروپیگنڈے پر زور دیا اور شروع سے ایوان میں چور، لٹیرے، کرپشن مافیا وغیرہ کی گردان ہوتی رہی لیکن رات میں جو ہوا وہ مکافات عمل تھا، لوگ بلبلا اٹھے اور کہہ رہے تھے کہ حکومت نے تیل مافیا کے ساتھ مل کر تاریخ کی سب سے بڑی ڈکیتی کی ہے۔

رہنما مسلم لیگ (ن) کا کہنا تھا کہ عمر ایوب نے دعویٰ کیا کہ پیٹرول کے ثمرات عوام تک پہنچائے لیکن صورتحال اس کےبرعکس ہے، پیٹرول سستا ہوا تو ملک بھر میں لوگ رُل گئے پیٹرول مل ہی نہیں رہا تھا اور اب جب مافیا نے اسٹور کرلیا تو حکومت نے قیمتوں میں اضافہ کردیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ادویات کی قیمتوں میں 400 گنا اضافہ ہوا، شور شرابہ ہونے پر وزیر کو علیحدہ کیا، انکوائری کرنے کی بات کی لیکن کیا کسی ایک دوا کی قیمت دوبارہ کم ہوئی۔

رکن قومی اسمبلی نے کہا کہ عوام کو لوٹا جارہا ہے اور یہ صرف اپوزیشن کے پیچھے لگے ہوئے ہیں جبکہ جب احتساب کی بات ہوتی ہے تو ایک ہی بات کرتے ہیں کہ نیب کا چیئرمین ہم نے بنایا ہے، اور یہ درست بھی ہے لیکن اسی چیئرمین کی ویڈیو کس نے بنائی اور بقیہ 5 ویڈیوز کس کے پاس ہیں؟ آپ کے پاس۔

رانا ثنا اللہ کے مطابق ایک پریس کانفرنس میں چیئرمین نیب نے کہا تھا کہ اگر میں 10-15 بندے پکڑ لوں تو حکومت دھڑام سے گر جائے گی اور اس کے بعد یہ ویڈیو منظر عام پر آگئی اور چراغوں میں روشنی نہیں رہی۔

انہوں نے کہا کہ یہ حکومت کا احتساب ہے اور اتنا خوف سمایا ہوا ہے کہ ہر کارروائی اسی خوف کے تابع ہے۔

ایوان میں رہنما مسلم لیگ کا کہنا تھا کہ حکومت خوف اور پالیسی کے تحت ہر چیز کو تباہ کررہی ہے، بڑے عالمی فورم پر جا کر کہا گیا کہ ہمارے ملک میں بڑی کرپشن ہوئی ہے تو بتائیں کہ کس طرح سرمایہ کار متوجہ ہوں گے۔

وزیراعظم ہاؤس نے اخراجات 40 فیصد کم کیے، علی محمد خان

علاوہ ازیں رانا ثنا اللہ کی جانب سے وزیراعظم ہاؤس اور دفتر کے اخراجات پر اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ سوال یہ نہیں کہ کتنی رقم مختص کی گئی بلکہ بات یہ ہے کہ خرچ کتنے ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ مالی سال 20-2019 میں وزیراعظم کے دفتر کے لیے 47 کروڑ 40 لاکھ روپے مختص کیے گئے جس میں 13 کروڑ 70 لاکھ روپے دفتر وزیراعظم سے بچت کر کے واپس کیے گئے۔

علی محمد خان کا کہنا تھا کہ 29 فیصد بچت ہوئی، جب ہم اقتدار میں آئے دفتر وزیراعظم کے لیے 45 کروڑ 40 لاکھ روپے مختص تھے لیکن وزیراعظم نے کفایت شعاری مہم کا آغاز کیا اور حکومت نے اپنے اخراجات کم کیے۔

انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم ہاؤس میں 522 ملازمین میں سے 288 ملازمین رہ گئے ہیں بقیہ کو دیگر اداروں میں کھپایا گیا ہے 74 گاڑیوں میں 40 گاڑیاں واپس کردی گئی ہیں اور اخراجات میں 40 فیصد کمی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور میں وزیراعظم ہاؤس کا خرچہ ایک ارب 40 کروڑ روپے تھا جو 67 کروڑ تک محدود ہوگیا ہے، مزید یہ کہ افرادی قوت پر 36 کروڑ 50 لاکھ کے اخراجات آتے تھے جو اب 28 کروڑ روپے رہ گئے جس سے ملازمین کی تنخواہیں ادا کی جاتی ہے۔

اسی طرح ٹرانسپورٹ کی مد میں 6 کروڑ 20 لاکھ روپے کا خرچ تھا جو ایک کروڑ 60 لاکھ تک محدود رہ گیا ہے یعنی 68 فیصد بچت ہوئی جبکہ چائے پانی، تحائف کے لیے5 کروڑ 20 لاکھ روپے کا خرچ تھا جو اب 4 کروڑ 30 لاکھ رہ گیا ہے۔

انہوں نے کہا مجموعی خرچ 50 کروڑ 9 لاکھ روپے تھا جو کم ہو کر 33 کروڑ 90 لاکھ تک آگیا ہے، ساتھ ہی وہ بولے کہ وزیراعظم اپنے گھر میں رہتے ہیں ان کا کوئی کیمپ آفس نہیں، نواز شریف کے دور میں رائیونڈ کیوں کیمپ آفس تھا کیوں کہ اگر کیمپ آفس ڈیکلیئر کردیا جائے تو کھانے پینے سے لے کر گیس بجلی اور ملازمین کے اخراجات تک ہر قسم کے اخراجات حکومت پاکستان ادا کرتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ رائیونڈ میں ڈھائی ہزار افراد سیکیورٹی پر تعینات تھے، اسی طرح نواز شریف جب امریکا سے امداد لینے گئے تھے اس دورے پر 5 لاکھ 49 ہزار ڈالر خرچ کر ڈالے تھے جبکہ آصف علی زرداری نے امریکا کے دورے پر 7 لاکھ ڈالر خرچ کیے لیکن عمران خان کا خرچ 67 ہزار ڈالر رہا۔

اسی طرح اقوامِ متحدہ کےاجلاس میں شرکت کے لیے آصف علی زرداری نے 13 لاکھ ڈالر، نواز شریف نے 11 لاکھ ڈالر اور عمران خان نے ایک لاکھ 62 ہزار ڈالر خرچ کیے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ وزیراعظم کے ماتحت نہیں، اگر یہ بے گناہ ہے تو وطن واپس آکر اپنے اثاثوں کی تفصیلات کیوں نہیں بتاتے آئیں اور اپنے کیسز کا دفاع کرتے رہیں۔

ایف آئی اے کو نیب 2 بنایا جارہا ہے، احسن اقبال

ایوان میں بحث میں حصہ لیتے ہوئے رہنما مسلم لیگ (ن) احسن اقبال نے کہا کہ وزارت داخلہ کسی بھی ملک میں ایک بہت اہم کردار ادا کرتی ہے جس میں پہلی ذمہ داری ملک کی داخلی سلامتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بحیثیت سابق وزیر داخلہ مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ وزارت داخلہ کے متعدد اہم منصوبے نظر انداز کردیے گئے، میرے دور میں داخلہ میں 24 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ تھا جسے 14 ارب کردیا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کا پہلا نیشنل پولیس ہسپتال بنانے کے لیے 2 ارب روپے مختص کیے لیکن اس منصوبے کو ختم کردیا گیا، ملک میں ہر سیکیورٹی ادارے کے جوانوں کے لیے اس کا ہسپتال موجود ہے لیکن پولیس اہلکاروں کے لیے مختص کوئی ہسپتال نہیں۔

احسن اقبال نے مطالبہ کیا کہ نیشنل پولیس ہسپتال کے منصوبے کو دوبارہ شروع کیا جائے اسی طرح اسلام آباد بس سروس کو بحال کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا فرنٹیئر کانسٹیبلری کے لیے نئے سامان اور یونیفارم کا منصوبہ تشکیل دیا تھا جسے ختم کردیا گیا اسی طرح اسلام آباد ماڈل جیل کا منصوبہ زیر التوا تھا اسے 2020 میں مکمل کیا جائے اور اس کے لیے مختص رقم کو دوگنا کیا جائے۔

انہوں نے کہا ہم نے ای ویزا اور ای پاسپورٹ شروع کیا تھا تا کہ جعلی پاسپورٹ نہ بنائے جاسکیں، اس منصوبے کو 2018 میں نافذ ہوجانا چاہیے تھا لیکن وہ بھی التوا کا شکار ہے۔

ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بدقسمتی سے ایف آئی کو آج نیب 2 بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس کی حیثیت کو تبدیل کیا جارہا ہے یہ ہمارا قومی ورثہ ہے اسے نیب کی طرح تباہ نہیں ہونا چاہیے۔

افغانستان: فریقین میں امن مذاکرات جلد شروع ہونے کا امکان

اسلام آباد ہائیکورٹ نے تحقیقات کیخلاف آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کی درخواست نمٹادی

پارک لین ریفرنس: آصف زرداری پر ایک مرتبہ پھر فرد جرم عائد نہ ہوسکی