دنیا

مغربی کنارے کا انضمام ’اعلان جنگ‘ ہوگا، حماس

مزاحمتی تحریک مغربی کنارے اور وادی اردن کو ضم کرنے کے فیصلے کو عوام کے خلاف اعلان جنگ سمجھتی ہے، ترجمان ابو عبیدہ

فلسطین کے مگربی کنارے غزہ پر حکومت کرنے والی جماعت حماس کا کہنا ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے کے کچھ حصوں پر اسرائیل کا قبضہ ’اعلان جنگ‘ ہوگا جبکہ اقوام متحدہ کے مندوب نے خبردار کیا ہے کہ یہ اقدام شدت پسندی کو ہوا دے سکتا ہے۔

واضح رہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نتن یاہو نے فلسطینیوں اور بین الاقوامی برادری کی مخالفت کے باوجود یکم جولائی سے مقبوضہ مغربی کنارے سے انضمام کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ٹی وی پر خطاب کرتے ہوئے حماس کے ملٹری ونگ کا کہنا تھا کہ اس طرح کا اقدام فلسطینیوں کے ساتھ جنگ کا سبب بنے گا۔

ملٹری ونگ کے ترجمان ابو عبیدہ نے کہا کہ ’مزاحمتی تحریک مغربی کنارے اور وادی اردن کو ضم کرنے کے فیصلے کو عوام کے خلاف اعلان جنگ سمجھتی ہے‘۔

مزید پڑھیں: اقوام متحدہ، عرب لیگ کا اسرائیل سے انضمام کا منصوبہ ترک کرنے کا مطالبہ

یاد رہے کہ 2007 سے میں جب غزہ پر اسلامی تحریک حماس نے کنٹرول حاصل کیا تھا تب سے اسرائیل کی جانب سے سخت بندش میں ہے۔

حماس اور اسرائیل کے درمیان حالیہ برسوں میں تین جنگیں لڑی جاچکی ہیں جن میں 2014 کے تازہ ترین تنازع میں اسرائیل نے 2 ہزار 251 فلسطینی قتل کردیئے تھے جبکہ تنازع میں اسرائیل کے صرف 74 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے اور وادی اردن میں اپنی بستیوں کے انضمام کی تجویز جنوری میں شائع ہونے والے امریکی امن منصوبے کا ایک وسیع حصہ ہے۔

ان تجاویز میں غزہ کی پٹی سمیت مغربی کنارے کے باقی علاقوں پر فلسطینی ریاست کی حتمی تخلیق کا کہا گیا تھا۔

لیکن یہ منصوبہ فلسطین کی امنگوں پر ذرا بھی پورا نہیں اترا تھا جس میں کم علاقوں پر مشتمل ریاست اور مشرقی یروشلم کو دارالحکومت بھی نہ بنانے کا کہا گیا تھا۔

فلسطینی حکام نے اسرائیل کے حامی مؤقف پر 2017 میں واشنگٹن کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کردیے تھے اور امریکی امن منصوبے کو بھی مسترد کردیا تھا۔

اقوام متحدہ کا انتباہ

اقوام متحدہ نے حالیہ ہفتوں میں اسرائیلی وزیر اعظم کے ارادوں پر خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے اور متنبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل-فلسطین تعلقات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

یروشلم میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے مشرق وسطٰی کے ایلچی نکولے مالدینوف نے کہا کہ انضمامم سے شدت پسندی کو ہوا مل سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’اگر فلسطینی یہ محسوس کرتے ہیں کہ تنازع کے پرامن حل کا کوئی امکان نہیں ہے تو اس سے شدت پسندی کو فروغ ملے گا‘۔

یہ بھی پڑھیں: ایک ہزار یورپی قانون سازوں کا اسرائیل سے فلسطینی علاقوں کو ضم نہ کرنے کا مطالبہ

نکولے مالدینوف نے عراق اور شام میں داعش کے عروج کا حوالہ دیتے ہوئے مشرق وسطی میں ’اس طرح کی پیشرفت کے امکانات‘ کی طرف اشارہ کیا۔

انہوں نے یہ بات اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کے ایک روز بعد کہی۔

اس اجلاس میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس کے ساتھ ساتھ یورپی اور عرب لیگ نے اسرائیلی وزیر اعظم سے اپنے انضمام کے عزائم کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

ان کے مطابق یہ اقدام بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے تاہم امریکا نے اس اتفاق رائے سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کو فیصلہ کرنے کا حق ہے۔

جہاں ممالک نے ابھی تک انتقامی اقدامات کا اعلان نہیں کیا ہے وہیں نکولے مالدینوف نے خبردار کیا کہ اسرائیلی اتحاد سے علاقائی تنازع پیدا ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’کوئی بھی ایک اور جنگ، مشرق وسطی میں تشدد کی ایک اور بھڑک اٹھتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتا ہے اور یقینی طور پر نہ ہی اتنی کسی میں صلاحیت ہے کہ اپنی سرحد کے پار تنازع کو بھڑکائے‘۔

30 جون تک کورونا وائرس کے کیسز 3 لاکھ کے بجائے سوا 2 لاکھ ہوجائیں گے، اسد عمر

جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن انتقال کر گئے

سندھ ہائی کورٹ نے فضائیہ ہاؤسنگ اسکیم کیس میں نیب، بلڈرز کو نوٹسز جاری کردیے