پاکستان

جنس تبدیلی کی درخواست:عدالت کا ہسپتال کو خاتون کو سہولت فراہم کرنے کا حکم

خاتون جنسی اضطراب کی بیماری کا شکار ہیں جس کا علاج جنس کی تبدیلی ہے، آپریشن ان کا قانونی حق ہے، وکیل
|

پشاور ہائی کورٹ نے حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کو جنس تبدیلی کی خواہش مند خاتون کو سہولت فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔

جسٹس قیصر رشید اور جسٹس نعیم انور پر مشتمل پشاور ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے خاتون کی جانب سے جنس تبدیلی کے لیے دائر درخواست پر سماعت کی۔

درخواست گزار کی جانب سے سینئر وکیل سیف اللہ مُہب کاکاخیل عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران آئین، خواجہ سراؤں کے قانون اور دیگر طبی و قانونی پہلوؤں پر دلائل دیے گئے۔

حیات آباد میڈیکل کپلیکس کے قانونی مشیر ایڈووکیٹ منصور طارق سے بھی کیس سے متعلق معاونت حاصل کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: جنس تبدیلی کی خواہشمند خاتون کا اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع

خاتون کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ درخواست گزار کا قانونی حق ہے کہ وہ کوئی بھی آپریشن کرا سکتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان کی موکلہ کو کوئی بھی فیصلہ کرنے کا اختیار ہے جبکہ قانون عوام کے حقوق کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتا بلکہ انہیں سہولت فراہم کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حال ہی میں پارلیمنٹ نے خواجہ سراؤں کے تحفظ سے متعلق قانون منظور کیا ہے اور خاتون اسی قانون کے سیکشن 2 کے تحت جنس تبدیل کرنا چاہتی ہیں۔

وکیل نے کہا کہ ان کی موکلہ جنسی اضطراب کی بیماری کا شکار ہیں جس کا علاج جنس کی تبدیلی ہے۔

عدالت نے تمام پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کو خاتون کو سہولت فراہم کرنے کا حکم دیا۔

عدالت نے حکم دیا کہ ہسپتال، خاتون کی جنس کی تبدیلی کے امکانات، کیس کے قانونی و طبی پہلوؤں، آپریشن کی پیچدگیوں اور اس سے خاتون کی زندگی کو لاحق خطرات اور ہسپتال کس طرح خاتون کو سہولت فراہم کر سکتا ہے اس سے متعلق 3 ماہ میں رپورٹ جمع کرائے۔

مزید پڑھیں: جنس تبدیلی کی سرجریوں میں 20 فیصد اضافہ

جسٹس قیصر رشید نے ریمارکس دیے پارلیمنٹ سے منظور شدہ قانون میں ایسے لوگوں کو تحفظ دیا گیا ہے، جبکہ خاتون کو عدالت کی بجائے ہسپتال جانا چاہیے تھا۔

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ جنس کی تبدیلی کے بعد شناختی کارڈ میں نام، جنس اور وراثت جیسے مسائل آئیں گے اس لیے عدالت سے رجوع کیا۔

واضح رہے کہ مارچ 2018 میں جنس تبدیلی کی خواہش مند اسلام آباد کی ایک خاتون نے بھی عدالت سے رجوع کیا تھا۔

درخواست گزار کا موقف تھا کہ 13 سال کی عمر میں جینیاتی تبدیلی محسوس کرنے پر ڈاکٹرز سے چیک اپ کرایا، جس کے بعد ڈاکٹرز نے جنس تبدیلی کے لیے ’ری اسائنمنٹ سرجری‘ کی تجویز دی۔