پی آئی اے کا 150 'مشکوک لائسنس' والے پائلٹس کو کام سے روکنے کا فیصلہ
راولپنڈی: پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (پی آئی اے) کی انتظامیہ نے اپنے 150 پائلٹس کو گراؤنڈ کرنے (کام کرنے سے روکنے) کا فیصلہ کیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے بدھ کے روز قومی اسمبلی میں انکشاف کیا کہ کمرشل پائلٹس کی ایک بڑی تعداد نے ’مشکوک لائسنس‘ حاصل کر رکھے ہیں۔
پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ نے ڈان کو بتایا کہ ’تقریبا 150 پائلٹس کو گراؤنڈ کیا جا رہا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ انتظامیہ نے مشکوک پائے جانے والے دیگر لائسنسز کی فہرست فوری طور پر سول ایوی ایشن اتھارٹی سے فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور ان تمام کو غیر معینہ مدت کے لیے گراؤنڈ کرنے کے بعد ان کےخلاف انکوائری کی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: 'پی آئی اے کے 4 پائلٹس سمیت 600 ملازمین کی ڈگریاں ٹھیک نہیں تھیں'
انہوں نے کہا کہ ’جو غلطی پر پائے جائیں گے انہیں مقررہ عمل کے بعد ملازمت سے فارغ کردیا جائے گا‘۔
ترجمان نے 22 مئی کو ہوائی جہاز کے حادثے پر وزیر ہوا بازی کے ذریعے پارلیمنٹ میں پیش کی جانے والی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کے نتائج کا اعتراف کیا جس میں 97 افراد ہلاک ہوگئے تھے اور اس رپورٹ کے نتائج کو گائیڈ لائنز کے طور پر استعمال کرتے ہوئے کمپنی میں حفاظت کے معیار کو مزید بہتر بنانے کے پی آئی اے کے عزم کی تصدیق کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ نومبر 2018 میں پنجگور میں پیش آنے والے واقعے کے بعد ایوی ایشن ریگولیٹر کے جاری کردہ مشکوک لائسنسز کی تحقیقات کو خود پی آئی اے نے اٹھایا تھا۔
واقعے میں ایک اے ٹی آر ہاٹ اور ہائی اپروچ کو استعمال کرتے ہوئے رن وے سے پھسل گیا تھا اور اس میں بھی کچھ بنیادی سطح کی غلطیاں سامنے آئی تھیں۔
اس واقعے کے بعد پائلٹ کی اسناد کی جانچ پڑتال کا مطالبہ کیا گیا جو مشکوک ثابت ہوا۔
یہ بھی پڑھیں: پی آئی اے کے طیارے کے حادثے سے قبل کس موضوع پر گفتگو ہورہی تھی؟
ریگولیٹر کو بھی یہی اطلاع دی گئی اور پی آئی اے نے حکومت سے درخواست کی کہ وہ اس معاملے کی ایک اعلی سطح کی تحقیقات کرے جس کا وزیر ہوا بازی نے فوری طور پر حکم دیا۔
ملک کے اندر حاصل کیے گئے تمام پائلٹس کے لائسنس کا مکمل فرانزک آڈٹ کیا گیا۔
پی آئی اے انتظامیہ نے انکوائری کے عمل کو تیز کرنے کے لیے مسلسل پیروی کی اور ملک کے اعلی ترین ایگزیکٹو آفس نے بھی اس میں مداخلت کی تھی۔
دریں اثنا پی آئی اے نے مزید 15 ایسے پائلٹس کا سراغ لگایا اور ان سب کو انکوائری بورڈ سے کلیئرنس ملنے تک گراؤنڈڈ کردیا گیا۔
اس طرح کے پائلٹس کی تنخواہوں کی وجہ سے پی آئی اے کو ایک کروڑ 75 لاکھ سے 2 کروڑ تک کی لاگت آئی جس میں اضافی سہولیات اور مراعات شامل نہیں۔
ترجمان نے کہا کہ اس اندوہناک واقعے کے نتیجے میں ہونے والی صورتحال کے اندرونی جائزہ کی بنیاد پر پی آئی اے مزید بہتری لانے کے لیے انضباطی اتھارٹی کو اضافی سفارشات پیش کرے گی اور اس میں کہا جائے گا کہ ریگولیٹر کو مضبوط ہونے کی ضرورت ہوگی اور لائسنسوں کی گرانٹ اور جانچ پڑتال میں بدعنوانیوں کو بالکل برداشت نہ کرنے کی پالیسی اپنانی ہوگی۔
عبداللہ حفیظ کا کہنا تھا کہ اس کے نتیجے میں کچھ پروازیں منسوخ کی جاسکتی ہیں لیکن کمرشل مفادات پر حفاظت کو فوقیت حاصل ہے اور صرف اصل سند حاصل کرنے والے قابل اعتبار پائلٹ ہی پرواز کے کام انجام دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ حفاظت پر کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کیا جاتا ہے ایک فلائٹ ڈیٹا مانیٹرنگ یونٹ قائم کیا گیا ہے جس کے ذریعہ اب پی آئی اے خود پی آئی اے کی پروازوں کے نیٹ ورک کے رجحانات کی پیمائش، تجزیہ اور شناخت کرے گی۔