برطانیہ کے پہلے مسلم رکنِ پارلیمنٹ، پنجاب کے گورنرمقرر
برطانیہ کے پہلے مسلمان رکن پارلیمنٹ کا اعزاز رکھنے والے پاکستانی بزنس مین محمد سرور کو پاکستان کے صوبہ پنجاب کا گورنر مقرر کیا گیا ہے۔ وہ اسکاٹ لینڈ میں گلاسگو سے لیبر پارٹی کے ممبر پارلیمنٹ رہ چکے ہیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان میں صوبہ پنجاب کے گورنر کا عہدہ سنبھالنے کے لیے وہ اپنی برطانوی شہریت چھوڑ دیں گے۔
پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، جس کی آبادی نو کروڑ 60 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ پنجاب کے گورنر کا عہدہ پاکستان کی حکومت میں تیسرا سینئر عہدہ سمجھا جاتا ہے۔
ان کے بیٹے انس سرور نے مئی 2010ء کے عام انتخابات میں اپنے والد کی جانب سے خالی کی گئی سیٹ سے کامیابی حاصل کی تھی۔ انس سرور کو سال 2011ء میں اسکاٹش لیبر پارٹی کا ڈپٹی لیڈر مقرر کیا گیا تھا۔
محمد سرور ایک کامیاب بزنس مین ہیں، جو اپنی کوششوں اور محنت کی بدولت نچلی سطح سے اس اعلی مقام پر پہنچے۔ انہیں برطانیہ میں رہنے والے ایشیائی لوگوں کے لیے رول ماڈل قرار دیا جاتا ہے۔
محمد سرور ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کے علاقے پیر محل میں پیدا ہوئے، انہوں نے فیصل آباد یونیورسٹی سے گریجویٹ کیا۔ 1976ء میں اُن کی شادی پروین سرور سے ہوئی، ان کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔
وہ 1978ء میں پاکستان سے نقل مکانی کرکے گلاسگو چلے گئے، جہاں انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز محنت مزدوری سے کیا۔ پھر انہوں نے ہول سیل کا بزنس شروع کیا جسے کچھ عرصے بعد کیش اینڈ کیری کے بزنس میں تبدیل کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ملٹی ملینئر بن گئے۔
انہوں نے 1997ء میں گلاسگو گووان سے پہلے مسلمان رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے قرآن پر حلف اُٹھایا، یہ برطانیہ کی سات سو سالہ پارلیمانی تاریخ کا پہلا واقعہ تھا۔ لیکن ان کی رکنیت معطل کردی گئی، ان کے اوپر الزام تھا کہ انہوں غلط بیان دینے کے لیے رشوت دی تھی تاکہ اپنے حریف امیدوار کو شکست سے دوچار کرسکیں۔ بعد میں انہیں اس الزام سے بری کردیا گیا تھا، پھر وہ 2010ء میں پارلیمنٹ کے رکن بننے سے پہلے اسکاٹش افیئرز سیلیکٹ کمیٹی کے چیئرمین کے عہدے پر بھی فائز رہے۔
ٹیلی گراف کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ان کے وطن واپسی کے اس فیصلےکی وجہ دراصل یہ ہے کہ وہ یقین رکھتے ہیں کہ برطانوی پارلیمنٹ کے رکن، سیلیکٹ کمیٹی کے چیئرمین اور برطانیہ میں کامیاب بزنس مین کی حیثیت سے ان کے تجربات پاکستان میں غریب لوگوں کی فلاح و بہبود کے کام آسکیں۔
انہوں نے ٹیلی گراف کو بتایا کہ انہیں برطانیہ کی شہریت کو ترک کرنے پر اس لیے مجبور ہونا پڑا کہ دوہری شہریت رکھنے والے فرد کو پاکستانی قانون کے تحت وزیر یا کسی اعلیٰ سطح کے عہدے پر فائز نہیں کیا جاسکتا۔
محمد سرور نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ زندگی چالیس برس کے بعد سے شروع ہوتی ہے، لیکن میں اب 61 برس کا ہونے جارہا ہوں، اور مجھے یقین ہے کہ زندگی 60 ویں برس سے شروع ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ”یہ بہت مشکل فیصلہ تھا۔ میرے بچے گلاسگو میں پلے بڑھے ہیں، میرے پوتے پوتیاں وہاں ہیں اور میں ان سے دور جاکر ان کی کمی بہت زیادہ محسوس کروں گا، لیکن بعض اوقات آپ کو کسی عظیم مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اس طرح کے مشکل فیصلے لینے پڑ جاتے ہیں۔“
پاکستان اس وقت بجلی کے پریشان کن بحران اور ہلاکت خیز دہشت گردی کی بغاوت سے دوچار ہے، لیکن محمد سرور چاہتے ہیں کہ تعلیم پر توجہ مرکوز کردی جائے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی موجودہ پوزیشن یہ ہے کہ وہ دنیا کا دوسرا ان پڑھ ملک ہے، چنانچہ اس صورتحال کو تبدیل کرنے کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ ہم اپنی توجہ تعلیمی ترقی پر مرکوز کردیں۔
انہوں نے کہا کہ بنیادی چیلنج یہ ہے کہ یہاں لوگ جمہوریت پر یقین نہیں رکھتے اور 70 لاکھ بچے ایسے ہیں جو اسکول نہیں جاتے، ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ یہ بچے اسکول جاسکیں۔
محمد سرور نے بتایا کہ ”میں گورڈن براؤن کے ساتھ کام کرنے جارہا ہوں، ہم دونوں پاکستان میں تعلیم کے فرغ کےا یک جرأت مندانہ منصوبے پر کام کریں گے، جس کے تحت 35 لاکھ بچے اگلے تین برسوں میں اسکول جاسکیں گے۔ تعلیم، تعلیم، اور صرف تعلیم۔“
انہوں نے بتایا کہ ”مجھے ڈیوڈ کیمرون کے فیصلے پر خوشگوار حیرت ہوئی،وہ برطانوی امداد میں صفر اعشاریہ سات فیصد تک اضافہ کرنے کا منصوبہ بنارہے ہیں۔ مجھے کنزرویٹو پارٹی کے اس اقدام پر بہت خوشی ہے۔ ہماری برطانوی قوم، بین الاقوامی مزاج رکھتی ہے۔“
انہوں نے کہا کہ ”میری زندگی کا مقصد ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ میں غربت، خاص طور پر بچوں کی غربت اور وہ لوگ جو میرے حلقہ احباب میں شامل ہیں، ان کی غربت کو دور کروں۔میں یہاں اسکاٹ لینڈ میں اپنی عظیم یادیں پیچھے چھوڑ کر جارہا ہوں، جہاں میرے بچے پیدا ہوئے، جہاں مجھے عزت ملی اور گلاسگو کے لوگ جنہوں نے مجھے اعزاز سے نوازا۔“
محمد سرور نے برطانیہ کے گزشتہ انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا، لیکن ان کے چھوٹے بیٹے انس سرور نے اپنے والد کی پیروی کرتے ہوئے برطانوی سیاست میں قدم رکھا اور اب وہ اسکاٹش لیبر پارٹی کے ڈپٹی لیڈر ہیں اور گزشتہ انتخابات میں گلاسگو سنٹرل سے پارلیمنٹ کے رکن بھی منتخب ہوئے تھے۔ اسی نشست سے محمد سرور انتخابات میں حصہ لیتے آئے تھے اور تین مرتبہ پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے تھے۔
لاہور سے انہوں نے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے رائٹرز کو بتایا کہ ”میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں ہے، اور اگر آپ سیاست کے میدان میں ہیں تو کچھ لوگ آپ کو پسند کریں گے، اور کچھ لوگ ناپسند کریں گے لیکن آپ کو ہمیشہ صحیح کام ہی کرنا چاہئیے۔“
ڈان اخبار کے نمائندے سید عرفان رضا کی رپورٹ کے مطابق صدر پاکستان کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ صدر نے وزیراعظم کی سفارش پر محمد سرور کو پنجاب کا گورنر مقرر کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ”آئین کے آرٹیکل 101(1) کے تحت صدر، صوبے کی گورنر کی تقرری وزیراعظم کی سفارش پر کرتا ہے۔“
یہ عہدہ سابق گورنر مخدوم احمد محمود کے استعفے کے بعد خالی ہوا تھا۔