دنیا

چین وادی گلوان کے حوالے سے بلند و بانگ دعوؤں سے گریز کرے، بھارت کا انتباہ

دونوں ملکوں نے صورتحال کو ذمے داری سے حل کرنے پر اتفاق کیا ہے لیکن بلند و بانگ دعوے اس مفاہمت کی نفی ہوگی، بھارتی وزیر خارجہ

بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد چین اور بھارت کے حکام کشیدگی کے خاتمے کی کوششیں کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود بھارت نے چین کو خبردار کیا ہے کہ وہ وادی گلوان کے حوالے سے بلند و بانگ اور ناقابل دفاع دعوؤں سے گریز کرے۔

پیر کو چین اور بھارتی فوج کے درمیان جھڑپ میں بھارت کے 20 فوجی مارے گئے تھے اور یہ 45 سال کے دوران دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان سب سے خونریز جھڑپ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سرحدی علاقے میں چین سے جھڑپ، افسر سمیت 20 بھارتی فوجی ہلاک

چین نے جھڑپ میں اپنے کسی فوجی کے زخمی یا ہلاک ہونے کی تفصیلات جاری نہیں کیں۔

خبر رساں ایجنسی 'اے ایف پی' کے مطابق وادی گلوان کے حوالے سے چین کے دعوے کا جواب دیتے ہوئے بھارتی وارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سری واستوا نے کہا کہ دونوں ملکوں نے صورتحال کو ذمے داری سے حل کرنے پر اتفاق کیا ہے، البتہ بلند و بانگ اور ناقابل دفاع دعوے اس مفاہمت کی نفی ہو گی۔

دونوں ملکوں کی افواج نے ایک دوسرے پر جھڑپ شروع کرنے کا الزام عائد کیا جہاں مذکورہ وادی ہمالیہ کی سرحدوں پر لداخ کے متنازع علاقے میں واقع ہے۔

چین اپنے موقف پر قائم ہے جس کے مطابق بھارتی فوجیوں نے جان بوجھ کر اشتعال انگیزی کی اور ان کے افسران پر حملہ کیا البتہ انہوں نے مذاکرات کا عندیہ بھی دیتے ہوئے وسیع دوطرفہ تعلقات کی اہمیت پر زور دیا۔

مزید پڑھیں: بھارت امن چاہتا ہے، اشتعال دلایا تو مناسب جواب دیں گے، مودی

چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے وزیر خارجہ وینگ یی کی بھارتی ہم منصب سے گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ دوطرفہ احترام اور تعاون ہمارے وسیع تر طویل المدتی مفاد میں ہے کیونکہ دونوں ہی ملک ترقی کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔

انہوں نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ واقعے کے بعد چین اور بھارت نے سفارتی اور فوجی ذرائع سے رابطہ کیا، دونوں فریقین نے وادی گلوان میں تنازع کا سبب بننے والے واقعات سے سنجیدگی اور شفافیت سے نمٹنے اور ہر ممکن حد تک صورتحال کو بہتر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

جمعرات کو بھارت کی چھوٹی اور درمیانے درجے کی کمپنیوں کی کنفیڈریشن نے مبینہ چینی جارحیت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کھلونوں اور ٹیکسٹائل سمیت چین کی 500 سے زائد اشیا کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا۔

یہ مطالبہ ایک ایسے موقع پر کیا گیا جب بدھ کو نئی دہلی میں مشتعل عوام نے بھارتی فوجیوں کی ہلاکت پر احتجاج کرتے ہوئے چین کی بنائی ہوئی اشیا کی توڑ پھوڑ کی اور شدید نعرے بازی کی۔

یہ بھی پڑھیں: 20 فوجیوں کی ہلاکت کے بعد بھی بھارت دفاعی پوزیشن میں کیوں ہے؟

واضح رہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے پہلے ہی بھارت میں چین مخالف جذبات پائے جاتے تھے اور لداخ میں ہوئی جھڑپ کے بعد چین مخالف جذبات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

بھارت میں اب تک 3 لاکھ 66 ہزار سے زائد افراد کورونا وائرس سے متاثر جبکہ 12 ہزار 200 سے زائد ہلاک ہو چکے ہیں۔

تاہم اگر بھارتی عوام کی جانب سے بائیکاٹ کے مطالبے پر چین کوئی ردعمل دے کر اپنی مصنوعات کی بھارت کو برآمد پر پابندی عائد کر دیتا ہے تو بھارت بڑی مشکل میں پڑ جائے گا کیونکہ چین، بھارت میں سرمایہ کاری کرنے والے بڑے ممالک میں سے ہے۔

خصوصاً موجودہ حالات میں یہ معاملہ انتہائی نازک ہے کیونکہ اگر چین نے بھارت کی فارما سیوٹیکل انڈسٹری کو خام مال کی ترسیل پر پابندی لگا دی تو کورونا کا شکار بھارت بڑی مشکل میں پھنس سکتا ہے اور ادویات کا بحران پیدا ہو جائے گا۔

بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق بدھ کو بھارت اور چین کی سینئر فوجی قیادت نے ملاقات کی تھی البتہ اس بارے میں دونوں ہی ملکوں کی جانب سے باضابطہ طور پر کوئی اعلان نہیں کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: بھارت، چین کے درمیان سرحدی علاقے میں جھڑپ، دونوں ممالک کے متعدد فوجی زخمی

بھارتی سیکیورٹی فورسز کا کہنا ہے کہ دونوں ہی جانب سے کوئی گولی نہیں چلائی گئی، بلکہ اس کے بجائے ہاتھا پائی اور پتھراؤ کیا گیا اور شدید زخموں اور علاقے میں منجمد کرنے دینے والی سردی کے سبب کرنل سمیت 20 بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے۔

اس تنازع کا آغاز مئی میں اس وقت ہوا تھا جب بھارت نے الزام عائد کیا تھا کہ چینی فوجی اس کے ملک کی حدود میں تین جگہ سے داخل ہوئے اور وارننگ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے وہاں ٹینٹ گاڑ کر چیک پوسٹ بنا لی۔

اس کے بعد دونوں ملکوں کے فوجیوں کے درمیان ہاتھا پائی، گالم گلوچ اور پتھراؤ کے واقعات رونما ہوتے رہے جس کی ویڈیوز گزشتہ چند ہفتوں میں بھارتی میڈیا اور سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہیں۔

چین کے وزیر خارجہ نے بھارت کو خبردار کیا تھا کہ چین کی خودمختاری اور حدود کی حفاظت کے عزم کو بھارت کمزوری سمجھنے کی غلطی ہرگز نہ کرے ورنہ اسے بھیانک نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

چین کی وزارت خارجہ نے بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سرحد پر ہونے والے خونی تصادم کے ذمے داران کو فوری سزا دے۔

یہ بھی پڑھیں: چین اور بھارت سرحدی تنازع کے پُرامن حل کے متلاشی

ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان براہ راست جنگ کے امکانات انتہائی کم ہیں البتہ کشیدگی میں کمی میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔

چین دعویٰ کر رہا ہے کہ اس کا 90 ہزار اسکوائر کلومیٹر کا علاقہ بھارت میں واقع ہے جس کے جواب میں بھارت نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کا 38 ہزار اسکوائر کلومیٹر کا علاقہ چین کی حدود میں اکسائی چن کے پہاڑی علاقے میں واقع ہے۔

بھارت نے یکطرفہ طور پر اقدامات کرتے ہوئے 5 اگست 2019 کو مقبوضہ کشمیر کے ساتھ ساتھ لداخ کے متنازع علاقے کو بھی اپنی وفاقی حدود میں شامل کر لیا تھا۔

چین نے اس اقدام کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سمیت تمام اہم فورمز پر اٹھایا تھا۔