ایغور مسلمانوں پر جبر، ٹرمپ نے چین پر دباؤ ڈالنے کیلئے بل پر دستخط کردیے
امریکا کے سابق مشیر قومی سلامتی کی جانب سے ایک کتاب میں امریکی صدر پر بڑے پیمانے پر ایغوروں کی نظر بندی کی منظوری کے الزام کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک قانون سازی پر دستخط کردیے جس میں ایغور مسلمانوں پر کیے جانے والے جبر پر پابندیوں کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق اس بل کو کانگریس نے صرف ایک مخالف ووٹ کے مقابلے کثرت رائے سے منظور کرلیا جس کا مقصد چین کی مسلم اقلیت کے اراکین پر ظلم و ستم کے ذمہ داروں کے خلاف پابندیوں کو لازم قرار دے کر چین کو ایک بھرپور پیغام دینا تھا۔
اقوامِ متحدہ کے اندازے کے مطابق چین کے خطے سنکیانگ میں 10 لاکھ سے زائد مسلمان حراستی مراکز میں قید ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ایغور مسلمانوں سے غیرانسانی سلوک، امریکا کا چین کی 28 کمپنیوں پر پابندی کا اعلان
امریکی عہدیداروں کی جانب سے چینی حکام پر مسلمان کو تشدد، بدسلوکی اور ’ان کی ثقافت اور مذہب کو مٹانے‘ کا الزام لگایا جاتا ہے۔
دوسری جانب چین ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہہ چکا ہے کہ اس کیمپوں میں ہنر کی تربیت دی جاتی ہے اور یہ انتہا پسندی سے لڑنے کے لیے ضروری ہیں۔
امریکی صدر کی جانب سے بل پر دستخط کرنے بعد چین کی جانب سے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ اس کے ذریعے سنکیانگ میں انسانی حقوق کی صورتحال کو ’بدنام‘ کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور یہ چین کے خلاف بدنیتی پر مبنی حملہ ہے۔
چینی وزارت خارجہ کی جانب سے بیان میں کہا گیا کہ ’ہم ایک مرتبہ پھر امریکا پر زور دیتے ہیں کہ اپنی غلطی کو درست کرے اور چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور چینی مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے سنکیانگ سے متعلق قانون کا استعمال روک دے‘۔
مزید پڑھیں: ایغور مسلمانوں پر جبر: امریکا کا چینی حکام کے ویزے روکنے کا اعلان
فیصلے میں بغیر کوئی تفصیل بتائے یہ بھی کہا گیا کہ ’بصورت دیگر چین پوری طرح جوابی کارروائی کرے گا اور اس سے پڑنے والے اثرات کی تمام تر ذمہ داری امریکا پر عائد ہوگی‘۔
واضح رہے کہ امریکا اور چین کے مابین پہلے ہی کورونا وائرس کو سنبھالنے اور تائیوان کے لیے امریکی حمایت کے حوالے سے کشیدگی پائی جاتی ہے۔
ایغور مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والے سب سے بڑے جلا وطن گروپ ورلڈ ایغور کانگریس نے قانون سازی پر امریکی صدر کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اس سے ’مایوس ایغور افراد کو امید ملی ہے‘۔
ایغوروں سے متعلق امریکی قانون میں پہلی مرتبہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کی پالیسی بنانے والی کمیٹی پولیٹ بیورو، کمیونسٹ پارٹی سنکیانگ کے سیکریٹری، شین کوانگو کو ’انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی‘ کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے پابندی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مسلمانوں کے ساتھ رویے پر امریکی تنقید 'بےمعنی' ہے، چین
علاوہ ازیں بل میں سنکیانگ میں کام کرنے والی امریکی کمپنیوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کے اقدامات کریں کہ جبری مشقت سے تیار شدہ اشیا استعمال نہ کی جائیں۔
اس کے علاوہ امریکی صدر نے ایک دستخط شدہ بیان بھی جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ بل کی کچھ شرائط سفارت کاری کے لیے ان کے آئینی اختیار کو محدود کرسکتی ہیں لہٰذا اسے لازم نہیں بلکہ ہدایت کے طور سمجھا جائے۔
ایغور مسلمانوں کا معاملہ
خیال رہے کہ چین کے جنوبی صوبے سنکیانگ میں مسلم اقلیتی برادری 'ایغور' آباد ہیں جو صوبے کی آبادی کا 45 فیصد ہیں، سنکیانگ سرکاری طور پر چین میں تبت کی طرح خودمختار علاقہ کہلاتا ہے۔
یاد رہے کہ سنکیانگ میں 2009 میں ہونے والے خونی فسادات کے بعد چین نے وہاں کی مسلم برادری کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیا تھا اور انہیں حکومت کے حراستی کیمپوں میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
کریک ڈاؤن کے دوران بڑی تعداد میں ایغور مسلمان سفر کر کے ترکی پہنچی تھی جہاں کی زبان اور ثقافت بالکل سنکیانگ جیسی ہے۔چین کی جانب سے کئی ماہ تک حراستی مراکز کی موجودگی کا انکار کیا جاتا رہا لیکن عالمی دباؤ کے بعد چین نے ان حراستی مراکز کی موجودگی کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں عارضی ٹریننگ سینٹر قرار دیا تھا۔
چین کی جانب سے کبھی اس بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں کہ ان حراستی مراکز میں کتنے لوگ موجود ہیں اور انہیں کب تک وہاں رکھا جائے گا۔
اقوام متحدہ کی نسلی تعصب کے خاتمے کے لیے قائم کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ 10 لاکھ سے زائد ایغور اور دوسری مسلم اقلیتوں کے افراد چین کے صوبے سنکیانگ میں جنگی قیدیوں کے کیمپوں میں قید ہیں۔
اقوام متحدہ کی کمیٹی نے رپورٹ میں اس تعصب کو ’خطرناک' قرار دیا تھا کہ سرکاری اعداد و شمار موجود نہیں کہ کتنے افراد طویل عرصے سے ان کیمپوں میں قید ہیں یا کتنے افراد کو سیاسی تعلیمی سینٹر میں مختلف وقت گزارنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
چین نے اس رپورٹ کے رد عمل میں کہا تھا کہ ایغور مسلمانوں سے متعلق رپورٹ انسداد دہشت گردی کے تناظر میں بنائی گئی ہے جو حقائق کے منافی ہے۔
چین کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ’سنکیانگ میں تمام صورتحال مستحکم ہے اور تمام اقلیتی برادری باہم اتفاق سے زندگی گزار رہی ہے‘۔
اس سلسلے میں سنکیانگ کے حراستی کیمپ کی سابق خاتون قیدی نے بتایا تھا کہ ’انہیں اسلام کی بنیادی تعلیمات مثلاً عبایا پہنے اور مردوں کو داڑھی رکھنے سے روکا جاتا ہے‘۔
تاہم چین کا کہنا تھا کہ سنکیانگ میں مسلمانوں کے ساتھ بدسلوکی نہیں کی جارہی بلکہ انتہا پسندی کے پھیلاؤ سے بچنے کے لیے کچھ لوگوں کو تربیت فراہم کی جارہی ہے۔
بعدازاں یورپی یونین کے تین وفود نے جنوری میں سنکیانگ کے کیمپوں کا دورہ کیا تھا جس کے بعد انہوں نے بیان دیا کہ ’چین کے نام نہاد تربیتی مراکز میں جن لوگوں سے بات ہوئی وہ محض یاد کرائی گئی باتیں دہرا رہے تھے‘۔