وادی گلوان تنازع، بھارت کو ایک اور کارگل کا سامنا؟
اس ہفتے مشرقی لداخ میں بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تصادم ہوا جس میں کرنل سمیت 20 بھارتی فوجی ہلاک ہوئے۔ 1962ء کی جنگ کے بعد لداخ بارڈر پر یہ پہلا انتہائی پُرتشدد واقعہ ہے۔
لداخ کی گلوان وادی میں حالیہ کشیدگی کو سمجھنے کے لیے اس کی اسٹریٹیجک اہمیت کو جاننے کی ضرورت ہے۔ گلوان وادی کا نام اس میں بہنے والے دریا کے نام پر ہے۔ یہ دریا برطانوی دور میں اس علاقے کا کھوج لگانے والے لیہہ کے رہائشی غلام رسول گلوان سے منسوب ہے۔
بھارت اور چین کے درمیان اب تک متنازع سرحد لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر واقع یہ گلوان وادی اقصائے چین کے پاس واقع ہے اور دریا بھی اقصائے چین سے نکلتا ہے۔ اقصائے چین کا علاقہ چین کے کنٹرول میں ہے اور 60 کی دہائی میں پاکستان اور چین کے درمیان سرحدی معاہدے میں پاکستان نے اقصائے چین سے ملحق ایک حصہ چین کو دے دیا تھا۔ اس کے بالکل ساتھ سیاچن گلیشیئر ہے جس پر پاکستان اور بھارت دونوں کا دعویٰ ہے لیکن سیاچن گلیشیئر پر اس وقت بھارت قابض ہے۔
بھارت کے زیرِ قبضہ لداخ کا علاقہ 59 ہزار 146 مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔ اقصائے چین کا رقبہ 37 ہزار 550 مربع کلومیٹر ہے، جبکہ پاکستان نے سیاچن گلیشیئر سے ملحق 5 ہزار 180 مربع کلومیٹر کا علاقہ سرحدوں کے تعین کے وقت چین کے حوالے کیا تھا۔
لداخ کے شمال میں سیاچن گلیشیئر بھارت نے 80 کی دہائی میں قبضے میں لیا۔ سیاچن گلیشیئر پر بھارتی قبضہ چین اور پاکستان کو الگ کرتا ہے۔اگر سیاچن کو پاکستان واپس حاصل کر لیتا ہے تو نوبرا وادی اور لداخ خطرے میں پڑجائیں گے۔ کارگل ایک اور اہم علاقہ ہے جس پر پاکستان بھارت جنگ بھی ہوچکی ہے۔ کارگل لیہہ ہائی وے پر اگر پاکستان کبھی قبضہ کرتا ہے تو بھی لداخ بھارت کے ہاتھ سے نکل سکتا ہے۔ کارگل کی طرف سے کوئی بھی ایڈونچر سیاچن کی نسبت آسان ہے۔
دریائے گلوان کے بارے میں بھارت کا دعویٰ ہے کہ چین 1956ء تک گلوان دریا پر حق نہیں جتاتا تھا اور چین کا دعویٰ اقصائے چین میں واقع لائن پر دریا کے دوسرے کنارے پر تھا لیکن 1962ء میں چین نے اس پر قبضہ کرلیا تھا۔ جنگ بندی معاہدے کے بعد دونوں فوجیں پیچھے ہٹ گئی تھیں اور گلوان وادی خالی پڑی تھی۔ دونوں ملکوں نے جنگ بندی کے بعد نقشوں کا تبادلہ نہیں کیا تھا اور علاقے کے بارے میں تمام سمجھوتے مقامی فوجی کمانڈرز کی حد تک تھے۔
گلوان وادی کا علاقہ بھارتی فوج کی طرف سے سب سیکٹر نارتھ کہلائے جانے والے علاقے میں آتا ہے اور سیاچن گلیشیئر کے مشرق میں واقع ہے، یعنی گلوان وادی ہی اقصائے چین تک رسائی کا واحد راستہ ہے۔ گلوان وادی میں کشیدگی یہاں بھارت کی طرف سے سڑک کی تعمیر پر شروع ہوئی۔ گلوان نالہ پر بھارت نے ایک پل بھی بنایا جس پر چین کو تشویش ہوئی۔ یہ پل دریائے شیوک اور دولت بیگ اولڈی کے درمیان بنائی گئی سڑک کا حصہ ہے۔ اس سڑک کا افتتاح پچھلے سال بھارتی وزیرِ دفاع نے کیا تھا۔
بھارت کا دعویٰ ہے کہ یہ پل ایل اے سی سے ساڑھے سات کلومیٹر اندر اس کے اپنے علاقے میں ہے۔ چین کو تشویش ہے کہ بھارت علاقے میں سڑکیں اور پل بناکر اقصائے چین پر حملے یا کسی ایڈونچر کے لیے فوجی نقل و حرکت کو تیز تر اور آسان بنا رہا ہے۔
اقصائے چین 1962ء سے چین کے مکمل کنٹرول میں ہے۔ اقصائے چین کا علاقہ تبت اور سنکیانگ کو ملانے کے لیے اہم ہے اور چین نے یہاں ہائی وے بنا رکھی ہے۔ چین کو شبہ ہے کہ بھارت 1950ء کے اسٹیٹس کو بحال کرنے کے لیے مستقبل میں کوئی ایڈونچر کرسکتا ہے اور نیشنل ہائی وے اور اقصائے چین پر قبضے کی کوشش کرسکتا ہے۔ بھارت اس وقت امریکا کا اتحادی ہے، جبکہ تبت کے دلائی لامہ بھارت میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
گلوان وادی میں چین کی حالیہ سرگرمیوں کو بھارت ایک اور کارگل کی طرح دیکھ رہا ہے لیکن اس بار بھارت کے سامنے پاکستان نہیں بلکہ چین ہے۔ چین نے دریائے گلوان اور پینگانگ جھیل کے گرد مضبوط حصار بنا لیا ہے۔ گلوان وادی میں بھارتی کنٹرول کے علاقے میں چین 3 کلومیٹر اندر تک گھس چکا ہے۔
کارگل پر چڑھائی کرکے پاکستان نے سرینگر۔زوجیلا اور کارگل۔لیہہ ہائی وے کو شمال کی جانب سے لداخ سے کاٹنے کی کوشش کی تھی۔ اب چین گلوان وادی میں دریا کے دونوں اطراف اونچی چوٹیوں پر بیٹھا ہے اور داربک، شیوک، دولت بیگ اولڈی ہائی وے کے عین اوپر چین کی چوکیاں بن چکی ہیں، جس کے بعد بھارتی فوج کو سب سیکٹر نارتھ سے جوڑنے والی یہ سڑک اب خطرے میں پڑ چکی ہے اور یہ سیکٹر چین کے رحم و کرم پر آچکا ہے۔
چین کی فوج دریائے گلوان اور دریائے شیوک کے ملاپ کے مقام پر پہنچ چکی ہے اور یہ مقام اس سڑک سے صرف ڈیڑھ کلومیٹر کی دُوری پر ہے۔ یہ سڑک شیوک دریا کے ساتھ چلتی ہے اور چین کی فوج اونچائی سے اس سڑک کو آرٹلری اور میزائلوں کی مدد سے نشانہ بنانے کی پوزیشن میں ہے۔ چین اس سڑک پر مستقل قبضے یا اس پر مسلسل دباؤ کا ارادہ رکھتا ہے۔ چینی فوج کے انجینئر علاقے کو چین کی حدود میں بنی سڑکوں سے جوڑنے میں مصروف ہیں اور چین کی فوج علاقے میں کنکریٹ کے بنکر بنا رہی ہے۔ بھارت کا دعوٰی یہ ہے کہ یہ بنکرز ایل اے سی پر اس کی حدود کے اندر بنائے جا رہے ہیں۔
پہاڑ، جھیل اور دریاؤں کی وجہ سے ایل اے سی اس علاقے میں باضابطہ طے شدہ نہیں اور موسمی حالات کے تحت یہ حدود گھٹتی بڑھتی رہتی ہیں۔ بھارت کے سابق جرنیلوں کا خیال ہے کہ چین 60 مربع کلومیٹر کے رقبے پر قبضہ جما چکا ہے۔ چین نے پینگانگ جھیل اور گلوان دریا کے شمالی کنارے پر رقبے پر قبضہ جمایا ہے، جس سے بھارتی فوج کی کئی پیٹرولنگ پوسٹوں تک رسائی بند ہوگئی ہے۔ بند ہونے والی پیٹرولنگ پوسٹوں میں 14، 16، 18 اور 19 شامل ہیں۔
لداخ میں چین کے ہزاروں فوجیوں کے مقابلے میں بھارتی فوج کی تعداد کم ہے اس لیے وہ بھارتی جرنیلوں کو سوتے میں دبوچنے میں کامیاب ہوگیا۔ بھارت عام طور پر سال کے ان دنوں میں اودھم پور کی شمالی کمانڈ سے دستے فارمیشن ایریا میں بھجواتا تھا لیکن اس سال کورونا وائرس کے ڈر سے دستوں کی نقل و حرکت روک دی گئی اور چین نے بھارتیوں کو گلے سے دبوچ لیا۔ نئی دہلی میں بھارتی فوج کے ہیڈکوارٹرز میں اب اس بات کا جائزہ لیا جا رہا ہے کہ شمالی کمانڈ نے غفلت کا مظاہرہ کیا۔
بھارتی فوج کے ساتھ کارگل میں بھی یہی کچھ ہوا تھا اور انٹیلی جنس ناکامی کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا لیکن کارگل کے بعد کسی بھی بھارتی جنرل کو براہِ راست الزام دے کر کارروائی نہیں کی گئی تھی۔
بھارت کے سابق فوجی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ لداخ میں انٹیلی جنس کے ساتھ آپریشنل ناکامی بھی ان حالات کی وجہ بنی۔ بھارت کے ان سابق فوجی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ جب ہم نے 225 کلومیٹر سڑک بنائی تو ہماری فوج نے شیوک دریا کے ساتھ اس سڑک کی حفاظت کے لیے دستے کیوں تعینات نہیں کیے؟ اس سے پہلے دولت بیگ اولڈی میں 2013ء میں جب بھارت نے لینڈنگ گراؤنڈ تیار کیا تھا تو چین نے وہاں بھی مداخلت کی تھی، لیکن اس کے باوجود بھارتی فوج اس بار چوکنا نہ ہوئی۔ بھارتی فوج کی ناکامی اپنی جگہ، لیکن بھارت کی سیاسی قیادت بھی اب تک اس معاملے کی نزاکت کو پوری طرح تسلیم نہیں کر رہی۔
حالیہ جھڑپ کے بعد فوجی و سفارتی سطح پر رابطے جاری ہیں لیکن پیپلز لبریشن آرمی ان مذاکرات کے باوجود سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ گلوان اور شیوک دریاؤں کے درمیان دیسپانگ کے میدانی علاقے میں چین کی فوج نے 2 سڑکوں کی تعمیر شروع کردی ہے اور بھارت ان سڑکوں کی تعمیر کو اپنی حدود میں مداخلت تصور کرتا ہے۔
پینگانگ سو سیکٹر میں چین کے فوجیوں نے فنگر فور کا علاقہ بھی قبضے میں لے لیا ہے جو فنگر ایٹ تک بھارتی دعویداری والے علاقے میں 8 کلومیٹر پر محیط ہے۔ گلوان دریا کے سیکٹر میں چین کی فوج نہ صرف پیٹرولنگ پوسٹ 15 سے 17 تک علاقے پر قبضہ کر چکی ہے بلکہ گلوان دریا کے دونوں اطراف پہاڑی چوٹیوں پر بھی اس کا قبضہ ہے۔
گلوان دریا کے شمال میں چین کی فوج دیپسانگ میں داخل ہوچکی ہے اور یہاں چینی فوج نے پیٹرولنگ پوسٹ 12 سے 13 تک قبضہ کرلیا ہے۔ اترکھنڈ کے ہرسل سیکٹر میں بھی چین نے فوج کی تعداد بڑھا دی ہے۔ چین نے ایل اے سی پر اپریل کے آخر میں بڑی نقل و حرکت شروع کی اور انٹیلی جنس اطلاعات بھی ملیں لیکن بھارتی جرنیلوں کو چین کی پیش قدمی روکنے کے لیے اقدامات کی جرأت ہی نہ ہوئی۔
چین نے اس پیش قدمی کے بعد گلوان کو ہمیشہ سے اپنی خودمختاری اور کنٹرول کا علاقہ قرار دیا ہے۔ چین نے حال ہی میں قبضے میں لیے گئے علاقوں میں بنکرز بنانے کے ساتھ ایل اے سی پر اپنی حدود میں آرٹلری گنز نصب کردی ہیں جو پیش قدمی کرنے والے دستوں کو سپورٹ کر رہی ہیں۔ چینی فوج کی یہ پیش قدمی صرف لداخ تک محدود نہیں بلکہ 2 ہزار کلومیٹر سرحدی علاقے میں چین کی فوجوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اس طرح اسے مقامی کمانڈرز کی حد تک اشتعال انگیزی کے واقعات بھی نہیں کہا جاسکتا۔
بھارت کے وزیرِاعظم نریندر مودی نے 2 دن کا چپ کا روزہ توڑتے ہوئے کہا کہ بھارت امن چاہتا ہے لیکن اگر اشتعال دلایا گیا تو بھارت مناسب جواب دے گا، لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ لداخ کی حفاظت پر مامور بھارتی انفینٹری ڈویژن کے میجر جنرل ابھیجیت چین کے ہم منصب کے ساتھ کشیدگی میں کمی کے لیے مذاکرات کر رہے ہیں اور چین کی عسکری قیادت مذاکرات کے دوران قبضے میں لیے گئے 60 مربع کلومیٹر علاقے میں پوزیشن مضبوط کرنے میں لگی ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ چین اس علاقے سے واپسی کا ارادہ نہیں رکھتا۔
سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارتی میجر جنرل ابھیجیت نے چین کے ہم منصب کے ساتھ یہ مذاکرات بھارتی دعویداری کے علاقے کے 3 کلومیٹر اندر کیے اور اب صورتحال یہ ہے کہ پینگانگ سو میں چین کے فوجی جھیل میں موٹربوٹس پر گشت کر رہے ہیں۔
بھارت کو دباؤ میں لانے کے لیے چین نے عام طور پر پُرامن رہنے والے ہماچل پردیش اور اترکھنڈ بارڈر پر بھی فوجی نقل و حرکت بڑھانا شروع کردی ہے، جبکہ گشت میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔
پینگانگ سو سے 200 کلومیٹر دُوری پر واقع ایئرپورٹ پر بھی چین فوجی انفرااسٹرکچر کو بہتر بنا رہا ہے۔ 14 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع یہ ایئرپورٹ تبت میں واقع 4 ہوائی اڈوں میں سے ایک ہے۔ 2017ء میں ڈوکلام میں جھڑپ کے بعد سے چین اس ایئرپورٹ پر جنگی طیارے تعینات کرچکا ہے۔ چین نے تبت کے علاقے میں کی گئی بڑی فوجی مشقوں کی ویڈیو بھی جاری کی ہے جس میں جنگی طیاروں، راکٹ فورسز، ایئر ڈیفنس ریڈارز، جیمرز سمیت ہر شعبے نے حصہ لیا، یہ بھی چین کی طرف سے ایک پیغام ہے۔
اب بھارتی میڈیا میں یہ رپورٹس شائع کی جا رہی ہیں کہ بھارت ایل اے سی پر فوجی ایس او پیز تبدیل کرنے پر غور کر رہا ہے۔ روایتی طور پر دونوں اطراف کی فوجیں بغیر اسلحہ گشت کرتی ہیں لیکن اب بھارتی میڈیا رپورٹس میں کہا جا رہا ہے کہ 20 فوجیوں کی ہلاکت کے بعد اسلحہ کے بغیر گشت کی روایت ختم کردی جائے گی۔ اگر بھارت اس روایت کو ترک کرتا ہے تو ایل اے سی پر پُرتشدد واقعات میں اضافہ ہوسکتا ہے جو کسی بھی وقت بڑے تصادم کو جنم دے سکتا ہے۔
دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات بالخصوص مشرق وسطیٰ ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔