یہ وقت تو اختیارات دینے کا ہے لینے کا نہیں


اسٹیبلشمنٹ کے حامی سیاستدان 18ویں ترمیم پر نظرثانی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہی وہ قانون ہے جس نے لسانی اعتبار سے تناؤ کی شکار ریاست میں اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کیا۔ ایک ایسی ریاست جہاں مرکزیت پسند کی شدید طلب نے اکثر سانحات کو جنم دیا، جیسے سال 1971ء کو ہی لے لیجیے۔
یہ بات تو واضح ہے کہ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے عمل کو ایک منصوبہ بندی کے تحت عوامی مینڈیٹ کے بغیر معطل کرنے سے صرف تناؤ اور پریشانیاں ہی بڑھیں گی۔
عالمی اسباق یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کا عمل بڑی یا لسانی اعتبار سے منقسم ریاستوں میں غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی سے حکمران پہلے سے زیادہ جوابدہ بن جاتے ہیں اور اس کے ذریعے سیاسی میدان میں مختلف گروہوں کو جگہ ملنے سے تنازعات میں کمی آتی ہے۔ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کی قدر و اہمیت کا اندازہ خطے کے ممالک سے بھی ہوجاتا ہے۔
تکثیری ملکوں میں اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کارگر ثابت ہوتی ہے۔ بنگلہ دیش کے فطری قومی تشخص کے برعکس دیگر بڑے سارک ممالک کا قومی تشخص ان کا اپنا بویا ہوا ہے، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہاں مختلف لسانی گروہ باہمی فوائد کی خاطر ایک بڑے ملک میں مل کر رہتے ہیں۔ ایسے ممالک میں لسانی گروہوں کو خوش رکھنے کے لیے انہیں اختیارات منتقل کرنے ہوتے ہیں۔
سارک ممالک کے ساتھ ہمیشہ سے یہ معاملہ نہیں رہا ہے۔ گزشتہ 4 دہائیوں سے جنگ کا سامنا کرنے والے افغانستان کو کبھی بھی آئینی اعتبار سے آگے بڑھنے کا موقع ہی نہیں مل سکا۔
سری لنکا 1987ء تک وحدانی ریاست بنا رہا جس کے باعث تامل اقلیت میں غم و غصہ پایا جاتا تھا اور ایک طویل خانہ جنگی چلتی رہی۔ جنگ تو اختتام کو پہنچ گئی لیکن تامل باشندوں کی شکایتوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے کیونکہ سری لنکا میں مرکزیت پر مبنی نظام رائج ہے جہاں نہ سینیٹ ہے اور بڑی حد تک دکھاوے کے صوبے موجود ہیں۔
نیپال 3 بڑے لسانی گروہوں پر مشتمل ایک وحدانی ریاست تھی اور اس ملک نے طبقاتی بنیادوں پر ہونے والی ماؤ خانہ جنگی کا سامنا بھی کیا۔ 2015ء میں 7 صوبوں کو اختیارات کی منتقلی سے متعلق معاہدے کے بعد جاکر جنگ اور سیاسی تعطل کا خاتمہ ہوا۔ مگر یہ دیکھنا باقی ہے کہ یہ تجربہ کس قدر کارگر ثابت ہوتا ہے۔