پاکستان

کراچی کے ایک رکن صوبائی اسمبلی کے اہلخانہ کے 18 افراد کورونا سے صحتیاب ہوئے

رکن صوبائی اسمبلی کے پاس بہار کالونی میں واقع اپنے دو منزلہ مکان میں خود کو قید کر لینے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا، رپورٹ

کراچی: محترم ارشد بھٹی اور ان کی اہلیہ سے ملیے، کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز کے دوران پھیلتی قیاس آرائیوں، دیو مالائی کہانیوں اور ذہنی تناؤ سے معاشرے کو جکڑنے والے اس وائرس کے باوجود 60 سے زائد عمر کے اس جوڑے کے پاس ہمیں بتانے کو بہت کچھ ہے۔

رمضان سے دو دن قبل بھٹی صاحب کا کورونا کا ٹیسٹ مثبت آیا تھا، ڈاکٹرز کی ہدایات پر انہوں نے فوری طور پر اپنی بیوی نسرین بی بی سے رابطہ کیا اور ان کا بھی کورونا کا ٹیسٹ مثبت آیا۔

مزید پڑھیں: ملک میں مزید 2 ہزار 249 افراد کورونا سے متاثر، پنجاب میں اموات ایک ہزار سے زائد

وائرس کی علامات کو دیکھتے ہوئے اس جوڑے نے خود کو کورنگی میں واقع اپنے دو کمروں کے گھر میں قرنطینہ کر لیا، یہ ایک عام اور معمولی بات محسوس ہوتی ہے، لیکن انہیں، ان کے دوستوں اور رشتے داروں کو جو تفصیلات معلوم ہوئیں اس نے انہیں آنے والے دنوں میں پریشان کر دیا۔

ان کے ایک قریبی عزیز نے بتایا کہ نسرین بی بی ہیپاٹائٹس سی کی مریضہ ہیں اور کرونک لیور بیماری کا بھی شکار ہیں، 9 سے 10 سال قبل ان کا جگر ناکارہ ہو گیا تھا اور ان کے بچنے کی امیدیں بالکل ختم ہو گئی تھیں لیکن وہ بچنے میں کامیاب رہیں، البتہ اس کورونا وائرس کے نئے چیلنج نے سب کو ان کی صحت کے حوالے سے کافی پریشان کر دیا تھا کیونکہ وہ سب سے زیادہ خطرات کا شکار تھیں۔

لیکن ان دونوں نے ہمت نہیں ہاری اور اس چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے جرات سے کام لیا، وہ گھر پر رہے، زیادہ سے زیادہ وقت عبادت کی اور اپنے رشتے داروں اور دوستوں سے موبائل فون کے ذریعے رابطے میں رہے۔

ارشد بھٹی نے کہا کہ وہ قرنطینہ کے دو دن بعد ہی وہ بہتر محسوس کرنے لگے تھے اور جو معمولی علامات ظاہر بھی ہوئی تھیں، وہ بھی ختم ہونے کے باوجود انہوں نے 14دن کا قرنطینہ مکمل کیا لیکن ان کی بیوی کے حوالے سے اہلخانہ اور دوستوں کی تشویش کم نہ ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور کے مختلف علاقوں میں کل سے 15 روزہ لاک ڈاؤن ہوگا، یاسمین راشد

انہوں نے بتایا کہ اللہ کے فضل سے وہ آئسولیشن کے دوران مکمل فٹ اور صحت مند رہیں، انہوں نے فیصلہ کیا تھا کہ افواہوں اور قیاس آرائیوں پر دھیان نہیں دیں گے، ہم نے اپنا زیادہ تر وقت عبادت اور صحت مند سرگرمیوں میں صرف کیا، ہمارا بیرونی دنیا سے کچھ لینا دینا نہیں تھا، ہمیں احتیاط سے کام لیتے ہوئے تمام تر احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا چاہیے لیکن ہمیں ڈرنے یا منفی سوچ اپنانے کی ضرورت نہیں، ہم دونوں کے کورونا کے ٹیسٹ یکے بعد دیگرے منفی آئے۔

لیاری سے رکن صوبائی اسمبلی

اگر ارشد بھٹی کی کہانی لوگوں کو متاثر کن نہ لگے تو لیاری سے جماعت اسلامی کے رکن قومی اسمبلی سید عبدالرشید کے اہلخانہ کی کہانی میں کچھ ایسا ہے جو لوگوں کے حوصلے بلند رکھ سکتا ہے۔

دو ماہ کے لاک ڈاؤن کے آغاز کے بعد رکن صوبائی اسمبلی سماجی سرگرمیوں میں مصروف رہے، صبح سے رات تک وہ فلاحی کاموں میں متحرک رہتے اور اپنے غریب حلقے لیاری کے رہائشیوں میں راشن اور دیگر ریلیف کی اشیا تقسیم کرتے رہے۔

ماہرین کی جانب سے سماجی فاصلے اور احتیاطی تدابیر کی ہدایات کے باوجود عبدالرشید اپنی مجبوریوں کے سبب اس پر عمل نہ کر سکے جس کی انہیں بھاری قیمت ادا کرنی پڑی اور رمضان کے آخری دنوں میں ان کا کورونا کا ٹیسٹ مثبت آ گیا لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں اگست تک کورونا سے ایک دن میں 80 ہزار اموات ہوں گی، برطانوی ادارہ

جوائنٹ فیملی میں رہنے والے عبدالرشید کے تمام اہلخانہ کا کورونا کا ٹیسٹ مثبت آیا اور گھر کے تمام 18 افراد کورونا کا شکار ہو گئے، ان کے پاس بہار کالونی میں واقع اپنے دو منزلہ مکان میں خود کو قید کر لینے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا جہاں ان کی 70 سال سے زائد عمر کی والدہ ٹیوبر کلوسز کی بھی مریضہ ہیں۔

ان میں سب سے کم عمر رکن صوبائی اسمبلی کا تین سالہ بیٹا تھا اور آئسولیشن کی تکمیل کے بعد ان کے اہلخانہ کے تمام افراد کا ٹیسٹ منفی آ گئے۔

سید عبدالرشید نے کورونا وائرس کا شکار افراد کو مشورہ دیا کہ آپ کو مضبوط رہنے، اللہ کے قرب اور اس بات پر یقین رکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ بیماری جلد ختم ہو جائے گی، ہمیں بحیثیت قوم ایک طویل سفر طے کرنا ہے اور یہ ثابت کرنا ہے کہ ہم ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں۔

امریکا میں رہنے والے ڈاکٹرز کی رائے

سندھ بھر میں گھر میں خود کو آئسولیٹ کرنے والے مریضوں کی نگرانی کرنے والی ڈاکٹر صدف منیر نے امریکی ریاست نیو جرسی میں واقع اپنے گھر سے گفتگو کرتے ہوئے کورونا سے شکار ممالک میں پاکستان کو خوش قسمت ترین ملک قرار دیا کیونکہ یہاں صحتاب ہونے والے مریضوں کی تعداد اوسط درجے سے بہتر ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے کراچی اور سندھ کے دیگر علاقوں میں 70 اور 80 سال سے زائد عمر کے افراد کو کورونا سے صحتیاب ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نیا کورونا وائرس پہلے سے زیادہ متعدی ہوگیا، تحقیق

ڈاکٹر صدف سمیت امریکا اور دیگر 15 ممالک میں مقیم 400 سے زائد خواتین ڈاکٹرز نے کورونا کے خلاف جنگ میں صوبائی حکومت کا ساتھ دینے کا بیڑا اٹھایا ہے اور وہ سندھ میں گھروں میں آئسولیشن میں موجود 18ہزار سے زائد کورونا کے مریضوں کی آئی ٹی اور دیگر مواصلاتی ذرائع کے ذریعے مدد و معاونت کر رہی ہیں اور انہیں طبی مشوروں سے نواز رہی ہیں۔

ان ڈاکٹرز کو ای-ڈاکٹر نامی منصوبے کے تحت صوبائی نظام صحت کا حصہ بنایا گیا ہے جو ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز اور ایجو کاسٹ کے تعاون سے چلایا جا رہا ہے اور اس کی بدولت مختلف ملکوں میں موجود 800 سے زائد خواتین ڈاکٹرز کو دوبارہ اس پیشے کی جانب لایا گیا ہے اور اپنی خاندانی ذمے داریوں کی وجہ سے کنارہ کشی اختیار کرنے والی خواتین ڈاکٹرز کو گزشتہ دو سال کے عرصے میں اس منصوبے کے ذریعے دوبارہ ڈاکٹر کے مقدس پیشے کا حصہ بنایا گیا ہے۔

ڈاکٹر صدف منیر نے کہا کہ امریکا میں ہم نے بوڑھے افراد کو اتنی بڑی تعداد میں صحتیاب ہوتے نہیں دیکھا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم بداحتیاطی کریں یا احتیاطی تدابیر کو نظر انداز کردیں اور جو لوگ وائرس کا شکار ہوئے ہیں انہیں حوصلے سے کام لیتے ہوئے یہ یقین رکھنا چاہیے کہ وہ جلد صحتیاب ہو جائیں گے۔

90سالہ فضل الرحمٰن اور ان کی 70سال سے زائد عمر کی بیوی ممتاز فضل کو صحتیاب دیکھ کر ڈاکٹر صدف منیر کے حوصلے مزید بلند و گئے ہیں، ان دونوں کے ساتھ ساتھ ان کی بہو اور پانچ اور ڈیڑھ سال کے ان کے پوتوں کا ٹیسٹ بھی مثبت آیا تھا۔

مزید پڑھیں: امریکا: پولیس کے ہاتھوں ایک اور سیاہ فام شخص کا قتل، تشدد میں مزید اضافہ

فضل الرحمٰن کے بیٹے اور وائرس سے محفوظ رہنے والے گھر کے واحد فرد حمیدالرحمٰن نے کہا کہ سب سے پہلے ہماری خالہ وائرس کا شکار ہوئیں جو ہماری پڑوسی بھی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میری والدہ ذیابیطس اور ہائپر ٹنشن کی مریضہ بھی ہیں، مجھے اپنے بوڑھے والدین کی بہت فکر تھی لیکن اللہ کے فضل و کرم سے گھر میں آئسولیشن مکمل کرنے کے بعد ان کے ٹیسٹ منفی آ گئے، ہم نے اطمینان کے ساتھ گھبرائے بغیر چیزوں کا سامنا کیا کیونکہ آپ مضبوط اعصاب کے ساتھ ہی اس کا سامنا کر سکتے ہیں۔