کینیڈا کی میکماسٹر یونیورسٹی کے وبائی امراض کے ماہر ہولگر شیکومان کا کہنا تھا کہ ہمارے نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ فیس ماسکس کا استعمال زیادہ ہجوم اور طبی مراکزز میں بہت زیادہ تحفظ فراہم کرسکتا ہے۔
مگر تحقیق کے نتائج کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے ہمارا یقین بہت زیادہ ٹھوس نہیں، یعنی محققین نتائج پر بہت زیادہ پراعتماد نہیں۔
اس حوالے سے کیلیفورنیا یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اینڈریو نویمیر (جو میکماسٹر یونیورسٹی کی تحقیق کا حصہ نہیں تھے) نے کہا کہ وبا کے دوران مکمل طور پر کنٹرول ٹرائل ناممکن ہوتا ہے تو محققین نے دیگر تجزیوں کا جائزہ لیا۔
دی لانسیٹ میں شائع تحقیق میں متعدد چھوٹی رپورٹس کے ڈیٹا کو اکٹھا کردیا گیا اور ہولگر شیکومان کا کہنا تھا کہ ان کا کام مشاہداتی ہے اور عملی طور پر ٹرائلز نہیں کیے گئے۔
مشاہداتی تحقیق عام طور پر کنٹرول تحقیق کے مقابلے میں محدود ہوتی ہے کیونکہ ان میں خارجی عناصر کے اثر کو خارج نہیں کیا جاسکتا۔
میکماسٹر کے محقق کا کہنا تھا کہ فیس ماسکس کا استعمال اس وقت زیادہ موثر آتا ہے جب ان کے ساتھ ہاتھوں کی صفائی اور سماججی دوری کا بھی خیال رکھا جائے۔
اس تحقیقی تجزیے میں شامل رپورٹس میں سے اکثر ہسپتال یا دیگر طبی مراکز پر مبنی تھیں جبکہ کچھ میں ایسے گھروں کا جائزہ لیا گیا تھا جہاں کوئی مریض مقیم تھا۔
تاہم کولمبیا یونیورسٹی کے وبائی امراض کے ماہر جیفری شامان نے کہا کہ شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ فیس ماسک کا استعمال کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک اہم ہتھیار ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ یہ منہ سے خارج ذرات اور ہوا میں موجود ذرات کو روک سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایشیائی ممالک جیسے جنوبی کوریا، تائیوان اور ویت نام میں وبا کے آغاز پر فیس ماسک کے استعمال کی شرح بہت زیادہ تھی اور انہیں اپنی معیشت کو رواں رکھنے کے ساتھ وائرس کو کچلنے میں زیادہ بہتر کامیابی ملی۔
ویک فورسٹ یونیورسٹی کے وبائی امراض کے پروفیسر ارنسٹ بیشوف کا کہنا تھا کہ فیس ماسک بہت اہم ہیں کیونکہ یہ سانس، زور سے بات کرنے، چیخنے اور گانے کے دوران منہ سے خارج ہونے والے وائرل ذرات کی روک تھام کرتے ہیں۔
پروفیسر ارنسٹ کو وائرسز کی نظام تنفس سے منتقلی کی تحقیقی رپورٹس کے حوالے سے جانا جاتا ہے اور ان کا مزید کہنا تھا کہ جب آپ معمول کے کام جیسے سانس لینا، بات کرنا اور گانے کا حصہ بنتے ہیں، تو آپ ذرات کو ماحول میں خارج کرتے ہیں، تو آپ کو ان کو روکنے کے لیے ایک سیل کی ضرورت ہوتی ہے۔
ان کے خیال میں فیس ماسکس وائرس کی منتقلی روکنے کے لیے انتہائی اہم عنصر کی حیثیت رکھتے ہیں۔
کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے ضروری نہیں کہ این 95 ماسک ہی درکار ہو درحقیقت کپڑے کے عام ماسک بھی اس سے تحفظ میں مدد فراہم کرسکتے ہیں، جیسا میکماسٹر یونیورسٹی کی تحقیق میں بھی بتایا گیا۔
رواں ہفتے برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کی تحقیق میں بھی بتایا گیا تھا کہ بڑے پیمانے پر فیس ماسکس کا استعمال اور حکومتی پابندیوں کے اطلاق سے وائرس کے پھیلاؤ کی شرح کو نمایاں حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔
تحقیق میں رچرڈ اسٹیوٹ کا کہنا تھا 'آپ لاک ڈاؤن لگاسکتے ہیں، آپ ماسکس پہن سکتے ہیں، مگر بہترین نتائج اس وقت حاصل ہوتے ہیں جب ان دونوں کا امتزاج کیا جائے'۔
ان کا کہنا تھا کہ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ منہ کو ماسک سے ڈھانپنا مکمل تحفظ فراہم نہیں کرتا مگر اس نے اسمولیشن سے عندیہ ملتا ہے کہ ایسی کسی بھی چیز کا استعمال جو منہ سے خارج ہونے والے بڑے ذرات کو روک سکے، وائرس کے زیادہ پھیلاؤ کی روک تھام کرسکتا ہے۔
فیس ماسک کے استعمال کا ایک اور فائدہ بھی ہے، ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا لوگ ایسے لوگوں سے دور کھڑے ہوتے ہیں جو ماسک پہنتے ہیں، اس سے وائرس کا ایک سے دوسرے فرد میں منتقلی کا امکان کم ہوتا ہے۔
مگر تمام ماہرین فیس ماسک کے استعمال پر نئی تحقیق کے نتائج سے مطمئن نہیں۔
جریدے پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز جرنل میں ماہرین کے ایک گروپ کے مقالے میں سوشل میڈیا کو استعمال کرکے فیس ماسک سے نیویارک کے لوگوں کے تحفظ کی بات کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
امریکا کی جونز ہوپکنز یونیورسٹی کی وبائی امراض کی ماہر کیٹ گریبوسکی نے اس مقالے پر جریدے کو اسے واپس لینے کا مشورہ دیا ہے جبکہ برمنگھم یونیورسٹی کے پروفیسر ولیم وان سچایک نے بھی اسے افسوسناک قرار دیا۔
اس مقالے کو تحریر کرنے والوں میں شامل ٹیکساس اے اینڈ ایم یونیورسٹی کے رینائی زینگ نے مقالے کو واپس لینے کے مطالبے کو مسترد کردیا۔