انہوں نے یہ خط اس مریضوں کے مشاہدے کی بنیاد پر تحریر کیا تھا جو کورونا وائرس سے متاثر ہوئے اور بعد میں ذیابیطس کی تشخیص ہوئی۔
ابھی تک یہ واضح نہیں کہ کس طرح کورونا وائرس ذیابیطس کا باعث بن سکتا ہے۔
مگر تحقیق میں بتایا کہ ایس 2 نامی وہ پروٹین جس کو سارس کوو 2 وائرس خلیات کو متاثر کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے، صرف پھیپھڑوں میں ہی نہیں بلکہ ان تمام اعضا اور ٹشوز میں پایا جاتا ہے جو گلوکوز میٹابولزم میں کردار ادا کرتے ہیں جیسے لبلبہ۔
محققین کا ماننا ہے کہ ان ٹشوز میں داخل ہوکر یہ وائرس ممکنہ طور پر اپنی نقول بناتا ہے اور گلوکوز میٹابولزم کے افعال کو متاثر کرتا ہے۔
یہ بات کئی برس پہلے ثابت ہوچکی ہے کہ وائرس انفیکشن ذیابیطس ٹائپ 1 کا شکار بناسکتا ہے۔
کووڈ 19 کے مریضوں میں ذیابیطس کے نئے کیسز کو محققین نے کووڈیب رجسٹری پروجیکٹ کا نام دیا ہے۔
کوو ڈیپ رجسٹری پروجیکٹ کے محقق اور تحقیقی ٹیم میں شامل کنگز کالج لندن کے میٹابولک سرجری کے پروفیسر فرانسسکو روبینو نے بتایا کہ کووڈ 19 کے کچھ مریضوں پہلے ہی ذیابیطس کے شکار تھے اور انہیں اس کا علم نہیں تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ یقیناً اس بات کا بھی امکان ہے کہ ذیابیطس کا علم انہیں ہسپتال میں اب ہوا ہو کیونکہ وہاں ان کا مکمل معائنہ ہوا اور انفیکشن بڑھنے سے شوگر بھی بڑھ گئی۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ بہت زیادہ تعداد میں کوڈ 19 میں ذیابیطس کی تشخیص ہونا درحقیقت توقعات سے بہت زیادہ ہے اور یہ مشکل لگتا ہے کہ اتنے لوگ کورونا وائرس کی تشخیص سے قبل ذیابیطس سے لاعلم رہے ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ذیابیطس میں مبتلا ہونے والے چند مریض پہلے ہی اس بیماری کے ابتدائی مراحل سے گزر رہے ہوں اور کووڈ 19 سے ان کے میٹابولزم کو مزید نقصان پہنچا۔
ان کا کہنا تھا 'کووڈ 19 سے میٹابولزم کے افعال معطل ہوگئے اور ذیابیطس کا مرض سامنے آگیا'۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ بھی ممکن ہے کہ مریضوں میں میٹابولزم افعال پہلے سے متاثر نہ ہوں بلکہ یہ وائرس اتنا طاقتور ثابت ہوا کہ ذیابیطس کے مرض کا باعث بن گیا، ہم ابھی ان مشاہدات کی بنیاد پر صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں'۔